مذہبی ’’گوریلا جنگ‘‘

Mar 29, 2016

جاوید صدیق

گوریلا جنگ میں اچانک حملے SURPRISE ATTACK کی بڑی اہمیت ہے جدید گوریلا جنگ کا موجد چین کے عظیم انقلابی لیڈر ماؤزے تنگ کو سمجھا جاتا ہے ماؤزے تنگ نے اپنی کتاب ’’گوریلا وار فیئر‘‘ میں اچانک حملوں انٹیلی جنس اور ایسے وقت میں حملہ جب دشمن یا مخالف فریق سست ہو کو بڑی اہمیت دی ہے۔ موجودہ دور کے ’’جہادی‘‘ اور دہشت گرد تنظیمیں بھی گوریلا وار فیئر کے طریقے استعمال کر رہی ہیں۔ اس دور میں دہشت گردوں نے خوف اور دہشت پھیلانے کے لئے دھماکہ خیز مواد کو شہروں اور گنجان آباد علاقوں میں استعمال کر کے سینکڑوں بے گناہ افراد کو ہلاک کرنے کا جو طریقہ کار اختیار کیا ہے وہ عام لوگوں میں بھی خوف و ہراس پھیلا دیتا ہے اور سلامتی کے پورے ماحول کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔
جدید دور کی دہشت گرد تنظیمیں خود کش بمباروں کو خوف اور دہشت پھیلانے کے لئے استعمال کرتی ہیں۔ افغانستان‘ عراق‘ پاکستان‘ شام‘ سعودی عرب‘ نائیجریا‘ صومالیہ‘ مصر اور کئی ملکوں میں خود کش حملے کا ہتھیار ایک عرصہ سے استعمال ہو رہا ہے پاکستان میں خود کش حملے نائن الیون کے بعد شروع ہوئے جب پاکستان نے امریکہ اور مغربی ملکوں کے دہشت گردی کے خلاف اتحاد میں شمولیت اختیار کی۔ امریکہ اور نیٹو کے ساتھ انٹیلی جنس شیئرنگ کا سمجھوتہ ہوا اور پاکستان نے امریکہ اور نیٹو کو لاجسٹک کی سہولتیں دیں۔ نائن الیون کے بعد القاعدہ‘ تحریک طالبان پاکستان اور ان سے وابستہ کئی تنظیمیں پاکستان میں سینکڑوں خود کش حملے کر چکی ہیں۔ جن میں کم و بیش ستر ہزار شہری جاں بحق ہو چکے ہیں۔ جاں بحق ہونے والوں میں سویلین باشندوں کے علاوہ فوج کے آفیسر اور اہلکار پولیس اور نیم فوجی تنظیموں کے اہلکار جانیں گنوا بیٹھے ہیں۔ دھماکہ خیز مواد اور خود کش جیکٹس دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کا موثر ہتھیار بن گئی ہیں۔
جب سے ضرب عضب آپریشن شروع ہوا ہے شمالی وزیرستان اور دوسرے علاقوں میں فوج نے دہشت گردوں اور انتہا پسند تنظیموں کے ٹھکانوں کو ہدف بنانا شروع کیا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں کے واقعات میں نمایاں کمی آئی ہے لیکن یہ وارداتیں ختم نہیں ہوئیں۔ دو سال پہلے آرمی پبلک سکول پشاور میں دہشت گردوں نے جس طرح ایک ’’نرم ہدف‘‘ پرحملہ کیا اس نے نہ صرف پورے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا بلکہ عالمی برادری بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکی۔ آرمی پبلک سکول پر دہشت گرد حملے کے بعد اب لاہور میں اتوار 27 مارچ کو گلشن اقبال پارک میں ہونے والا خود کش حملہ دہشت گردی کا ایک بڑا واقع ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ دہشت گردی کے واقعات یورپ کے ان ملکوں میں بھی رونما ہو رہے ہیں جہاں سیکورٹی انتظامات بہت موثر ہیں اورجہاں دہشت گردی کو روکنے کے لیے ٹیکنالوجی بھی بڑی مدد گار ثابت ہورہی ہے۔ گزشتہ سال نومبر میں پیرس میں ہونے والے دہشت گرد حملے جن میں 179 افراد مارے گئے تھے اور سینکڑوں زخمی ہوگئے تھے۔ یورپی تاریخ میں دہشت گردی کا ایک بڑا واقع تھا اور پھر چند دن پہلے بلجیئم کے دارلحکومت میں برسلز ائیر پورٹ پر جو خودکش حملہ ہوا اس نے پھر یورپ کو دہلا دیا ہے۔ نائن الیون کے بعد امریکہ نے اپنے ہاں دہشت گردی کی کوئی بڑی واردات نہیں ہونے دی۔ یورپ میں یہ وارداتیں ہوتی رہتی ہیں۔ پاکستان سمیت اسلامی ملک تو اب دہشت گردوں کی کارروائیوں کے عادی ہوتے جارہے ہیں۔
موجودہ دور کی دہشت گردوں تنظیمیوں کے پاس ایک آٰئیڈیالوجی بھی ہے جسے وہ خودکش حملہ کرنے والوں کو تیار کرنے کیلئے استعمال کررہے ہیں۔ پاکستان میں تحریک طالبان کے علاوہ بھی کئی تنظیمیں ہیں جن سے وابستہ افراد خودکش حملوں‘ دہشت گردی کیلئے دھماکہ خیز مواد کو نصب کرنے کا کام کرتے ہیں۔ بعض پڑوسی ملک پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کیلئے اس کھیل میں شامل ہوچکے ہیں۔ جس سے پاکستان کیلئے صورت حال پیچیدہ ہوگئی ہے۔ فوج اور انٹلی جنس اداروں کی طرف سے ضرب عضب آپریشن میں متحرک ہونے کے بعد دہشت گردی کی وارداتوں کی فریکوکینسی میں کمی ائی ہے لیکن یہ وارداتیں مکمل طورپر ختم نہیں ہوئیں ۔
ایک عرصہ سے اب دہشت گرد پاکستان میں سافٹ ٹارگٹس کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ پشاور آرمی سکول پر حملہ کے بعد سکولوں پر حملوں کا خوف بڑھ گیا۔ کھیل کے میدانوں کو ہدف بنایا جاتا رہا ہے اور اب کچھ عرصہ سے پاکستان کو دہشت گردی کا خطرہ ہے۔ لاہور میں ایک تفریحی پارک کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کو روکنے میں ایک بڑی دشواری سیکورٹی پر مامور افراد کا سست پڑ جانا ہے۔ مذہبی گوریلا جنگ لڑنے والے سیکورٹی اہلکاروں کی سستی اور عدم توجہ سے بھی فائدہ اٹھاتے ہیں ہماری ایک اور شکل دہشت گردوں کی پہچان ہے۔ ہماری شہری آبادیوں میں ایک جیسی شکل وصورت ‘ لباس اور حلیہ رکھنے والے افراد میں سے اگر کوئی شخص دہشت گردی کرنے پر تُلا ہوا ہے تو اس کی شناخت کا امکان بہت کم ہے ۔ امریکہ‘ یورپ ‘ چین اور دوسرے ملکوں میں ایسے افراد کو شناخت کرنا بہت سہل ہے۔ سیکورٹی اداروں اور عام شہریوں کو مسلسل چوکس رہنے سے شاید دہشت گردی کی وارداتیں کم ہوسکیں۔
گوریلا وار فیئر میں خوف کا عنصر بھی استعمال کیا جاتا ہے خوف اور دہشت کے ذریعے علاقائی اور بین الاقوامی توجہ حاصل کی جاتی ہے۔ گوریلا جنگ میں آبادی بھی اہم کردارادا کرتی ہے اگر آبادی مخالف ہو تو گوریلا کارروائیاں مشکل ہو جاتی ہیں اگر آبادی میں گوریلا جنگ کرنے والوں کے لئے ہمدردی کا عنصر موجود ہے تو کارروائیاں آسان ہوتی ہیں گوریلا جنگ لڑنے والوں کے لئے محفوظ پناہ گاہیں بھی ایک ضرورت ہوتی ہیں یہ پناہ گاہیں ملک کے اندر یا دوسرے پڑوسی ملک میں ہو سکتی ہیں۔ پاکستان میں دہشت گرد تنظیوں کو پناہ دینے والے بھی ہیں اور ان کے سہولت کار بھی ہیں جو دہشت گردی کی وارداتوں کو ممکن بناتے ہیں۔

مزیدخبریں