حکومت اس معاملہ کا خود نوٹس لے اور ریاست کے اندر ریاست کا تصور نہ پنپنے دے
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور پارٹی کے سینئر رہنماء عارف علوی کے مابین مبینہ ٹیلی فونک گفتگو کی ریکارڈنگ منظر عام پر آگئی ہے۔ اس مبینہ گفتگو کیمطابق عارف علوی نے تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنوں کے دوران پی ٹی وی پر مظاہرین کے حملہ کی خبر عمران خان تک پہنچائی اور بتایا کہ لوگ پی ٹی وی کی عمارت میں گھس گئے ہیں جس کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ اب وزیراعظم نوازشریف پر دبائو بڑھے گا اور وہ استعفیٰ دے دینگے۔ اس ٹیلی فونک گفتگو میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی متوقع ٹیلی فونک کال کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے جسکے بارے میں عارف علوی عمران خان سے استفسار کرتے ہیں کہ آپ نے الطاف حسین کی جس ٹیلی فونک کال کے آنے کا بتایا تھا‘ وہ ہمیں ابھی تک موصول نہیں ہوئی جس پر عمران خان نے جواب دیا کہ آپ بھی الطاف حسین سے رابطے کی کوشش کرلیں اور ہم نے آج بھرپور دبائو ڈالنا ہے تاکہ کل پارلیمنٹ کے مشترکہ سیشن کے موقع پر نتیجہ سامنے آسکے۔ اس مبینہ ٹیلی فونک گفتگو میں عمران خان میاں نوازشریف کے بارے میں نازیبا الفاظ بھی استعمال کرتے نظر آتے ہیں جن کے بقول ’’دبائو بڑھے گا تو یہ مستعفی ہوگا ورنہ اس نے نہیں جانا‘‘۔
عارف علوی نے تسلیم کیا ہے کہ مبینہ ٹیلی فونک گفتگو میں سنائی دینے والی آواز انکی اور عمران خان کی ہی ہے تاہم انکے بقول اس گفتگو کو اپنے مفادات کے تحت جوڑ کر اسکی آڈیو کیسٹ تیار کی گئی ہے۔ انکے بقول انہوں نے عمران خان کو پی ٹی وی پر حملے کی اطلاع ضرور دی تھی مگر انہیں یہ بھی کہا تھا کہ انہیں اس حملے کی فی الفور مذمت اور اس سے تحریک انصاف کی لاتعلقی کا اعلان کرنا چاہیے چنانچہ عمران خان نے فوراً کنٹینر میں واپس جا کر پی ٹی وی پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے اس سے لاتعلقی کا اعلان کیا۔ عمران خان کے بقول انہوں نے کوئی آڈیو ٹیپ نہیں سنی تاہم کسی کا بھی ٹیلی فون ٹیپ کرنا قانونی طور پر جرم ہے۔ اگر میں چاہوں تو نوازشریف کے گانوں کی ٹیپ بھی سامنے لے آئوں۔
گزشتہ سال عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی جانب سے جس انداز میں حکومت مخالف دھرنا تحریک کا آغاز کیا گیا اور پارلیمنٹ ہائوس اسلام آباد کے باہر مسلسل جاری رکھے گئے ان دھرنوں کے دوران بالخصوص حکمرانوں کیخلاف جو زبان استعمال کی گئی اور پھر جس یقین کے ساتھ حکومت کے گرنے کی دھرنا مظاہرین کو خوشخبریاں سنائی جاتی رہیں‘ اس سے سیاسی حلقوں میں یہ تاثر پیدا ہوا کہ اس دھرنا تحریک کے پیچھے کوئی اور ہاتھ کارفرما ہیں جو اس تحریک کو اپنی مرضی کے مطابق چلارہے ہیں۔ اس دھرنا تحریک کے دوران پی ٹی وی کی عمارت کے اندر گھس کر توڑپھوڑ کرنا اور اس قومی ادارے کی نشریات روکنا بلاشبہ قابل مذمت فعل تھا جس کا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھی نوٹس لیا گیا اور قومی قائدین سمیت ہر مکتبۂ زندگی کے لوگوں کی جانب سے پی ٹی وی پر حملے کی مذمت بھی کی گئی جبکہ حکومت کی جانب سے حملہ آوروں کی تصویریں جاری کرکے انکی شناخت کرائی گئی اور مقدمہ بھی درج کرایا گیا۔ اس وقت متذکرہ حملے کے بارے میں عمران خان کی جانب سے یہ کہہ کر لاعلمی کا اظہار کیا گیا تھا کہ وہ تو اس وقت سورہے تھے جبکہ ڈاکٹر طاہرالقادری بھی معاملہ کی حساسیت کے پیش نظر اس حملے کا کریڈٹ لینے سے گریز کرتے رہے۔ اس وقت یہ تاثر بھی سامنے آیا تھا کہ اس حملے میں بھی انہی ’’فرشتوں‘‘ کا عمل دخل ہے جو دھرنا تحریک کو ڈکٹیٹ کررہے ہیں۔
پی ٹی وی پر حملے کا واقعہ اپنی جگہ افسوسناک اور قابل مذمت ہے مگر اس واقعہ کے چھ ماہ بعد اس حملے کے حوالے سے عمران خان اور عارف علوی کی ٹیلی فونک گفتگو پر مبنی آڈیو کیسٹ جاری کرنا اس امر کا واضح عندیہ ہے کہ جو ’’خفیہ ہاتھ‘‘ جمہوریت کا مردہ خراب کرنے اور سیاسی انتشار و عدم استحکام کی فضا برقرار رکھنے کی ڈیوٹی پر مامور ہیں وہ آج بھی اسی طرح سرگرم عمل ہیں۔ اس وقت جبکہ حکومت اور پی ٹی آئی کے مابین جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کا معاملہ طے پا چکا ہے اور دونوں جماعتوں کے مابین افہام و تفہیم کی فضا مستحکم ہوتی نظر آرہی ہے‘ چھ ماہ پرانے واقعہ کے حوالے سے عمران خان اور عارف علوی کی گفتگو پر مبنی آڈیو ٹیپ سامنے لانا بادی النظر میں حکومت اور پی ٹی آئی کے مابین افہام و تفہیم کی پیدا ہوتی فضا کو سبوتاژ کرنے اور دونوں کو پھر ایک دوسرے کیخلاف صف آراء ہونے کی ترغیب دینے کے مترادف ہے جبکہ دونوں جماعتوں کی جانب سے اس کا فوری ردعمل ایک دوسرے کیخلاف بیان بازی کی شکل میں سامنے آبھی چکا ہے جس میں وفاقی وزیر اطلاعات و قانون پرویز رشید کو پھر عمران خان کو رگیدنے کا موقع مل گیا ہے جبکہ عمران خان اب وزیراعظم میاں نوازشریف کے مبینہ گانوں کی ٹیپ منظرعام پر لانے کا عندیہ دے رہے ہیں۔ اس طرح متذکرہ ٹیلی فونک ٹیپ سامنے لانے والے منصوبہ ساز سیاسی انتشار برقرار رکھنے سے متعلق اپنے مقاصد میں کامیاب ہوتے نظر آرہے ہیں۔ اس سلسلہ میں عمران خان کا یہ مؤقف درست ہے کہ کسی کے فون ٹیپ کرنا قانوناً جرم ہے۔ جب تحریک استقلال کے سربراہ ایئرمارشل (ر) اصغر خان نے 20 سال قبل آئی ایس آئی کے سیاسی سیل کیخلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تو اس کا بنیادی نکتہ بھی یہی تھا کہ کسی ایجنسی کی جانب سے ٹیلی فون ٹیپ کرنا شہریوں کی پرائیویسی میں مداخلت اور چادر و چاردیواری کے تحفظ سے متعلق انکے بنیادی آئینی حقوق کے منافی اقدام ہے۔ یہ درخواست تقریباً 12 سال تک زیر التواء رہنے کے بعد جب 2007ء میں عدلیہ بحالی کیس کے موقع پر زیر بحث آئی تو جسٹس افتخار محمد چودھری کے کیس کی سماعت کرنیوالے عدالت عظمیٰ کے خصوصی بینچ کیلئے یہ عقدہ کھلا کہ اس بینچ کے ارکان فاضل ججوں کے فون بھی ٹیپ کئے جارہے ہیں۔ سپریم کورٹ نے اصغر خان کی درخواست منظور کرتے ہوئے آئی ایس آئی کا سیاسی سیل ختم کرنے اور ایجنسیوں کی جانب سے ٹیلی فون بگنگ کا سلسلہ فی الفور بند کرنے کے احکام صادر کئے جبکہ اب عمران خان اور عارف علوی کی ٹیلی فونک گفتگو منظر عام پر آنے سے اس امر میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہی کہ ایجنسیوں کی جانب سے مختلف شخصیات کے ٹیلی فون ٹیپ کرنے کا سلسلہ بدستور جاری ہے جس کا مقصد متعلقہ شخصیات کو بلیک میل کرکے اپنی مرضی کے مقاصد حاصل کرنا ہے۔ اس حوالے سے نوائے وقت کی ایک خصوصی رپورٹ بھی سامنے آئی ہے جس کیمطابق پولیس افسروں اور اہلکاروں کی جانب سے موبائل فون کال ریکارڈ اور دیگر تفصیلات کسی کو بھی فراہم کر دینے سے معاشرتی مسائل بڑھ رہے ہیں اور پولیس اہلکاروں نے موبائل فون کالز کا ڈیٹا فراہم کرنے کا عمل اپنی کمائی کا ذریعہ بنایا لیا ہے۔ یقیناً ٹیلی فونک گفتگو کی ٹیپنگ کسی کو بلیک میل کرنے کا ایک مؤثر ہتھیار ہے۔ اگرچہ ٹیلی فونک گفتگو کو عدالت عظمیٰ کے فیصلہ کی روشنی میں کسی کیس میں بطور گواہی پیش نہیں کیا جا سکتا مگر یہ فعل معاشرے کو انتشار‘ مار دھاڑ اور منافرتوں کے فروغ کی جانب ضرور لے جاسکتا ہے۔ جب آئین میں شہریوں کو پرائیویسی کے تحفظ کے حقوق حاصل ہیں اور سپریم کورٹ بھی اس اقدام کو غیرقانونی قرار دے چکی ہے تو یہ عمران خان اور عارف علوی کی ٹیلی فونک گفتگو کا منظرعام پر لایا جانا خود حکمرانوں کیلئے لمحۂ فکریہ ہے کیونکہ کوئی ریاستی ادارہ خود کو آئین‘ قانون اور عدالتی فیصلوں کی عملداری سے بالاتر سمجھ کر ناجائز طور پر اپنے اختیارات استعمال کرتا ہے تو یہ ریاست کے اندر ریاست کے تصور کو پختہ کرنے اور حکومتی اتھارٹی کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔ اگر حکمرانوں کو صورتحال کی اس نزاکت کا احساس ہے تو انہیں عمران خان اور عارف علوی کی منظرعام پر لائی گئی ٹیلی فونک گفتگو پر خود سخت نوٹس لیکر اس امر کی جامع انکوائری کرانی چاہیے کہ ٹیلی فونک گفتگو ٹیپ کرنے کی حرکت کس ایجنسی کی جانب سے سرزد ہوئی اور اسکے اصل مقاصد کیا تھے۔ اس حوالے سے دونوں جماعتوں کے قائدین کو معاملہ فہمی سے کام لینا اور ٹیلی فون ٹیپ کرنیوالوں کا کھوج لگانا چاہیے تاکہ آئندہ کیلئے اس قبیح فعل کا تدارک ہو سکے۔ ٹیلی فون بگ کرنے کی سہولت تو یقیناً پی ٹی سی ایل اور ان سرکاری اداروں کو حاصل ہے جنہوں نے ٹیلی فونک بگنگ کے آلات نصب کئے ہوئے ہیں چنانچہ عمران خان اور عارف علوی کی ٹیلی فونک گفتگو ٹیپ کرنے کا ’’کارنامہ‘‘ بھی انہی میں سے کسی نے سرانجام دیا ہوگا‘ اس لئے حکومت کا معاملے کی تہہ تک پہنچنا چنداں مشکل نہیں۔ اگرآج بھی ٹیلی فون ٹیپ کرنے کا سلسلہ جاری ہے تو پھر اقتدار کے ایوانوں‘ عدلیہ اور مقننہ سمیت سب کو کان ہو جانے چاہئیں کہ ریاست کے اندر ریاست قائم کرنے کا تصور ہرگز دفن نہیں ہوا اور ان ساری شخصیات کی پرائیویسی بیچ چوراہے میں پڑی ہوئی ہے جس میں کسی بھی شخصیت کا بلیک میل ہونا بعیداز قیاس نہیں۔ اس صورتحال میں عمران خان اور عارف علوی کی منظرعام پر لائی گئی آڈیو کیسٹ پر سیاست کی جانی چاہیے نہ اس معاملہ کو سیاسی انتشار کی بنیاد بننے دینا چاہیے ورنہ یہاں جمہوریت کی عملداری اور انصاف و قانونی کی حکمرانی کا تصور کبھی نہیں پنپ سکے گا۔
عمران خان اور عارف علوی کی مبینہ ٹیلی فونک گفتگو ملک کو پھر سیاسی انتشار کی جانب دھکیلنے کی سازش؟
Mar 29, 2015