’’نوائے وقت‘‘ کی پچھترویں سالگرہ پر محترمہ رمیزہ مجید نظامی جو اس وقت ’’نوائے وقت‘‘ گروپ کے اخبارات و رسائل کی ایڈیٹر اور ناشر ہیں اپنی بے پایاں خوشی کا اظہار کر رہی ہیں تو وہ حق بجانب ہیں کہ جس اخبار کا آغاز جناب حمید نظامی نے قائداعظم محمد علی جناح کے ارشاد پر کیا تھا اور جس کی آبیاری طویل عرصے تک جناب مجید نظامی نے کی تھی، آج پلاٹینم جوبلی منا رہا تھا۔ اس موقع پر انہوں نے ماضی کے تاریخی لمحات کو شمار کیا تو نوائے وقت کے بانی حمید نظامی اور نوائے وقت کے معمار مجید نظامی کو خراج تحسین پیش کیا کہ ’’انہوں نے ’’نوائے وقت‘‘ کے چمن کی آبیاری اپنے عرق و خون سے کی اور اپنی تحریر اور اخبار کو قارئین کے معیار کے مطابق بنایا۔‘‘
اس خوبصورت ہفت رنگ مصور شمارے کا سرورق پہلا تاثر تو یہ پیدا کرتا ہے کہ یہ جلیل القدر اخبار 1940ء سے آج تک (2015)پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کا محافظ رہا ہے۔ جناب حمید نظامی کی وفات کے بعد محترم مجید نظامی نے تحریک پاکستان کے اس بنیادی مقصد کو عوام کے دلوں میں اتارا اور نظریہ پاکستان ٹرسٹ قائم کیا جس کا بنیادی نصب العین سیکولر قوتوں کی ریشہ دوانیوں اور سیاستدانوں کی نااہلی کے دور میں دو قومی نظرئیے کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ پلاٹینم جوبلی سپیشل اس حقیقت کا غماز ہے کہ ’’نوائے وقت‘‘ گروپ کی ایڈیٹر محترمہ رمیزہ مجید نظامی نے اخبار کے اس بنیادی مشن کی آبیاری، پرورش اور استحکام کی کاوش پوری تندہی سے شروع کر رکھی ہے اور ’’نوائے وقت‘‘ کی قومی اور فکری پالیسی اب بھی وہی ہے جو محترم حمید نظامی نے تشکیل دی تھی اور جس کی مثبت توسیع میں جناب مجید نظامی عمر بھر کوشاں رہے۔
پلاٹینم جوبلی سپیشل کے سرورق کو ماضی کے حکمرانوں کی تصویروں سے سجایا گیا ہے۔ اس دائرے کی تصویروں میں فوقیت قائداعظم محمد علی جناح اور ان کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کو دی گئی ہے جن کی سیاسی مساعی، بصیرت اور حکمت عملی سے کفرستان ہند میں مسلمانوں کے اکثریتی صوبوں میں نظریاتی وطن قائم ہوا۔ ان دو تصویروں میں کامیابی کا تقدس اور حصول منزل کی طمانیت نمایاں نظر آتی ہے۔ دیگر تصویروں کی ترتیب یوں ہے۔ خود ساختہ فیلڈ مارشل ایوب خان، پاکستان کو دولخت کرنے والا صدر جنرل یحیٰی خان، بچے کھچے پاکستان کا پہلا حکمران ذوالفقار علی بھٹو ، منتخب حکومت کو پامال کرنے والا غاصب فوجی صدر جنرل ضیاء الحق، پی پی پی کی خاتون وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو، دوتہائی اکثریت رکھنے والے سیاسی وزیراعظم نواز شریف کی حکومت پر فوجی شب خون مارنے والے جنرل پرویز مشرف اور حالیہ دور کے سیاسی وزیراعظم میاں محمد نواز شریف۔ یہ تصویریں خاموش ہیں لیکن میرا تاثر یہ ہے فوجی حکمرانوں کی تصویریں ان کے دور حکومت میں پاکستان کی ترقی معکوس کی دردناک یادیں تازہ کرتی ہیں۔ جنرل ایوب خان کے چہرے پر جو فکرمندی محسوس ہوتی ہے وہ شاید ان کے ضمیر کی ملامت ہے۔ جنرل یحیٰی خان کی تصویر اس داخلی خودغرضی کی آئینہ دار ہے جس کے تحت انہوں نے صدر پاکستان بننے کی خواہش کی پرورش کی۔ جنرل ضیاء الحق کی تصویر اس تاثر کی آئینہ دار ہے کہ سرحدوں کے محافظ آئین کو معطل کرکے اقتدار پر قابض ہو جائیں تو قدرت انہیں کس طرح سزا دیتی اور انکے جسمِ خاکی کے پرزے ہوا میں اڑا دیتی ہے۔ جنرل پرویز مشرف کی تصویر میں انکے باطن کی تشویش انکے چہرے سے نمایاں نظر آتی ہے۔ سرورق کی ان تصویروں سے یہ تاثر جنم لیتا ہے کہ پاکستان کی تاریخ کا ہر ورق داغدار ہے۔ پرامن انتقال اقتدار کی روایت قائم نہیں ہوئی اور ماضی کی غلطیوں سے کسی حکمران نے سبق سیکھنے اور عوام کے آئینی حقوق کی پاسداری کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ نتیجہ یہ ہے کہ ماضی کے حکمران قومی تاریخ میں باعزت اور باوقار مقام حاصل نہیں کر سکے۔
لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ اس سرورق کے بائیں کونے پر دو چھوٹی چھوٹی تصویریں جناب حمید نظامی اور محترم مجید نظامی کی ہیں جو راستہ دکھانے والے ستاروں کی طرح جگمگا رہی ہیں۔ انہوں نے کبھی اقتدار کا تعاقب نہیں کیا بلکہ اقتدار سے محروم کر دئیے جانیوالے سیاستدانوں کے آئینی حقوق کی حمایت کی۔ عوام کے مفادات کی نگہداشت کی۔ نظریہ پاکستان کو فروغ دیا۔ مسئلہ کشمیر اور کالاباغ ڈیم کی وکالت کی اور ستم رسیدہ عوام کی آواز حکومت کے ایوانوں تک پہنچائی۔ پلاٹینم جوبلی سپیشل کے یہ دو چہرے روشن ہیں۔ یہ روشنی انکے کردار سے پھوٹ رہی ہے جس پر کبھی مطلب برآری اور مفاد پرستی کے آثار ظاہر نہیں ہوئے۔ ان دو تصویروں کا چہرہ انکے دل کا آئینہ ہے اور اس آئینے کا انعکاس گزشتہ 75سال کے دوران ’’نوائے وقت‘‘ کے صفحات پر ہوتا رہا ہے۔ ان شخصیات نے سیاستدانوں اور حکمرانوں کی رہنمائی صحیح سمت میں کی لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ان رہنمائوں نے اپنی کوتاہ عقل اور مفاد پرست مشاورت پر انحصار کیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج پاکستان گوناگوں بحرانوں میں پھنسا ہوا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پلاٹینم جوبلی سپیشل کے اندرونی صفحات پر صدر پاکستان ممنون حسین، وزیراعظم نواز شریف‘چودھری شجاعت حسین، پیر پگاڑا اور مولانا فضل الرحمان جیسے چوٹی کے لیڈروں نے نوائے وقت کے جرات مندانہ اور تاریخ ساز کردار کو داد و تحسین سے سراہا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ’’نوائے وقت‘‘ کے ان تجزیوں اور اداریوں کو درخورِ اعتنا سمجھا گیا جو قائداعظم کے افکار، تعلیمات اور عمل کی روشنی میں پیش کئے جاتے رہے۔ میں نے یہ تاثر صرف سرورق تک محدود رکھا ہے۔ یہ خاص نمبر بڑے سائز کے ایک سو صفحات پر مشتمل ہے اور موضوعات کا تنوع دیدنی ہے۔ مجموعی طور پر یہ شمارہ پاکستان کی تشکیل اور تعمیر کے 75 سال کے عرصے کی تاریخ بھی پیش کرتا ہے اور اس میں ’’نوائے وقت‘‘ کے تاریخ ساز کردار اور اس کردار کو مجسم صورت دینے والے ایثار پیشہ صحافیوں کی داستان بھی موجود ہے۔ نوائے وقت کی اس تاریخی اشاعت کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ میرا تاثر یہ ہے کہ پاکستان اور نوائے وقت لازم و ملزوم ہیں اور یہ جلیل القدر ایک روز اپنی ڈائمنڈ جوبلی بھی تزک و احتشام سے منائے گا۔ (انشاء اللہ)