لاہور (آئی این پی) وزیر قانون پنجاب رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ گھریلو ملازم بچوں پر تشدد کے واقعات میں ان کے والدین کا ملزمان سے پیسوں کے عوض صلح کر لینا درست اور قانونی فعل ہے۔ گھریلو ملازمین کے قانونی حقوق بارے بی بی سی کو ایک انٹریو میں رانا ثنااللہ نے ’اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس کا جو نقصان ہوا ہے اس کے عوض اگر اسے مناسب رقم مل جاتی ہے اور وہ اس مطمئن ہے تو پھر اس پر اعتراض نہیں کرنا چاہئے کیونکہ یہ بھی تشدد کرنے والے کو ایک طرح کی سزا ہی ہے۔جب ان سے پوچھا گیا کہ تشدد کے شکار بچوں کے والدین تشدد کرنے والوں سے پیسے لے کر صلح کر لیتے ہیں اور اس طرح بچوں کے خلاف جرم کرنے والے اپنے انجام کو نہیں پہنچتے تو صوبائی وزیر قانون کا کہنا تھا پیسوں کی ادائیگی بھی ایک طرح کی سزا ہے جو جرمانے کی ہی ایک صورت ہے۔لوگ پولیس کو بیان دینے کے بعد اگر عدالت میں اس سے مکر جاتے ہیں تو اس میں قانون کیا کر سکتا ہے۔ صوبائی وزیر قانون کا کہنا تھابچوں پر تشدد کو روکنے کے لیے کسی خصوصی قانون کی ضرورت بھی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی شخص، چاہے وہ بڑا ہو یا بچہ، اگر تشدد ہوتا ہے تو اس کے خلاف پولیس سٹیشن میں مقدمہ درج کیا جاسکتا ہے۔میں اس بات کا قائل نہیں کہ ہر بات پر ایک الگ اور خصوصی قانون بنا دیا جائے۔ اگر ایسا کیا جائے تو قانون پر عملداری میں رکاوٹ ہوتی ہے۔رانا ثنا اللہ نے کہا کہ چونکہ گھروں میں کام کرنے والے بچوں کے ساتھ اگر تشدد یا زیادتی ہوتی ہے تو وہ چار دیواری کے اندر ہوتی ہے اور اس میں پولیس مداخلت اس لیے نہیں کر سکتی کہ اس صورت میں چاردیواری کا تقدس پامال ہوتا ہے۔’اگر پولیس کو یہ اجازت دے دی جائے کہ وہ لوگوں کے گھروں میں داخل ہو جائے تو پھر اس طرح تو پولیس ہر کسی کے گھر میں داخل ہو سکے گی اور اس طرح چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال ہوتا رہے گا۔