سنیٹ میں فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے لئے اٹھائیسویں آئینی تر میم کی دوتہائی اکثریت سےمنظوری دے دی گئی

چئیرمین رضا ربانی کے زیر صدارت سینٹ کا اجلاس ہوا ، اجلاس میں اٹھائیسویں آئینی ترمیم کا بل پیش کیا گیا ، بل کے حق میں اٹھہتر جبکہ مخالفت میں تین ووٹ آۓ۔ پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے تین ارکان موسی اعظم خیل ،عثمان کاکڑ اور گل بشری نے ووٹ نہیں دیا، بل کی منظوری کے بعد اٹھائیس ویں ترمیم سات جنوری دو ہزار سترہ سے لاگو ہوگی ،ایکٹ کے تمام احکامات دوسال تک نافذالعمل ہونگے جبکہ مدت کے اختتام پر ترمیم منسوخ تصور ہوگی ۔ بل کے مطابق ریاست کے خلاف سنگین اور انتہائی شدید دہشت کے فعل کے مرتکب افراد کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلیں گے، بل کے تحت مذہب اور فرقے کے نام پر دھشت گردی کرنے والوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلیں گے ، دھشت گردی کے الزام میں گرفتار کیے گئے ملزم کواس کا جرم بھی بتایا جائے گا جبکہ اس کو مرضی کا وکیل کرنے کی اجازت ہوگی۔ پختونخوا ملی عوامی پارٹی سردار موسی اعظم خیل نے کہا کہ کسی پارٹی کے منشور میں فوجی عدالتوں کے قیام کی بات نہیں اورہم اس بل کی مخالفت کرتے ہیں کسی صورت ووٹ نہیں دیں گے۔ سسی پلیچو،رحمان ملک،ستارہ ایاز، سحر کامران اور اپوزیشن کے دیگر ارکان نے کہا کہ ہم سب اس کے ذمہ دار ہیں آج پارلیمنٹ مضبوط ہوتی تو اس کی نوبت نہ آتی ، آج کا دن پارلیمنٹ کی شکست کا دن ہے،سینیٹ میں قومی سلامتی سے متعلق پارلیمانی پارلیمانی کمیٹی کے قیام کی تحریک بھی کثرت راۓ سے منظور کی گئی، یہ تحریک وزیر قانون زاہد حامد نے پیش کی، جس کے بعد سینیٹ کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔

ای پیپر دی نیشن