کراچی میں مردم شماری کا کام جاری ہے ۔ سب کی نگاہیں مردم شماری پر ہیں ۔ شہر کی ترقی اور یہاں امن ہر شہری کی دلی خواہش اور ضرورت ہے۔ کراچی میں خراب ترین حالات کے بعد رینجرز آپریشن کے نتیجے میں امن تو ہوا لیکن 2017کے ابتدا ہی سے اسٹیٹ کرائم دوبارہ شد و مد سے جاری ہے۔ عوام کو پولیس پر کوئی اعتماد نہیں وہ اس معاملے میں بھی رینجرز کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ شہر میں جگہ جگہ کھدائی اور مٹی دھول سے شہری پریشان نظر آتے ہیں جسکی وجہ یہ ہے کہ بیک وقت کئی کام جاری ہیں ۔ یونیورسٹی روڈ، اورنگی ٹاﺅن ، میٹرو بس پروجیکٹ، گولیمار، ناظم آباد بورڈ آفس، لیاقت آباد شہر کے مصروف ترین علاقے بری طرح متاثر ہیں۔ کراچی کے بابائے شہر جنکی ان کاموں میں شمولیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ اختیار کا منبع وزیر اعلیٰ سندھ ہیں۔ بلدیاتی نمائندوں کے اختیارات نہ ہونے پر کراچی کے عوام میں بھی اضطراب پایا جاتا ہے جو نیک شگون نہیں۔ میئر کراچی وسیم اختر نے اپنے عوامی نمائندہ ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے گزشتہ دنوں افسران و ملازمین کے سرکاری طور پر حج کا حق بحال کردیا قرعہ اندازی کے علاوہ دو افراد کو اپنے ذاتی جیب خرچ سے حج پر بھیجنے کا اعلان کیا جو خوش آئند ہے۔ دوسری بڑی کامیابی انہوںنے بلدیہ عظمی کراچی کے مختلف محکموں کے لئے قائم کمیٹیوں کے بلا مقابلہ انتخاب سے حاصل کی اور اتفاق رائے سے بلا چوں چراں کمیٹیوں اور انکے چیئرمینوں کا مرحلہ طے ہوگیا۔ 9کمیٹیوں کا چیئرمین اپوزیشن کو جبکہ 22کمیٹیوں کا چیئرمین ایم کیو ایم پاکستان کے حصے میں آیا۔ ہر کمیٹی 7اراکین پر مشتمل ہے جبکہ اس میں 3ایم کیو ایم اور 3اہوزیشن کے اراکین ہیں۔ساتواں چیئرمین فارمولے کے مطابق ہے۔ وسیم اختر نے ثابت کردیا کہ وہ شہر کے میئر ہیں اور ساری جماعتوں کو ساتھ لیکر چلنا چاہتے ہیں۔ یہ انکی بڑی کامیابی ہے جس پر میئر اور ڈپٹی میئر ارشد وہرہ تعریف کے مستحق ہیں۔ تیسرا مرحلہ گزشتہ دن ہوا جب ایم کیو ایم کے وائس چیئرمینوں نے سندھ حکومت کی جانب سے دی جانے والی گاڑی لینے کے بجائے اسکی جگہ عوام کے لئے کچرا گاڑی مانگ لی۔ میئر کراچی وسیم اختر نے اسے سیاسی رشوت قرار دیا۔اس وقت جبکہ پورے سندھ میں میئر ، چیئرمین براہ راست یا بلا
واسطہ ایم کیو ایم کے ساتھ کھڑے ہیں کہ آئین کی شق 140-Aاور SLGO2013 کی کلاز74(B)کے تحت عدلیہ سے انصاف ملے تو انکے پاس اختیارات ہوں۔ حکومت سندھ صورتحال کا درست نوٹس لینے سے اجتناب برت رہی ہے ۔اسے اندازہ نہیں ہے کہ میئر کراچی کی کامیابی دراصل تمام سیاسی جماعتوں کا ان پر اعتماد کا اظہار ہے اور یہ سب ملکر اگر کراچی کے عوام کو سڑکوں پر لے آئے تو حکومت جھولی میں رکھ کر اختیارات دینے پر مجبور ہوجائے گی۔ لیکن روایتی ہٹ دھرمی سے کراچی کے عوام میں اشتعال پھیلایا جا رہا ہے۔ کراچی کے شہری اپنے میئر کو پاورفل دیکھنا چاہتے ہیں۔ میئر نے اختیار مانگا تو صوبائی وزیر بلدیات ، صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ اور وزیر اعلیٰ سندھ ان کے خلاف میدان میں آگئے شہری اور دیہی کی جنگ شروع کرنے لگے۔ وزیر بلدیات جام خان شورو فرماتے ہیں کہ کے ایم سی میں 41 ہزار گھوسٹ ورکرز ہیں جبکہ کے ایم سی کے 16 ہزار کے قریب ملازمین ہیں۔اس سے واضح ہے کہ ایجنڈا کیا ہے وزیر موصوف نے کے ڈی اے سوک سینٹر سے کے ایم سی کے افسروں اور ملازمین کو ناصر عباس ڈی جی کے ذریعے بیدخل کرادیا۔ لیکن کے ایم سی کو فنڈز جاری نہیں کئے۔ حال ہی میں ایک افسر سے جو پی پی پی کے رہنما بھی ہیں پریس کانفرنس کرواکر کے ایم سی کے خلاف میئر کراچی اور ایم کیو ایم کے خلاف ہرزہ سرائی کرائی گئی جو انتہائی بھونڈی حرکت ہے اسے سنجیدہ حلقوں میں کہیں بھی پسند نہیں کیا گیا۔ سلیم جوکھیو کی ملازمت پر پہلے ہی کئی سوالیہ نشان ہیں ؟ کراچی میں اسوقت محبت اخلاص اور حق داروں کو حق دینے کی ضرورت ہے۔ ایک ایسی صورتحال میں کہ جب کراچی کا سب سے اہم ادارہ تباہی کے دہانے پر ہو صوبہ سندھ کی حکومت کو کراچی کے شہریوں کے ز خموں پرمرہم رکھنا چاہئے نہ کہ نمک چھڑکا جائے۔ وفاقی حکومت کا رویہ بھی جارحانہ ہے وزیر اعظم نوز شریف گورنر سندھ کے ہاﺅس کا طواف کرکے چلے گئے۔ میئر کراچی کو سوشل اکنامک پیکیج ، گرانٹ دینا تو درکنار ان سے علیحدہ گفتگو بھی نہیں کی گئی۔ جس سے کراچی کے لوگ فرسٹریٹ ہو رہے ہیں کہ حکمرانوں میں کوئی انکا والی وارث نہیں۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کراچی کے لوگوں کے ساتھ یہ سلوک بند ہونا چاہئے منتخب قیادت کو ذلیل کرنے کا سلسلہ بند ہونا چاہئے ۔ وفاق نوٹس لے۔ گورنر محمد زبیرحقائق سے وفاق کو آگاہ کریں۔ بلدیہ عظمی کراچی کو کم از کم 250ارب کی گرانٹ دی جائے اسکا آکٹرائے شیئر ریوائس کیا جائے ۔ کراچی میں امن تب آئے گا جب خوشحالی اور ترقی ہوگی۔
کراچی کا امن اور ترقی اولین ترجیح ہونی چاہئے۔
Mar 29, 2017