ملک میں نئے انتخابات کا بکل بج گیا ہے اور سیاست دانوں نے لنگر لنگوٹ کس لیے ہیں۔ دو روز پیشتر لاہور میں پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹرین کے صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی نے کبھی بھی شکست نہیں کھائی۔ 2013ء کا الیکشن آر اوز کی وجہ سے ضرورہارے۔ پچھلے الیکشن میں ہمارے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں تھیں وہ اب اتر چکی ہیں، میں اور بلاول میدان میں اتر آئے ہیں اب لگ پتہ جائیگا، آئندہ آراوز کے الیکشن کو نہیں مانیں گے، الیکشن کو صاف شفاف بنانے کیلئے تمام پارٹیوں سے رابطے کرینگے۔ دوسری جانب فیصل آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر مملکت برائے پانی و بجلی عابد شیر علی نے کہا کہ شرجیل میمن اور آصف زرداری نے لوٹ کھسٹ میں ڈاکٹریٹ کر رکھی ہے، سندھ میں چور اور ڈاکوئوں کی حکومت ہے ایک زرادی سب پر بھاری نہیں بلکہ ایک زرداری کی کرپشن سب پر بھاری ہے، آصف زرداری 10 فیصد کرپشن سے 100 فیصد پر چلے گئے، انہوں نے بے نظیر بھٹو کا خون بیچا، پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والا سابق گورنر ماڈل ایان علی کا کیس لڑتا ہے ، انہیں تو شرم سے ڈوب مرنا چاہیے، آئندہ انتخابات میں زرداری ٹولے کو مکمل ڈرائی کلین کرینگے۔ موجودہ حکومت اپنی 5 سالہ مدت کے چار سال پورے کر چکی ہے اور عام خیال یہ ہے کہ انتخابات اسی سال کسی وقت ہو سکتے ہیں۔ تاہم حکومت کی طرف سے نئے انتخابات کی تیاری کو پانامہ مقدمے کے ممکنہ فیصلے کے پس منظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو گمان ہے کہ فیصلہ نواز شریف یا موجودہ حکومت کیخلاف آئیگا۔ اس کا سہرا وہ اپنے سر باندھنا چاہ رہے ہیں اور ہر روز کہتے ہیں کہ انکی وجہ سے پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک حکمران کی تلاشی لی جا رہی ہے۔فیصلہ آنے سے پہلے ہی انہوں نے فیصلہ دے دیا ہے۔ جواب میں ن لیگ کے وزراء کی فوج روزانہ عمران خان اور انکے ساتھیوں کی تلاشی لیتی ہے۔ دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک صدرنشین آصف علی زرداری نے بھی نئے سرے سے انتخابی مہم کا آغاز کر دیا ہے اور گزشتہ جمعرات ہی کو انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ اگلا وزیراعظم انکا برخوردار بلاول زرداری ہو گا۔ فی الوقت تو آصف زرداری لاہور میں بیٹھ کر پنجاب کو فتح کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں۔ کبھی پنجاب ہی نے ذوالفقار علی بھٹو کو بھٹو بنایا اور سر آنکھوں پر بٹھایا تھا لیکن پھر ہوا بدل گئی۔ جنرل پرویز مشرف کی ہم نوائی کر کے چودھری برادران نے تخت پنجاب حاصل کیا اور جنرل پرویز کی بنائی ہوئی قائداعظم مسلم لیگ کے نام پر پنجاب پر حکومت کی۔ پرویز مشرف انتخابی جلسوں میں چودھری برادران کی مہم چلاتے رہے ہیں چنانچہ یہ چودھری پرویز الٰہی ہی ہیں جنہوں نے احسان کا بدلہ چکانے کیلئے اعلان کیا تھا کہ جنرل پرویز کو وردی سمیت 10 مرتبہ صدر بنائیں گے۔ کسی سیاستدان کی طرف سے اعلانیہ اس سوچ کا اظہار انوکھا واقعہ تھا لیکن جنرل کی وردی اتر کر رہی اور وہ خود بھی اقتدار کی کرسی سے اتر کر برسوں سے خود ساختہ جلا وطن ہیں۔ اب چودھری شجاعت اور پرویز الٰہی کا سہارا آصف علی زرداری نے تلاش کیا ہے۔ کمزور سہاروں کے ذریعے تو بازی نہیں جیتی جا سکتی۔ انتخابی مہم کیلئے آصف زرداری نے نواز شریف حکومت کو تختہ مشق بنایا ہے۔ سب سے زیادہ حیرت اس پر ہے کہ آصف زرداری نواز شریف پر کمیشن لینے کے الزامات لگا رہے ہیں۔ آصف زرداری کی عمومی شہرت کچھ اور ہے ، اسی لیے وہ پہلے مسٹر ٹین پرسنٹ (10%) اور بعد میں مسٹر ہنڈرڈ پرسنٹ (100%) کہلائے۔ گو کہ انہیں کئی برس تک قیدی رکھنے کے باوجود ان پر کوئی الزام ثابت نہیں کیا جاسکا لیکن کہا جاتا ہے کہ تاثر حقائق سے زیادہ قومی ہوتا ہے اور عوام میں آصف زرداری کا تاثر ایسا ہے کہ کسی اور پر کمیشن کا الزام لگانے پر لوگ ہنس پڑیں گے۔ سندھ میں 9 سال سے پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور حکمران سنگین الزامات کی زد میں ہیں، ابھی تک اس بات کا جواب نہیں ملا کہ لاڑکانہ کو جو 90 ارب روپے دیے گئے تھے وہ کہاں خرچ ہوئے ؟ اس سوال کی زد میں آصف زرداری کی بہن اور بلاول کی پھوپھی فریال تالپور آتی ہیں۔بہر حال ایک نئی سیاسی ہلچل کا آغاز ہونے والا ہے اور پانامہ مقدمے کا فیصلہ نئی راہیں متعین کریگا۔ انتخابی مہم میں حصہ لینے والی تمام جماعتیں اپنے کارکنوں کو تصادم سے باز رہنے کی سختی سے تاکید کریں۔ سینئر تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتِ حال اور سی پیک کے تناظر میں اسٹیبلشمنٹ ملک میں کسی قسم کا سیاسی عدم استحکام نہیں چاہتی۔ اسکی خواہش ہے کہ ترقی و تعمیر کا عمل جاری ہے۔ اس تناظر میں پانامہ لیکس کے سبب حکمران جماعت کو بڑا سیاسی دھچکا لگنے کا امکان نہیں۔جبکہ اب تک مرتب کی جانیوالی خفیہ جائزہ رپورٹس کیمطابق مسلم لیگ (ن)) 2018ء کے عام انتخابات میں گزشتہ الیکشن سے بھی زیادہ اکثریت حاصل کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ ملکی مفادات کے پیش نظر پالیسی ساز ادارے چاہتے ہیں کہ پروگریس اور ڈویلپمنٹ آگے چلے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ملک میں جمہوریت کا پہیہ چلتا رہے اور اس کے نتیجے میں سیاسی استحکام بھی برقرار رہے جبکہ اسٹیبلشمنٹ تعمیرو ترقی کے اس عمل میں تسلسل کیلئے کسی نئے تجربے کے موڈ میں نہیں۔ پالیسی ساز اداروں کی خواہش ہے کہ اگلے الیکشن میں کامیاب ہونے والی سیاسی پارٹی مطلق اکثریت کے ساتھ حکومت بنائے، کیونکہ بالخصوص سی پیک منصوبے کی تکمیل کیلئے ایک مضبوط سیاسی حکومت ناگزیر ہے۔ ان ذرائع کے بقول آصف علی زرداری کی سربراہی میں پیپلز پارٹی کو آئندہ ملکی اقتدار ملنا دشوار ہے۔ اپنے گزشتہ دور حکومت میں پیپلز پارٹی نے میمو گیٹ اسکینڈل کے علاوہ قومی سلامتی کے اہم اداروں کو زیر کنٹرول لانے کی جو کوششیں کیں اور جس طرح ملک کو امریکی خفیہ اداروں کی آماجگاہ بننے دیا، ان اقدامات کے سبب پیپلز پارٹی کو اسٹیبلشمنٹ نے سکیورٹی رسک کے خانے میں شامل کر لیا ہے۔ آنیوالے مہینوں میں زرداری مائنس پیپلز پارٹی کا آئیڈیا آگے بڑھائے جانے کا قومی امکان ہے۔ ذرائع کے بقول ایم کیو ایم اور اے این پی بھی سکیورٹی رسک والے خانے میں شامل ہیں۔ چنانچہ مستقبل کے سیاسی سنیاریو میں متذکرہ تینوں پارٹیوں کو ایسی پوزیشن ملنے کے امکانات معدوم ہیں۔ جس سے وہ ملک کے سیاہ و سفید کی مالک بن جائیں۔ ذرائع نے بتایا کہ عمران خان نے اپنی غیر سنجیدگی اور مختلف معاملات پر یوٹرن لینے کی پالیسیوں سے اسٹیبلشمنٹ کے ان حلقوں کو بہت مایوس کیا ہے جو تحریک انصاف کو مستقبل کی ایک متبادل حکمران جماعت تصور کر رہے تھے۔ بلکہ اس تصور کو عملی جامہ پہنانے کیلئے بھی کوشاں تھے۔ جائزہ رپورٹس کے مطابق آئندہ عام انتخابات میں تحریک انصاف پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو شکست نہیں دے سکے گی۔ جبکہ خیبرپختونخواہ میں قابل ذکر کارکردگی دکھانے میں ناکام رہنے والی تحریک انصاف اگلے الیکشن میں موجودہ حیثیت بھی کھوسکتی ہے۔ اس صورت میں وہ نہ صرف صوبائی حکومت سے محروم ہو جائے گی بلکہ خیبرپختونخواہ میں بھی جمعیت علمائے اسلام (ف) ، قومی وطن پارٹی اور آزاد امیدواروں کے ساتھ مل کر مسلم لیگ (ن) اپنا وزیراعلیٰ لائے گی۔ جس کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