”تین شریفوں“ نے ایک ہی بات کی ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے پرعزم ہیں۔ ایک آرمی چیف اور دو چیف ایگزیکٹو تینوں شریف یہ عزم رکھتے ہیں کہ کوئی شرانگیز بچ نہ سکے گا۔ سانحہ گلشن اقبال پارک میں ہوا۔ غریبوں کے کئی گلشن اجڑ گئے۔ دہشت گردوں کا بس بھی غریبوں، بے قصور اور بے خبر سکیورٹی کے بغیر عام لوگوں پر چلتا ہے۔ یہ بھی بزدل لوگ ہیں؟ یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ وزیراعظم نواز شریف فوراً آئے۔ اس سے بھی زیادہ لمحہ فکریہ ہے کہ خوددار اور محب وطن وزیر داخلہ چودھری نثار بھی ان کے ساتھ تھے۔ اس سے بڑی بات یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے خون کا عطیہ بھی دیا۔
جناح ہسپتال میں یہ مناظر خاص طور پر دکھائے گئے کئی لوگ زخمیوں کے لواحقین اپنے لوگوں سے ملنا چاہتے تھے مگر سکیورٹی اتنی زیادہ اور سخت تھی کہ کوئی اپنی جگہ سے ہل بھی نہ سکتا تھا۔ بیش بہا زندگیوں کو موت سے بچانے کے لئے اہتمام تو ہونا چاہئے۔ ہمارے سکیورٹی والے اتنے الرٹ ہوتے ہیں کہ شاید حضرت عزرائیل ؑ کو بھی پھٹکنے کی اجازت نہ ملے۔
مگر گلشن اقبال پارک میں موت کا کھیل کھیلنے کی پوری چھٹی دی گئی۔ آج چھٹی کا دن تھا۔ مسیحوں کی عید ”ایسٹر“ تھا۔ تفریح کرتے ہوئے بچے عورتیں اور لوگ کس کے دشمن تھے۔ یہ بے گناہ لوگ بے گناہ سے زیادہ بے خبر لوگ۔ کیا ان لوگوں کا کوئی ملک ہے۔ اس ملک کے حکمران کون ہیں؟ کچھ سکیورٹی پر لوگوں کا بھی حق ہے؟ وہاں تو ایک سپاہی بھی نہ تھا۔ حکمران صرف جناح ہسپتال میں گئے۔ جناح ہسپتال میں ڈاکٹروں اور نرسوں نے زخمیوں کی خدمت دیکھ بھال علاج معالجے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ میو ہسپتال تو ڈیڈ ہاﺅس کا منظر پیش کر رہا تھا مگر یہاں حکمران نہ آئے۔
اسلام آباد میں بھی آج مظاہرین ریڈ زون میں چلے گئے وہاں کوئی بھی نہ تھا۔ فوج کو کس نے بلایا۔ پھر بھی افسران نہ پولیس افسران نہ چھوٹے موٹے حکمران۔ وزیراعظم اور وزیر داخلہ لاہور آ گئے۔ جناح ہسپتال میں کچھ دیر نظر آئے۔ کیا اسلام آباد کو فوج کے حوالے کر دیا گیا ہے؟ یہ سوال نہیں ہے۔ سوال ہے تو صرف چودھری نثار کے لئے ہے۔
قائد حزب اختلاف خورشید شاہ اور سرکاری لیگ کے جنرل قیوم کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ بھارت کی خفیہ تنظیم ”را“ نے کرایا ہے۔ بلوچستان سے را کے ایجنٹ کی گرفتاری کے بعد تو یہ ہونا تھا۔ نریندر مودی نے نواز شریف کو فون کیا ہے۔ انہوں نے یقیناً دوسری باتوں کے علاوہ یہ بھی کہا ہو گا کہ اب ہمارے ”بندے“ کو چھوڑ دو۔ اسے واہگہ کے راستے بھارت بھجواﺅ جہاں سے کشمیر سنگھ کو پروٹوکول اور سکیورٹی کے ساتھ ایک وزیر شذیر انصار برنی نے اپنی گاڑی میں لے جا کے باقاعدہ رخصت کیا۔ گاڑی خود انصار برنی نے ڈرائیور کی۔ کشمیر سنگھ کی بہن نے کہا کہ انصار برنی نے کروڑوں روپے لئے تھے۔ انصار برنی نے تردید نہیں کی ہے۔
