ایک دوست کافون خراب ہوگیا اورکہا کہ آپ کے دفتر کے قریب ہی موبائل فون کمپنی کا سروس سینٹر ہے‘ اس فون کی وارنٹی کا آخری مہینہ ہے‘ اس لئے اسے آپ وہاں کمپنی والوں کو دے دیں۔ ازراہ تفنن کہا ایسانہ ہو کہ” آخری مہینہ کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی“ موبائل فون زیادہ قیمتی نہ تھا‘ پر دوست کو فکرلاحق تھی کہ یہ فون وارنٹی میں ہے اوراسے فوری کمپنی کو مرمت کے لئے نہ دیا توبلاوارنٹی مرمت کروانی پڑے گی اور مفت کے چارجز دینے پر جائیں گے۔
چنانچہ موبائل وارنٹی کارڈ لے کرکمپنی کے سینٹر پہنچا۔ موبائل فون کی سکرین خراب ہوگئی تھی‘ نمائندے کوفون دیتے ہوئے کہا کہ اس کی سکرین آن ہے لیکن کچھ نظر نہیں آرہا۔ انہوں نے فوراً وارنٹی کارڈ طلب کیا اوراسے پلٹتے ہی ایک لفظ کے نیچے لائن لگا کر کہا محترم....! ”آپ کے موبائل کی ایل سی ڈی خراب ہوگئی اوردیکھیں لکھا ہے کہ ایل سی ڈی کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی۔“ کارڈ کی پشت دیکھ کر اندازہ ہوا وارنٹی کا تو نام ہے یہ تو ٹریفک سارجنٹ کی مانند چلان کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی جواز کے مصداق فون مرمت نہ کرنے یا مرمت کے چارجز لینے کے لئے کوئی نہ کوئی جواز ضرور تلاش کرلیں گے کیونکہ کارڈ کی پشت پر جس قدر جگہ تھی اس پر شرائط ہی شرائط درج تھیں جسے پڑھنے کی کوئی زحمت نہیںکرتا۔ توجہ نہ دینے کی دوسری وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ کمپنی کارڈ کو اس قدرباریک اورہلکے رنگ میں چھپواتی ہے جیسے مکانوں پلاٹوں کے بڑے بڑے اشتہارات پرکشش قیمتوںکے ساتھ شہریوں کو مدعو کیا جاتا ہے اوراشتہارات میں بالکل چھوٹا سا بریکٹ میں لکھا ہوتا ہے علاوہ قرضہ اوراس کی بابت اس وقت معلوم ہوتا ہے جب بکنگ آفس کے نمائندے توجہ دلاتے ہیں کہ جناب اتنی رقم آپ کو الگ سے ادا کرنا ہوگی۔ بہرحال موبائل فون کے کسٹمر کیئر کے نمائندے کو بتایا کہ یہ فون دوست کا ہے آپ خرچہ بتادیں۔ انہوں نے کہا کہ 350 روپے میں آپ کانقص درست ہوجائے گا‘ توقف کے بعد ان سے کہا کہ ٹھیک آپ بنوا دیں۔ انہوں نے کہاکہ چیک کرلوں اس میں کہیں پانی‘ نمی یا کوئی ٹوٹ پھوٹ تو نہیں ہوئی کیونکہ ان کے الگ چارجز ہوںگے‘ چیک کرنے کے بعد انہوں نے ایک اور نقص نکال لیا اور کہا کہ یہ فون سیٹ 700 روپے میں مرمت ہوگی۔ بولیں رسید بناﺅں یا سیٹ واپس لے جائیں۔ اس دوران ساتھ ہی دوسرا کسٹمر دوسرے نمائندے سے جھگڑ رہا تھا کہ میرا سیٹ وارنٹی میں تھا دو ماہ قبل ہی تو ا تنا مہنگا سیٹ خریدا تھا‘ اس وقت تو وارنٹی وارنٹی اس طرح کہا گیا کہ ایک سال تک کوئی بھی فالٹ سمجھو نیا سیٹ آپ کی جیب میں ہوگا اور اب یہ ہے کہ مجھے کال کی جاہی ہے کہ 2 ہزار روپے جمع کروائیں تاکہ آپ کا سیٹ مرمت کیا جائے‘10 دن کے اندر اندر اپنا خراب سیٹ واپس لے جائیں۔ بصورت دیگر ہماری ذمہ داری نہیں۔ انہوں نے بھی وارنٹی کارڈ پلٹ کر دکھایا اور بتایا کہ دوران چیکنگ آپ کا یہ فالٹ نکلا جو کہ وارنٹی میں نہیں۔ یہ سوچتے سوچتے کسٹمر کیئر سینٹر کے دروازے سے باہر نکل گیا کہ اس وارنٹی اور گارنٹی کو پرکھنے کی کوئی کسوٹی نہیں ہوتی۔ اس کی کسوٹی مصنوعات بنانے والے کے پاس ہوتی ہے جس کی خریدنے والے کو کبھی سمجھ نہیں آتی۔ یہ بھی سوچتارہا جو پاکستانی موبائل فون‘ گھڑیاں‘ استریاں اور دیگر بے شمار الیکٹرونکس اشیاءدیگر مصنوعات خرید کرلاتے ہوںگے انہیں یہ کہہ کرٹرخا دیا جاتا ہوگا کہ یہ بیرون ممالک سے خریدی گئی ہیں ان کی مرمت اور تبدیل نہیں ہوسکتی۔ دراصل قانونی طورپر فروخت کنندہ اور خرید کنندہ کے مابین ایک معاہدہ ہوتاہے جس کے مطابق فروخت اور خریداری کا عمل طے پاتا ہے۔ تاہم فروخت کنندہ مخصوص شرائط و ضوابط کے تحت خرید کنندہ کو اپنی مصنوعات فروخت کرنے کے لئے مائل کرتا ہے اور یہ ایک مارکیٹنگ اور سیلز کا گر ہے کہ وارنٹی کی آڑ میں اپنی مصنوعات کی فروخت کرتاہے چونکہ شرائط وضوابط آجر ہی طے کرتا ہے جسے اگرچہ خریدار ان شرائط کے تحت کوئی آئٹم خریدنے کا پابند نہیں‘ اس لئے اس کی نظر چکانے کے لئے یہ شرائط نامہ واضح نہیں کیا جاتاباالفاظ دیگر یہ دھوکہ نہیں لیکن وضاحت بھی نہیں کی جاتی۔ تاہم جو اس وارنٹی کے زمرے میں خرابیاں آتی ہیں ان کی مرمت بھی کی جاتی ہے جن کا وہ پابند ہوتے ہیں۔
ہماری روز مرہ زندگی میں گاہے بگا ہے لفظ وارنٹی اور گارنٹی کا استعمال ہوتا ہے۔ دونوں لفظوں کا بنیادی مقصد ضمانت دینا ہوتا ہے۔ تاہم یہ مختلف شرائط پر انحصار کرتے ہیں۔ کسی بھی ایٹم کی خریداری کے لئے فروخت کنندہ تحریری طورپر اس امر کی ضمانت یا گارنٹی دیتا ہے کہ وہ ایک مخصوص مدت کے لئے خریدے گئے ایٹم کی مرمت کرے گا یا تبدیل کرکے یا اس کا کوئی پارٹ تبدیل کرے گا۔ مثال کے طورپر ایک موبائل فون کی وارنٹی ایک سال ہے‘ کارکی تین سال‘ گارنٹی یا وارنٹی کے شرائط وضوابط فروخت کنندہ ہی طے کرتا ہے جسے دوسری پارٹی کو تسلیم کرنا ہوتا ہے۔
گارنٹی میں لین دین کے دوران حلف نامہ ہوتا ہے یا ادائیگی کے لئے شرائط ہوتی ہیں‘ جس کے تحت دوسرے شخص پر لاگو ہوںگی۔ عام طورطور پر گارنٹی ایک معاہدہ ہوتاہے جس میں ادائیگی یا خدمات کی فراہمی کا ضامن ہوتا ہے اور ناکامی کی صورت میں ضامن جواب دہ ہوتا ہے۔
گارنٹی اوروارنٹی میں بنیادی فرق یہ ہے کہ گارنٹی کی صورت میں یہ معاہدہ کیا جاتا ہے کہ طے کردہ شرائط پر عمل کیا جائے اور انہیں پورا کیا جائے اور شرائط پوری نہ ہونے پر ضامن ذمہ داری پورے کرے گا جبکہ وارنٹی میں اس امر کی یقین دہانی کروائی جاتی ہے کہ کمپنی وضع کردہ وقت کے اندر مصنوعات کو مرمت یا تبدیل کرنے کی پابند ہوگی۔
دنیا بھر میں گارنٹی اور وارنٹی کاروبار‘ تجارت‘ لین دین کے دوران عام فہم استعمال ہوتے ہیں۔ ضمانت یا گارنٹی کی صورت میں روزانہ کروڑوں اربوں کے سودے ہوتے ہیں‘ مالیاتی ادارے اپنا کاروبار کرتی ہیں۔ کہیں قرضے لیتے اور دیتے ہیں یہ سب گارنٹی کی بنیاد پر ہوتے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ وارنٹی یاگارنٹی دینے والا کسی نہ کسی طور دوسری پارٹی پرشرائط وضع نہیںکرواتا اور سودے طے پاجاتے ہیں۔ قرض دئیے جاتے ہیں۔ علیٰ ہذاالقیاس مصنوعات بیچنے‘ سودے کرنے یا لین دین کے بعد گارنٹی کے حوالے سے ان شرائط کو دوسری پارٹی کے سامنے رکھ کر مفادات حاصل کئے جاتے ہیں‘ انہیں مرغوب کیا جاتاہے‘ دوسری پارٹی کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھایا جاتاہے‘ ایسی صورتحال سے نمٹنے کے لئے بوقت معاہدہ یا سودا کرتے ہوئے خریداری کرتے ہوئے شرائط ضوابط کا بغور مطالعہ کیا جانا چاہئے تاکہ کسی قسم کی دشواری‘ پریشانی یا کوفت سے بچا جاسکے۔
گارنٹی ہویا وارنٹی‘ دی تو جاتی ہے مگر....!
Mar 29, 2017