فرشتوں سے بہتر ہے انسان بننا

میں سارا دن افتخار سندھو کے ساتھ گزار کر ابھی گھر واپس آیا ہوں، ایک ماہ کے اندر اس پر تیسرا کالم لکھنے بیٹھ گیا ہوں تو ا سکی کوئی خاص وجہ ہے، میں افتخار سندھوکو پہلی ملاقات میںنہیں سمجھ پایا۔۔ یا اس نے اپنی ذات مجھ پر منکشف نہیں ہونے دی، ہوسکتا ہے وہ میرا امتحان لینا چاہتا ہو کہ میں کس قدر مردم شناس ہوں، میں اپنی ناکامی کااعتراف کرتا ہوں۔
اس نے بتایا کہ اس کے پاس گھر کے بیڈ ر وم میں چار سو کتابیں ہیںا ور وہ ہر کتاب کو پڑھ چکا ہے بلکہ سمجھ کر پڑھ چکا ہے، اس علم نے اسے آدمی سے انسان بنا دیا ہے، اس کے اندر انسانیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ وہ ایک عام انسان ہے مگر اس میں کئی باتیں خاص ہیں کہ وہ اپنی غربت کو نہیں چھپاتا، اپنے پینڈو پن کو راز میں نہیں رکھتا ، وہ اب بھی سیدھے ٹھیٹھ لہجے میں گفتگوکرتا ہے، وہ تصنع سے کام نہیںچلاتا، حالانکہ وہ کروڑوں اور اربوں کے سودے کرتا ہے، کسی کے پاس پیسہ آتا ہے تو میںنے ہر ایک کی کلاس بدلتے دیکھی ہے، دولت کی چمک میںکچھ تاثیر ہی ا یسی ہے کہ انسان میں اکڑ پیدا کر دیتی ہے، اوروہ اپنے سے نچلی کلاس کے لوگوں کو انسان ہی نہیں سمجھتا۔
مجھے سندھو صاحب نے بتایا اور یہ پہلے بھی بتایا تھا کہ وہ ایک بڑے زمیندار گھرانے میں پید اہوا، مگر یہ زمانہ وہ تھا جب زمیندار کی جیب خالی ہوتی تھی، بس حقے کا ایک کش اور وہ دھویں کے مرغولوں میں کھو جاتا تھا، مگر اب شہروں کے اردگرد زمینداروں کی قسمت یکا یک بدل گئی ہے، ان کا ایک ایک ایکڑ کروڑوں میں فروخت ہونے لگا ہے، یہ لوگ اپنی زمینیں بیچ کر ڈیفنس کے بنگلوں مںمنتقل ہو گئے ہیں، ان کی اولادیں بگڑ گئی ہیں، ہیروئن، چرس،چوری ، ڈکیتی ان کا شوق ہے۔ سندھو صاحب کا کہناہے کہ ا سکے پاس آج جو زمین ہے، اسکی قیمت سات ارب ہے اور یہ قیمت اسے ہر کوئی دینے کو تیار ہے مگر وہ اس زمین کو آج نہیںبیچے گا اس پر ایک ماڈل بستی تعمیر کرے گا، اس کے پلاٹوںکی فروخت سے بھی اسے سات ارب ہی ملیں گے مگر اس میں چھ سال لگ جائیں گے۔
میں نے کہا آپ احمق تو نہیں ، پیسے آج کیوں نہیں پکڑتے اور بڑھاپا آرام سے کیوںنہیں گزارتے۔۔وہ مسکرا دیئے، ان کا کہنا تھا کہ میں آج بھی سات ا رب کمائوں گا اور چھ سال کی محنت کے بعد بھی چھ ارب ہی کمائوں گا مگر دنیا میں صرف دولت ہی ہر چیز نہیں ، انسانیت ، ا س دولت سے بڑھ کر دولت ہے، میں ان چھ سالوں میں ہر روز چھ سو محتاجوں کوکھانا کھلائوں گا، میری بیٹی ڈاکٹر بن کر اسی بستی میں ایک ہسپتال چلائے گی اور میںنے اسے کہا ہے کہ اگر اپنی زندگی میں دس ہزار مریضوں کی بلا فیس خدمت نہ کی تو قیامت کے دن تمہیںنہیں بخشوں گا، وہ اب بھی گائوں کی گلیوں میں رات کی تاریکی میں نکل جاتی ہے اورا ٓدھی رات کو میرے پاس آکرکسی کی غربت اور لاچاری کی نئی داستان سناتی ہے، مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ا س کے اندر انسانیت کا جذبہ بیدار ہو رہا ہے۔، وہ کسی کی آنکھوںکے آپریشن کے لئے پیسے دیتی ہے، کسی بچی کی شادی کے اخراجات برداشت کرتی ہے۔تو مجھے بچپن میں پڑھا ہوا ایک شعر یادا ٓجاتا ہے کہ صرف خدا کی اطاعت کا مسئلہ ہوتا تو فرشتوں کی بہتات تھی، مگر انسان کو پیدا کیا گیا تاکہ وہ دوسرے انسانوں کی خدمت کرے ، ان کے دکھ درد میں کام آئے، خلیفہ دوم حضرت عمرؓ کندھوں پر آٹے کی بوریاں لاد کر ضرورت مندوں کو ان کی دہلیز تک پہنچاتے تھے۔
