کس سے شکایت کریں۔ کس سے گلہ کریں ۔ کس کے آگے جا کر رونا روئیں بیس کروڑ لوگوں میں ایک بھی ایسا شخص نظر نہیں آتا۔ ایک بھی ایسا ادارہ نہیں اور حکومت کے حکومت ہونے کا تو انہیں بھی یقین نہیں جو حکومت کر رہے ہیں۔ اقبال کا یہ شعر پوری سچائی کے ساتھ ہمارا تعارف کرا رہا ہے۔
میراث میں آئی ہے انہیں مسند ارشاد
زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن
زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن نہ ہوتے تو یہ ’’بلاگر‘‘ توہین رسالت کے سنگین جرم کے بعد اس ملک سے فرار ہو کر اپنے ان آقائوں کی آغوش میں پناہ لینے میں کبھی کامیاب نہ ہو سکتے بلکہ قانون کے آہنی شکنجے میں جکڑے جاتے۔ ٹرائل ہوتا اور قانون کے مطابق سزا مل جاتی آزادی اظہار کے نام پرچند ڈالروں کے عوض اہل ایمان کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے والوں کی گرفت کرنے میں اغماض اور کوتاہی برتنے والے قہر خداوندی سے بچ نہیں سکیں گے۔
ان بلاگروں اور انکے سرپرستوں کو اس اعتبار سے ابوجہل کی معنوی اولاد قرار دیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے ایک ایسی ہستی کے بارے میں اپنے خبث باطن کو ظاہر کیا ہے اور اپنے لئے اس وطن کی سرزمین کو فوری طور پر تنگ ہوتے دیکھ لیا اور جہاں آزادی اظہار کی ایکسپلائٹیشن کی وہاں انہیں سانس لینا اور ایسی مٹی کا رزق کھانا ان کے مقدر سے حرف غلط کی طرح مٹا دیا گیا ہے۔ وہ ہستی جس پر خود خالق کائنات ہمہ وقت درود پڑھے۔ اسکے فرشتے درود پڑھیں، دنیا کے کونے کونے میں پھیلے ہوئے اہل ایمان درود پڑھیں جن کی صرف بخاری اور مسلم میں تیرہ ہزار کے لگ بھگ احادیث میں سے ایک بھی ایسی نہ ہو جہاں اپنی ذات کی تعریف کی ہو، جس کا خدا خود رؤف ہے، رحیم ہے، کریم ہے وہ اپنے بارے میں ایک لفظ بھی نہ کہے۔ اسی لئے تو شاعر نے ایسے ’’بلاگر‘‘ کو واضح پیغام دیا ہے …؎
نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوںسے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
ان بدبختوں کے واقعتاً دماغ مائوف تھے جو یہ جسارت کی وگرنہ اگر یہ مسلمانوں کے گھر پیدا ہوتے تو اپنے گھر میں اگر نہیں دیکھا تو ارد گرد ملاحظہ کیا ہوتا کہ اللہ اور اسکے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کو ماننے والے کس طرح رمضان میں خود کو حلال اور جائز اشیائے خورد و نوش سے دور کر لیتے ہیں، ایک ڈسپلن میں آ جاتے ہیں۔ اپنی طلب اور جسمانی ضرورت بلکہ شدید ضرورت کو بھی اس وقت تک پورا نہیں کرتے جب تک افطار کا وقت نہ ہو جائے۔ ان مسلمانوں کے اعمال جیسے بھی ہوں وہ خدا اور اسکے رسول مقبولؐ سے اپنے تعلق کی اچھی طرح پاسداری کرتے ہیں۔ ایسے ممالک میں جہاں اسلام کی بجائے کوئی دوسرا نظام ہے، جہاں حلال اور حرام کی اسلامی تمیز نہیں، وہاں بھی یہ حلال کی تلاش میں اس وقت تک سرگرداں رہتے ہیں جب تک انہیں حلال میسر نہ آ جائے وگرنہ فاقہ کشی کر لیتے ہیں۔ مچھلی ، انڈے اور ابلی ہوئی سبزیوں، پھلوں پرگزارا کر لیتے ہیں۔ حرام کھانے سے بچنے کی ہر ممکن تدبیر کرتے ہیں ان لوگوں کے بارے میں ان ’’بلاگر‘‘ اور انکے غیر ملکی آقائوں اور ان غیر ملکی آقائوں کے پاکستان میں موجود گماشتوں کو اس قوت ایمانی کا اندازہ نہیں تھا یا اندازہ تھا تو وہ اپنے لالچ اور حرص میں اتنے اندھے ہو گئے کہ دنیا تو تباہ ہوئی آخرت کا حساب وہ لے گا جوقرآن میں ایسے لوگوں سے کہتا ہے کہ زمین میں فساد نہ پھیلائو اور یہ بدبخت جواب دیتے ہیں ہم فساد تو نہیں پھیلا رہے ہم تو اصلاح کر رہے ہیں اور پھر اللہ انکے اس دعویٰ کو مسترد کر دیتا ہے۔ اہل ایمان نے اپنے عمل اور ردعمل سے بتا دیا ہے۔…؎؎
باطل سے دبنے والے اے آسمان نہیں ہم
سو بار کر چکا ہے تو امتحان ہمارا
دکھ تو اس حکومت پر ہوتا ہے جو ان ’’بزدل بلاگروں‘‘ سے خوفزدہ ہوئی، قانون کی گرفت میں لانے کے بجائے قانون کی آنکھوں میں دھول جھونک کر فرار ہونے کا موقع دیا۔ انکے ساتھ وہ فرسٹیڈ ٹولہ جو خود کو سول سوسائٹی کا نمائندہ کہتا ہے اور بے خبر میڈیا ان کے اس دعویٰ کو تسلیم کرکے انکی کوریج کرتا ہے۔ اسکی حیثیت کا بھی نہ کسی حکومت نے اندازہ کیا اور نہ ہی میڈیا نے وگرنہ الیکٹرانک میڈیا کی سکرین پر اور پرنٹ میڈیا کے صفحات پر انکے دعوئوں اور وجود دونوں کو نظر نہیں کرنا چاہئے۔ حب الوطنی کیخلاف، مذہب اور ایمان کو نشانہ بنانے والے ان چند افراد کی جنہیں وطن عزیز کی مسلم آبادی میں آٹے میں نمک کی حیثیت دینے والے اپنے اس محاورے کے استعمال میں شرمندہ ہی ہونگے مگر میڈیا پر انہیں جس انداز سے پیش کیا جاتا ہے وہ اسی طرح ہے جس طرح پنجابی فلموں کی ہیروئن کھیتوں میں کہیں ناچتی گاتی اور ہر فلم میں یہ سین بار بار فلمانے کے باوجود پنجاب کے کلچر کی نمائندہ قرار نہ دی گئی۔ اسی طرح مال روڈ تک محدود یہ چند درجن افراد کرایہ اور معاوضہ لیکر سول سوسائٹی کے نمائندہ ہونے کا بہروپ اختیار کر کے مال روڈ سے دوسری کسی بھی سڑک پر آتے ہی اپنے اصل روپ میں آ جاتے ہیں بے سمتی اور بے حمیتی کا روپ ان کو استعمال کرنے والے بہت معمولی رقم دے کر اور کافی واہ واہ کر کے ان کو خرید لیتے ہیں اور باقی ساری مدد او امداد گھر لے جا کر انکی کوریج کو اپنی کارروائی بنا کر مزید بلکہ ہل من مزید کیلئے اپنے آقائوں سے رابطہ قائم کر لیتے ہیں اور یہ بھگوڑے ’’بلاگر‘‘ توبہ کرنے اور اہل وطن میں فساد کا بیج بونے پر شرمسار ہونے کے بجائے انتہائی ذلت آمیز اور انسانیت سوز زندگی گزارتے ہیں یہی ان بلاگروں کا انجام ہے اور حکومت کا بھی۔
جن لوگوں نے حق کا نعرہ بلند کیا کسی نظریہ پر اپنی سوچ اور عمل کو استوار کیا وہ اپنی چمڑی اور کھال بچانے کیلئے فرار نہیں ہوتے۔ پاکستان کے قیام سے پہلے اور بعد میں ایسے غیور اور بہادر سپوتوں کی لمبی فہرست ہے جو اپنے مؤقف پر ڈٹ گئے۔ سزا بھگت لی اور کسی ای سی ایل کی عدم موجودگی یا ای سی ایل پر اپنا نام نہ ہونے کے باوجود وطن عزیز سے فرار کی ایک بھی مثال سامنے نہیں لائی جا سکتی۔ غازی علم دین شہید نے تو وکلاء کے اصرار پر شاتم رسول کو واصل جہنم کرنے سے انکار کرنا گوارا نہ کیا اور پیغمبر اسلامؐ کی ناموس پر پھانسی چڑھ جانے کے تفاخر کے ساتھ شہدا میں شامل ہو گئے۔ ان شہدا کو غازی بھی کہا جاتا ہے۔
ان بدبخت بلاگروں کی نسل کافی پرانی ہے یہ رہتی دنیا تک نہ رہے تو کافی عرصہ موجود رہیں گے۔ ان کو انکے اعمال کی سزا اسی دنیا میں مل جاتی ہے خواہ کوئی بے حس حکومت انکے کرتوتوں کو نظر انداز کرے۔