”میں روٹی کھاتا ہوں“

علم کی اہمیت سے کوئی ذی شعور انکار نہیں کر سکتا کیونکہ علم سے آراستہ انسان ہی زندگی کو بہتر انداز میں بسر کرتا ہے جبکہ ایک ان پڑھ شخص اپنی زندگی کو دوسروں کے رحم و کرم پر گزار دیتا ہے اور اپنی روز مرہ زندگی کے اہم فیصلوں میں دوسرے لوگوں کا محتاج رہ کر ناہموار پریشان زندگی بسر کرتا ہوا اپنے وارثان و لواحقین کو روتا چھوڑ کر راہی ملک عدم ہو جانا ہے مگر اپنے پیچھے رہ جانے والوں کے لئے عبرت چھوڑ جانا ہے۔ فی زمانہ نفسانفسی کے عالم میں جہاں دیگر اقوام ترقی کے زینے میں تیز رفتاری سے طے کر رہی ہیں تو ضرورت اس امر کی ہے کہ وطن عزیز پاکستان کے ننھے معماروں کو حقیقی معنوں میں جدید تعلیم سے بہرہ مند ہونے کے لئے ارباب اقتدار کو اپنی بساط کے مطابق ملکی وسائل سے فائدہ اٹھانا چاہیے تاکہ اس ارض پاک کو اقوام عالم میں صف اول میں لاکھڑا کیا جا سکے جس کی خواہش تحریک آزادی پاکستان کے رہنما¶ں نے کی۔ مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ اس خواب کی تعبیر کے لئے ہم سب کو مل جل کر خلوص نیت کے ساتھ کام کرنا ہو گا۔اسی جذبے کے زیر اثر راقم السطور کو اپنے مادر علمی جانے کا اکثر موقع ملتا ہے جہاں آج بھی ہزاروں کی تعداد میں ننھے معصوم پھول جیسے طالب علم اپنی علم کی پیاس بجھانے کے لئے شہر ملتان کے طول و عرض سے مادر علمی میں غوطہ زن ہوتے ہیں۔ عالم تصور میں جب میں سوچتا ہوں کہ کس طرح ایک ماں اپنی کوکھ میں اس معصوم کو عرصہ نو ماہ تک رکھ کر اس دنیا میں لاتی ہے اس کی آنکھوں میں جو سہانے سپنے سنے ہوتے ہیں وہ الفاظ میں لانا قریب ناممکن ہیں۔ اس باپ کا عالم کیا ہوتا ہے جب وہ اولاد کی تعلیم و تربیت و پرورش کی خاطر دنیا میں موسم کی پرواہ کئے بغیر زمانے سے جنگ و جدل کرتا ہوا اس بچے کے لئے زندگی کا سامان پیدا کرتا ہے۔ نجانے کن کن مشکلات کا مردانہ وار مقابلہ کرتا ہے وہ ناقابل بیان ہے۔ اگر ان والدین کو اپنی محنت شاقہ کا ثمر مل جاتا ہے تو ان کی شادمانی دیکھنے کے قابل ہوتی ہے اگر انہیں اس کا نتیجہ ناکامی کی صورت میں ملے تو وہ دنیا کے سب سے بے بس و بے کس والدین سمجھتے ہوئے اور دھوکہ صبر کا پیالہ پی کر خاموشی سے بقیہ زندگی کے ایام کاٹتے ہوئے راہی ملک عدم ہو جاتے ہیں۔ بات کہاں سے سے کہاں چل نکلی مگر ادارہ ہٰذا کے پرنسپل و وائس پرنسپل نے بڑی خندہ پیشانی سے راقم کو خوش آمدید کہا اور سکول ہٰذا کے بارے میں بڑی ہی مفید معلومات سے روشناس کرایا تو دل باغ باغ ہو گیا اور دل ہی دل میں ان کی خدمات کا معترف ہو رہا تھا۔ سکول کے در و دیوار اور تمام گوشے اس امر کی واضح عکاسی کر رہے تھے کہ اپنی مدد آپ اور سابقہ فارغ التحصیل طلباءنے دل کھول کر اپنی مادر علمی کے ساتھ جو مالی اعانت کی وہ قابل ستائش و تقلید ہے تو دوسری طرف ارباب اختیار کے لئے سوالیہ نشان ہے جو دن رات فروغ علم کے لئے بلند و بانگ دعوے کرتے نظر آتے ہیں۔ انہی سوچوں میں غلطاں خراماں خراماں جا رہا تھا کہ میرے ہمراہ وائس پرنسپل کی کلاس دہم (میٹرک) کے سامنے آ کھڑا ہوا اور حسب عادت بچوں کی تعلیمی قابلیت کو جانچنے کے لئے کلاس روم کے اندر داخل ہوا تو تمام طلباءاحترام میں کھڑے ہو کر ہمارا استقبال کیا جس سے ایک اچھا تاثر قائم ہوا۔ کلاس روم کے درو دیوار اردو انگریزی عبارات سے مزین چارٹٹس سے مزین تھے جو کلاس انچارج اور طلباءکے ذوق کا عکاس تھا۔ استاد کلاس ہٰذا کی اجازت سے سکول کی اس سب سے قابل ترین طلباءکی کلاس برائے دہم کا سرسری سا ٹیسٹ لیا۔ یہ وہ کلاس تھی جس نے انٹرمیڈیٹ و سیکنڈری بورڈ ملتان میں پوزیشن حاصل کی ہے۔ انگریزی کے اس پیریڈ میں ایک فقرہ کو انگریزی میں ترجمہ کے لئے راقم نے طلباءکو کہا تو کمال حیرت کہ کسی بچے کہ وہ سادہ سا فقرہ انگریزی میں ترجمہ کرنا نہ آیا۔ ان معصوم بچوں کی حالت زار پر دل ہی دل میں اس قدیمی تاریخی سکول کی اعلیٰ تعلیم پر زار و قطاررو لا رہا تھا۔ میرے استفسار پر بچوں نے بڑی سادگی سے کہا کہ ابھی ہم ٹینس پڑھ رہے ہیں۔ ان کے اس معصومانہ جواب پر میں زیر لب بڑبڑایا کہ آپ ٹینس پڑھ نہیں رہے بلکہ آپ سب ٹینس میں ہو۔ کلاس انچارج کے چہرے پر نظر پڑی تو کمال ڈھٹائی کے ساتھ مسکرا رہا تھا جس سے میرے وجود میں اور بھی خلش بڑھ گئی۔ قارئین کرام آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ وہ کونسا ایسا فقرہ تھا جو میں نے طلباءسے پوچھا وہ کوئی مشکل جملہ نہ تھا بلکہ فقرہ تھا کہ ”میں روٹی کھاتا ہوں“ جس کلاس دہم میں میں نے یہ فقرہ پوچھا وہ کوئی عام طلباءکی کلاس نہ تھی بلکہ یہ وہ کلاس تھی جس میں سے ملتان بورڈ میں پوزیشن آئی تھیں۔ اپنے سکول کی مخدوش علمی حالت دیکھ کر دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔ دل تو کر رہا تھا کہ یہی فقرہ میں استاد کلاس ہٰذا سے پوچھتا کیا پتہ اس کو بھی نہ آتا ہو۔ مگر بوجھل قدموں کے ساتھ سکول سے باہر آ گیا اور یوں محسوس ہو رہا تھا کہ میرا ہر قدم ان معصوم سیدھے سادھے طلباءکے ان پڑھ سیدھے سادھے والدین کے دل و دماغ پر پڑھ رہے ہوں۔ اسی سوچ میں غلطاں تھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے ”پڑکے لکھے پنجاب“ کا خوشنما نعرہ دماغ میں گونجنے لگا جو تعلیم کو 2 فیصد دے کر جہالت کے اندھیروں کو دور کرنے کی خوشنما مہم میں مصروف کار ہیں مگر سکول سے طلباءچھوڑ کر جانے کی شرح دن بدن بڑھ رہی ہے۔ نتائج بڑے آ رہے ہیں جس کے جواب میں اساتذہ اور ہیڈ ماسٹر صاحبان پر ”نوٹس اظہار وجوہ“ کی تلوار مسلسل لٹکی ہوئی ہے لیکن حالات پہلے سے بھی دگرگوں ہو رہے ہیں۔ تعلیم ایک منافع بخش کاروبار کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ حکومت نے اس صورت حال کو بہانہ بنا کر تعلیمی اداروں کی نجکاری کے نام پر این جی اوز کو جو نوازنے کی روش اختیار کی ہے وہ بہت خطرناک ہے جس سے عام الناس کے بچوں پر تعلیم کے دروازے بند ہو جائیں گے لیکن ان اساتذہ کا مستقبل بھی تاریک نظر آ رہا ہے جو اتنے بھاری تنخواہوں پر بھی بڑے نتائج دے کر پاکستان کے ننھے معماروں کا مستقبل بھی تاریک کرنے میں ہمارے ملکی دشمنوں کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں۔ آخر میں راقم السطور کی قارئین کرام سے گزارش ہے کہ اپنے بچوں کی تعلیمی سرگرمیوں پر نظر رکھیں اور گاہے بگاہے سکول میں جا کر اساتذہ کرام سے بچے کی قابلیت اور سرگرمیوں پر استفسار کریں تاکہ بروقت معلومات ملنے پر بچے میں کسی بھی قسم کی کمی بیشی کا بندوبست ہو سکے اور اس کے تعلیمی سفر پر کسی بھی قسم کی رکاوٹ نہ آئے۔ محکمہ تعلیم کے ارباب اقتدار سے بھی استدعا ہے کہ وہ بھی اچانک سکولوں کا دورہ کر کے صورت حال سے باخبر رہیں تاکہ ڈراپ آ¶ٹ کی شرح میں کمی ہو سکے اور سکول دوبارہ سے آباد ہو سکیں۔

ای پیپر دی نیشن