میں عجب مخمصے میں تھا، سندھو صاحب مولوی ہر گز نہیں ، مگر ان کے خیالات مولویوں والے ، وہ عام مولویوں کو سمجھاتے ہیں کہ یہ جو آپ روزانہ لوگوں میں تفرقہ ڈالنے والا وعظ کرتے ہو اور جن اختلافی مسائل کا ذکر کرتے ہو ، ان کے بارے میں قبر میں کوئی سوال نہیں کیا جائے گا، لوگوں کو وہ بتائو جس سے وہ اچھے انسان بن سکیں اور دوسیرے انسانوں سے بھلائی کر سکیں۔
میں نے اپنا سوال پھر دہرایا کہ جو کچھ چھ سال بعد کمائو گے، وہ آج ہی کیوں جیب میں نہیں ڈال لیتے۔ وہ پھر مسکرا دیئے جیسے مجھے کوئی انجان بچہ سمجھتے ہوں۔ انہوں نے کہا کہ میں آج ساری رقم لے سکتا ہوں مگر نتیجہ کیا ہو گا، میری اولاد، میرے بھائی بہنیں اور بھتیجے بھتیجیاں اس پیسے سے بنگلے خرید لیں گے، نئے سے نئے ماڈل کی گاڑیاں خرید لیں گے مگر ان کی زندگی کسی دوسرے کے کام نہیں آئے گی اور وہ کچھ بھی سیکھ نہیں پائیں گے، جبکہ میں انہیں اگلے چھ برسوں میں مختلف کاموں کی نگرانی پر مامور کروں گا، وہ دیانت ا ور مانت کا سبق سیکھیں گے، معیاری کام کروائیں گے اور تجربے کی دولت سے مالا مال ہوجائیں گے، وہ اپنی باقی زندگی میں جس کام میں بھی ہاتھ ڈالیں گے، ا س میں محنت سے جی نہیں چرائیں گے۔خدا میری اس محنت کا الگ سے اجر دے گا جو میں سات ارب کیا ، سات کھرب میں بھی نہیں خرید سکتا۔فرشتوں سے بہتر ہے انسان بننا ، مگرا س میںلگتی ہے محنت زیادہ، میں اس محنت کا بچپن ہی سے عادی ہوں ، جب میں اسٹاپ پر گھنٹوں کھڑا ہو کر بس کا انتظار کرتا تھا اور کئی کئی میل پیدل چل کر اسکول جانا پڑتا تھا۔ میں ان دنوں کو نہیں بھول سکتا۔ اسی لئے جیسے ہی میرا ہاتھ کھلا تو میںنے اپنے والد محمد علی کے نام پر ایک ٹرسٹ قائم کر دیا ، میرے گائوں جھلکے میں اسی فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبورتھی، بچے گلیوں میں آوارہ کھیلتے رہتے، میںنے لڑکے اور لڑکیوں کے لئے ہائی اسکول بنوائے، ڈسپنسری بنائی، اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کو کبھی کبھار بلا کر مریضوں کو چیکنگ کی سہولت فراہم کی۔ بچیوں کی شادی کا سلسلہ شروع کیا، ایک بار محسو س ہوا کہ لوگ لالچ میںا ٓکر کم عمر لڑکیوں کی شادی کر رہے ہیں ، میںنے والدین کوسمجھایا کہ وہ فکر نہ کریں جب تک خدا نے مجھے توفیق دی ہے، میں یہ کام جاری رکھوں گا مگر آپ لوگ بچیوں کو پڑھائیں، فنی تربیت دلوائیں تاکہ وہ معاشرے کا مفید حصہ بن سکیں۔
مجھے پاک بحریہ کے سربراہ آصف سندھیلہ یادا ٓگئے جو شیخو پورہ کے اپنے گائوں کی تقدیر بدلنے کے لئے دن رات کوشاں ہیں، میں ایک ماہ پہلے اپنے اسکول گنڈا سنگھ والہ گیا۔، دیکھا کہ یہ ہائر اسکینڈری بن چکا ہے اور اس میں کمروں کا اضافہ ہوتا جا رہا ہے، کچھ طالب علم ایسے بھی یہاں سے پڑھ کر نکلے جو زندگی میں کامیاب ہوئے ، امریکہ پہنچے اور ا پنی کمائی کاایک حصہ انہوںنے مادر علمی کے لئے وقف کیا۔ان طالب علموںمیں چودھری ظفر صاحب بھی شامل ہیں جو مجھ سے ایک سال آگے تھے ا ور ڈاکٹر بن کر امریکہ میں انہوںنے اپنا نام پیدا کیا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہر کوئی سندھیلہ، ظفر اور سندھو صاحبان کی طرح اپنے اپنے علاقے کی خدمت کو شعار بنا لے تو ہم غیروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بچ جائیں گے اور اپنی آنے والی نسلوں کو ایک بہتر مستقبل دے سکیں گے،۔ مجھے سندھو صاحب کے جذبے نے بے حد متاثر کیا کہ وہ دولت کی ہوس نہیں رکھتے، انسانیت کی خدمت کو اصل دولت سمجھتے ہیں۔ا سلئے آج وہ سات ارب جیب میں ڈال لیں تو وہ اس خدمت سے محروم رہ جائیں گے جو خدا کے نزدیک اصل نیکی ہے۔سندھوصاحب اگلے چھ سالوں میں دولت نہیں۔ نیکیوں سے جھولی بھرنا چاہتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن