اسلام آباد(نمائندہ نوائے وقت)سپریم کورٹ میں ہائی کورٹ کے ججز جسٹس شوکت صدیقی، جسٹس فرخ عرفان کیخلاف شکایات کھلی عدا لت میں سننے کا معاملہ، عدالت نے وکلاء کے دلائل مکمل ہونے کے بعد کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔ کیس کی سماعت جسٹس شیخ عظمت سعید کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے کی ۔ جسٹس شوکت عزیز کے وکیل حامد خان نے کہا کہ یہ واحد معاملہ ہے جس میں نظرثانی کا حق نہیں، جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ آپ یہ کہ رہے ہیں کہ اسے کھلی عدالت میں ٹرائل کا حق دیا جائے؟ ایڈووکیٹ حامد خان نے کہا کہ کھلی عدالت کا ٹرائل شفاف ٹرائل کی ضمانت ہوتا ہے، جسٹس خود اوپن کورٹ میں مقدمات کی سماعت کرتے ہیں تو خود انکو یہ حق کیوں حاصل نہ ہو؟ ان کیمرہ سماعت شبہات کو جنم دیتا ہے ،جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ خفیہ ٹرائل میں پتہ نہیں ہوتا پکڑا کیوں اور کیا سزا ہوئی؟ ہم خفیہ ٹرائل کی طرف دیکھیں گے بھی نہیں،یہ معاملہ خفیہ نہیں بلکہ اسکا علم ہے، ایڈووکیٹ حامد خان نے کہا کہ یہ استحقاق کی بات ہے جو عدالت نے دیکھنی ہے، ان کیمرہ سماعت کے معاملے کا سب سے بڑا مقدمہ ذوالفقار علی بھٹو کیس ہے،خفیہ ٹرائل وہاں ہوتا ہے جہاں عوام کو سیکیورٹی خدشات ہوں، ملزم کا کردار تضحیک آمیز ہو اور معاملہ سکینڈلائز ہو، اس کیس میں ایسی کوئی بات نہیں، جہاں ثبوت کھلی عدالت میں ریکارڈ ہوں وہ شفافیت کا ضامن ہے، اٹارنی جنرل کو بھی اپنی رائے کی بجائے حکومت کا موقف دینا چاہیے، کیا ہم حکومت کے موقف کے پابند ہیں؟ سپریم جوڈیشل کونسل سے متعلق قوانین موجود نہیں، صرف طریقہ کار طے کیا گیا ہے، جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ جو آپ کہ رہے ہیں اسکا مطلب ہے آئین کا آرٹیکل 209 غیر موثر ہو جائے،اس کا مطلب یعنی جج کسی کے سامنے جواب دہ نہ ہو، آپ کہ رہے ہیں آرٹیکل 209 غیر فعال ہوگیا ہے اور جج جو چاہے کرے اسے کوئی کچھ نہیں کہ سکتا۔ ایڈووکیٹ حامد خان نے کہا کہ افتخارچوہدری کیس میں معاملہ ریفرنس بدنیتی پردائرکرنے کاتھا ، کونسل کے ایک ممبر کی رائیدوسرے پر اثراندازتوہوتی ہے،۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ اس عمر میں کون کسی دوسریکااثرلیتاہے، میں جتنامرضی چاہوں ساتھ بیٹھے جج اثرنہیں لیتے ، ایڈووکیٹ حامد خان نے کہا کہ اختلافی نوٹ شروع ہونا اچھی بات ہے، جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ آپ کہتے ہیں رولزنہیں توسب ججوں کواجازت ہوجوچاہے کریں،اٹارنی جنرل نے کہا کہ انکوائری پبلک میں نہیں ہوتی، جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ انکوائری کی سفارشات کو پبلک کیا جاتا ہے، جبکہ جسٹس مقبول باقر کا کہنا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارشات کے خلاف جج کے پاس اپیل کا کیا قانونی حق ہے؟ ہم اسے عام انکوائریوں کی طرز پر تو نہیں دیکھ سکتے،جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ ایسی جگہ نہ جائیں جہاں سے کسی کے پاس واپسی کا راستہ نہ بچے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ بنیادی بات یہی ہے کہ قانون نہیں، یہ ایک ضابطہ ہے جو بند دروازے میں کام کرتا ہے، یہ کوئی ایسی بات نہیں جو پہلے نہ ہوئی ہو، سپریم جوڈیشل کونسل عدالت نہیں ہے، یہ کوئی حقوق کا تعین نہیں کرتی، سپریم جوڈیشل کونسل نہ ہی فیصلہ کرتی ہے، یہ تجاویز رپورٹ کی صورت میں ہی مرتب کرتی ہے۔