کشمیر سنگھ نے بھارت جاتے ہی کہا کہ مجھے فخر ہے میں نے اپنے ملک بھارت کے لئے خوب جاسوسی کی اور دھماکے کئے۔ کیا وہ را کا ایجنٹ نہ تھا تو اب بھارت کے را کے ایجنٹ کو کیوں رہا نہیں کیا جائے گا؟ پٹھان کوٹ پر خود ساختہ حملے کے الزامات ابھی تک بھارت پاکستان پر لگا رہا ہے آرمی پبلک سکول پشاور اور گلشن اقبال پارک میں دھماکے کا الزام کیوں بھارت پر نہیں لگایا گیا؟ جنرل راحیل شریف بھی افغانستان گئے وہاں بھی بھارت کے لوگ سرگرم ہیں بلکہ ”شرگرم“ ہیں۔ بھارتی تو آئی ایس آئی کو کبھی نہیں چھوڑتے ہم ”را“ والوں کے لئے اتنے نرم دل کیوں ہیں۔ آرمی پبلک سکول کے لئے جنرل راحیل شریف نے ہی ”را“ کا نام لیا ہوتا۔ ایک آواز آئی کہ آخر وہ بھی شریف آدمی ہیں۔
کابل میں پاکستان کے خلاف باتیں کرنے کے بعد بغیر ویزے کے نریندر مودی لاہور آئے۔ ان کا استقبال نواز شریف نے کیا اور پھر اسے رائیونڈ لے گئے۔ وہاں مختلف ذاتی تقریبات میں شرکت کے بعد کیا باتیں ہوئیں۔ یہ کبھی پتہ نہ چلے گا؟ نریندر مودی نے بنگلہ دیش میں واضح طور پر پاکستان کے خلاف کچھ کہا تھا۔ وہ نواز شریف نے بھی سنا ہو گا۔ راحیل شریف نے بھی سنا ہو گا۔ کیا گلشن اقبال پارک پر حملے کی بات نریندر مودی سے کی گئی ہے۔
دہشت گردوں کے سہولت کاروں اور منصوبہ سازوں سے مجھے یہ گزارش کرنا ہے کہ غریب اور عام لوگوں اور بچوں کو کیوں مارتے ہو۔ اس سے ”بڑوں“ کو کیا فرق پڑتا ہے۔ ان کی حکومت قائم رہتی ہے۔ وہ تو میڈیا کے ذریعے مقتولوں کے لواحقین کو راضی برضا کر لیتے ہیں اور پھر لاشوں اور زخمیوں کی قیمت لگا دیتے ہیں۔ ایک آدمی کی جان کی قیمت چند لاکھ روپے ہے؟
دہشت گردی امریکہ اور برطانیہ میں ہوئی تھی ”نائن الیون“ اور ”سیون سیون“ کے ایک ایک واقعے کے بعد کوئی واقعہ نہ ہوا۔ ہمارے حکمران اور افسران کیا کرتے ہیں۔ انہیں حکومت کرنے کے علاوہ کچھ آتا ہے۔ پروٹوکول اور سکیورٹی؟ یہ بار بار کہا جاتا ہے کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہے تو دہشت گردوں کو کچل دینے والوں کا ارادہ کیا ہے؟
طالبان کی کسی جماعت کی طرف سے یہ اعلان ہوا ہے کہ مسیحی برادری ہمارا ٹارگٹ تھی تو اے پی سی میں ان کا ٹارگٹ کون تھا۔ کوئی مسیحی لیڈر کہہ رہا تھا کہ ہم مسیحوں کا خون بھی آپریشن ضرب عضب میں شامل ہو گیا ہے۔ ایک وزیر کہتا ہے ہم حالت جنگ میں ہیں۔
میرے بھائی رانا ثناءاللہ کہتے ہیں کہ یہ کوئی بڑی بات ہے۔ جب وہ اپوزیشن میں تھے اور فیصل آباد میں ان کے ساتھ زیادتی ہوئی تھی تو ہم ان کے ساتھ تھے۔ ہم اب بھی ان کے ساتھ ہیں مگر وہ ایک خاتون اینکر پرسن کو کہہ رہے تھے کہ تمہیں شرم آنی چاہئے۔ اس کے بعد اس خاتون اینکر نے بھی کہا کہ تم کو بھی شرم آنی چاہئے۔ میری گزارش رانا صاحب سے ہے کہ وہ جارحانہ انداز میں بات نہ کیا کریں۔ شہباز شریف بھی ہمیشہ شریفانہ انداز میں بات کرتے ہیں۔ ایم این اے پرویز ملک اور اعجاز چودھری ہسپتالوں میں گئے اور زخمیوں کی عیادت کی۔ برادرم رانا ثناءاللہ شہباز شریف کے بعد پنجاب کے دوسرے اہم آدمی ہیں۔ ان کو محبت مروت کے ساتھ تحمل کی ضرورت بھی ہے۔
میڈیا نے بار بار دکھایا کہ ایک ہسپتال کے باہر ایک خاتون چیخ رہی تھی۔ ایک آدمی کے لئے اتنی سکیورٹی اور پروٹوکول؟ یہ چیخیں چودھری نثار نے بھی سنی ہوں گی۔ سکیورٹی کے نام پر خواتین و حضرات کو پھٹکنے نہیں دیا جاتا۔ یہ جمہوریت ہے کہ جمہور تو خون میں نہا گئے ہیں اور جمہور کے ذریعے حکمرانی کرنے والے سکیورٹی اور پروٹوکول میں رات دن ”نہاتے“ رہے ہیں۔
حکمرانوں کو سکیورٹی کی ضرورت ہے۔ ضرور سکیورٹی ہونی چاہئے۔ مگر محکوموں کے لئے کچھ تو سکیورٹی ہو۔ دہشت گرد اور ان کے منصوبہ ساز کبھی حکمرانوں کی سکیورٹی توڑ کے دکھائیں؟
مجھے برادر کالم نگار اور ممتاز ادیب امیر نواز نیازی نے اپنی کتاب بھیجی ہے۔ اس کے عنوان ہی میں میرا سارا درد چھپا ہوا ہے۔ ”باقی سب خیریت ہے؟“ امیر نواز دل کی آنکھوں سے دیکھ کر لکھتے ہیں۔ ان کی باتیں دل میں اتر جاتی ہیں۔ یہاں مجھے بیٹی شہلا کا ذکر بھی کرنا ہے جس کے نام اس بہت بڑی کتاب کا انتساب کیا گیا ہے۔ امیر نواز کہتے ہیں وہ میرے ضعف بصارت میں میری آنکھیں بنی ہوئی ہے۔ اپنی بیٹی کی آنکھوں سے دیکھنا وہ روشنی ہے جو اس کتاب کی ہر سطر میں چمک رہی ہے۔ معروف شاعر سعداللہ شاہ لکھتے ہیں امیر نواز نیازی جب لکھتے ہیں تو پھول کھلاتے ہیں۔ مجھے ان کا کالم ”باقی سب خیریت ہے“ پسند آیا۔ کالم میری بے بسی اور حکمرانوں کی بے حسی کا ترجمان ہے۔ ایک خط بیٹے نے باپ کو لکھا۔ پیاری دادی جان اللہ کو پیاری ہو گئی ہے۔ باقی سب خیریت ہے۔ والدہ بھی ان دنوں بیمار شمار رہتی ہے۔ باقی سب خیریت ہے۔ ہماری گائے کا بچھڑا مر گیا ہے۔ گاﺅں میں وبا آئی ہوئی ہے ایک بھی مرغی نہیں بچی۔ باقی سب خیریت ہے۔ اس دفعہ بارش بھی کچھ زیادہ ہوئی۔ گھر کی ایک دیوار گر گئی ہے باقی سب خیریت ہے۔ چھوٹا بھائی چند نمبروں سے فیل ہو گیا ہے باقی سب خیریت ہے۔ اب اس نے سکول جانا چھوڑ دیا ہے باقی سب خیریت ہے۔
وطن عزیز میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے۔ ہمارے ملک میں حکمران بلٹ پروف گاڑیوں میں ہسپتالوں میں جاتے ہیں۔ پورے شہر میں سکیورٹی الرٹ ہوتی ہے۔ گلشن اقبال پارک میں دھماکہ ہوا ہے۔ صرف 72لوگ مر گئے ہیں جن میں بچے اور عورتوں کی کثیر تعداد شامل ہے باقی سب خیریت ہے۔ لاقانونیت زوروں پر ہے شہر میں ہر جگہ ٹریفک اکثر پھنسی رہتی ہے۔ لوگ سر پر کفن باندھ کر گھر سے نکلتے ہیں باقی سب خیریت ہے۔ بیچارے محمد اجمل نیازی کا قلم پکارتا اور للکارتا ہے۔ کالم کے حوالے سے اب قلم کلم بن گیا۔ اس لئے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے کہ باقی سب خیریت ہے۔ پٹھان کوٹ بھارت میں پاکستان کی ڈری سہمی انسپکشن ٹیم کو محدود جگہوں پر جانے کی اجازت دی گئی کہ گلشن اقبال پارک لاہور میں اصلی دھماکہ کر دیا گیا ہے۔
باقی سب خیریت ہے۔