کشمیر میں مذہبی جماعتوں کی طرف سے شہید ہونے والوں کے جنازوں میں جس طرح پاکستان میں ممنوع قرار دی جانے والی جماعتوں کے یا عالمی سطح پر جن مذہبی جماعتوں پر انتہا پسندی اور دہشت گردی کی وجہ سے پابندی عائد ہے کے پرچم لہرائے جا رہے ہیں۔ ان مذہبی جماعت کے حق میں نعرے بازی ہو رہی ہے۔ اسکے منفی اثرات جاری تحریک آزادی پر پڑنے لگے ہیں۔ مجاہدین سے محبت شہدا سے عقیدت پرکوئی دو آرا نہیں۔ تمام کشمیری دل و جان سے جنگ آزادی لڑنے والے ان مجاہدین کے ساتھ ہیں۔ وہ دل و جان سے مالی و جانی قربانیوں کے باوجود ان مجاہدوں کا ساتھ نہیں چھوڑ رہے۔ کیوں ہر کشمیری جانتا ہے کہ بھارت کی غاصب افواج کیخلاف لڑنے والے یہ مجاہد کشمیریوں کی آن بان شان اورجان ہیں۔ یہ نہتے کشمیری مجاہد جس طرح معمولی ہتھیاروں سے لاکھوں جدید ہتھیاروں اور حکومتی مدد سے لیس بھارتی افواج کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ ان کو تگنی کا ناچ نچا رہے ہیں وہ تاریخ کشمیر کا انمول باب ہے۔ اس جنگ آزادی میں ان کشمیریوں کے ساتھ پاکستان سے بھی کئی نوجوان شامل ہیں۔ ان کا تعلق خواہ کسی بھی مذہبی جماعت ہو یا کالعدم تنظیم سے جب انکے نام سے نعرے بازی ہوتی ہے ان کالعدم جماعتوں کے پرچم لہرائے جاتے ہیں تو دُنیا بھر کا میڈیا اسے کوریج دے رہا ہوتا ہے۔ لاکھوں کشمیریوں کا اجتماع جو جنازوں پر ہوتا ہے وہ دب جاتا ہے اور انتہا پسندی و دہشت گردی کو موضوع بحث بنا دیا جاتا ہے۔ 1990ء سے شروع ہونیوالی اس تحریک کے ساتھ پہلے بھی یہی المیہ رہا ہے کہ اسے کشمیر کی تحریک آزادی کی بجائے کفر و اسلام کی جنگ کا رنگ دیدیا گیا۔ جس کا سارا نقصان تحریک آزادی کو پہنچا۔ اور اس کا ٹمپو ٹوٹ گیا۔ اور بھارت کو موقع مل گیا کہ وہ اس تحریک کو عالمی سطح پر بدنام کرے۔ اب پھر ایک بار یہی کچھ دہرایا جا رہا ہے۔ اسلامی جمہوریہ کشمیر کے نعرے۔ داعش کے پرچم، جیش محمد کے نعرے اور پرچم، جماعت الدعوۃ کے نعرے اور پرچم لگا کر تحریک آزادی کشمیر کو ایک مذہبی رنگ دیا جا رہا ہے جس کا فائدہ بھارت کو ہو رہا ہے اور وہ یہ فائدہ اُٹھا بھی رہا ہے۔ کیونکہ ان تنظیموں پر دہشت گرد تنظیموں کا ٹھپہ لگ چکا ہے۔ دُنیا بھر میں اس وقت دہشت گردی کیخلاف مہم چل رہی ہے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی کو بھی دہشت گردی کے ساتھ جوڑ کر عالمی برادری کے سامنے پیش کر رہا ہے کہ یہ دیکھیں یہ تحریک آزادی نہیں دہشت گردی کی تحریک ہے جو پاکستان کی خفیہ ایجنسیاں چلا رہی ہے ۔ یا داعش، القاعدہ اور طالبان کی سرپرستی میں چل رہی ہیں ثبوت یہ ہے۔ پھر کشمیری مظاہرین کے جلسوں، جلوسوں اور شہداء کے جنازوں میں خلافت اسلامیہ ، الکشمیر اور اسلامی جمہوریہ کشمیر کے بینرز، داعش کے جھنڈے القاعدہ اور طالبان کے نعرہ لگانے والے جو چہرے چُھپائے ہوتے ہیں دکھائے جاتے ہیں۔ اس طرح عالمی سطح پر مجبور و مظلوم کشمیریوں کی حمایت میں اُٹھنے والی آواز اور حمایت ختم ہوتی ہے۔ کیونکہ داعش، القاعدہ اور طالبان کا بھوت عالمی برادری کو کشمیر میں بھی ناچتا اور چھاتا نظر آنے لگتا ہے۔ اس وقت ایسی کسی بھی صورتحال سے تحریک کو کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا۔ پاکستانی پرچم لہرانا درست ہے کیونکہ پاکستان اس مسئلے کا تیسرا اہم فریق ہے۔ آزاد کشمیر کا پرچم بھی جائز ہے کیونکہ یہ کشمیر کے آزاد حصے کا قومی پرچم ہے۔ ان کا منفی اثر نہیں ہوتا ہے۔ عالمی رائے عامہ کو عالمی برادری کو مطمئن کیا جا سکتا ہے۔ مگر داعش ، طالبان اور القاعدہ کے حوالے سے کوئی بڑی سے بڑی جماعت یا مجاہد تنظیم کسی کو کس طرح مطمئن کر سکتی ہے۔ ہے اس سوال کا جواب کسی کے پاس بھارت کو زچ کرنا اپنی جگہ مگر اسکے بدلے میں کشمیری مجاہدین کی پوری جدوجہد کو تباہ کرنا شہدا کی قربانیوں کو غارت کرنا کہاں کا انصاف ہے کہاں کی حب الوطنی ہے اس لئے تحریک آزادی کشمیر کے اس نازک مرحلے میں اس تحریک کو اختتام یا انجام تک پہنچانے کا فیصلہ کشمیریوں کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ کیا لاکھوں شہدا کا خون رائیگاں جانے دیا جائیگا یا حریت کانفرنس کے بڑے اور مجاہد تنظیموں کے بڑے مل کر سرجوڑ کر کوئی متفقہ لائحہ عمل اختیار کرینگے کہ تحریک آزادی کو انتہا پسندی اور دہشتگردی سے جوڑنے کی یہ کوششیں کس طرح ناکام بنائی جا سکے۔ کیونکہ تحریک آزادی کی باگ ڈور انہی کے ہاتھ میں ہے۔ ان پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ تحریک آزادی کشمیر کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کے ساتھ جوڑنے کی ہر کوشش کا ڈٹ کر مقابلہ کریں اور اس کی راہ روکیں۔ ڈیڑھ لاکھ کشمیریوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ اس لئے نہیں دیا کہ انکی پوری تحریک کو بیرونی عناصر ہائی جیک کر لیں۔ یا انکی قربانیوں کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کے ساتھ جوڑ کر انکے مقدس لہو کو ضائع کر دیا جائے۔ اس وقت عالمی سطح پر جس طرح دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کی مہم چلی ہے اسکی زد میں آنے سے پہلے کشمیر کی تحریک آزادی کو بچانا ہو گا اسے بھارت سے آزادی اور بھارت سے کشمیریوں کے جبری الحاق اور بھارت کے کشمیر پر جابرانہ قبضے کیخلاف کشمیریوں کی قومی آزادی کی تحریک ہی بتانا ہو گا۔ عالم اسلام میں سے کوئی بھی ملک کشمیریوں کی مدد کرنے کو تیار نہیں۔ پاکستان کے سوا کسی کو کشمیریوں کی آزادی یا غلامی سے کوئی سروکار نہیں۔ جبکہ خود پاکستان بھی اس وقت دہشت گردی کے حوالے سے عالمی دبائو کا شکار ہے۔ اسے بھی کشمیریوں کی مدد میں مشکلات پیش آ سکتی ہیںاس لئے تحریک آزادی کشمیر کو ہمیں اقوام متحدہ کی قراردادوں کیمطابق 1947ء کے آزادی ہند کے پلان کے تحت حق رائے شماری سے حل کرنے کی راہ اپنانا ہو گی۔ یہ وہ حق ہے جو کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں نے بھی عطا کیا ہے اور بھارت اور پاکستان دونوں اس پر متفق بھی ہیں کہ مسئلہ کشمیر کا حل کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق انکے استصواب سے کیا جائے۔ اس عمل میں بھارت کی طرف رکاوٹیں ڈالنے اور زبردستی کشمیریوں کی گردنوں پر مسلط ہونے کی وجہ سے جو انتشار پیدا ہوا ہے کشمیریوں کی مسلح جدوجہد اس کا نتیجہ ہے۔ سات لاکھ بھارتی فوج جدید اسلحہ سے لیس کشمیر میں پکنک منانے نہیں آئی وہ اپنا جبری تسلط برقرار رکھنے کیلئے وہاں سر اُٹھانے والے کشمیری سرفروش کے لہو سے ہولی کھیل رہی ہے۔ یہ مسلح تحریک آزادی اس بھارتی ظلم و ستم جبر و تسلط کے خلاف کشمیریوں کی نفرت کی ترجمان ہے۔ کشمیریوں نے آج سے 70 سال پہلے بھی بھارت کی غلامی قبول نہیں کی وہ آج بھی بھارتی قبضے کیخلاف جبری غلامی کیخلاف برسرِپیکار ہے۔ انہیں آزادی کی یہ جنگ لڑنے کا مکمل حق حاصل ہے۔ جس طرح بھارت کو انگریزوں سے آزادی کی جنگ لڑنے کا حق تھا۔ خدارا اس جنگ آزادی پر دہشت گردی یاانتہا پسندی کا لیبل لگنے نہ دیں۔ اس داعش، القاعدہ اور طالبان کے ٹھپے سے محفوظ رکھ کر ہی حریت کانفرنس اور مجاہدین تنظیمیں اس تحریک کو کسی انجام تک پہنچا سکتی ہیں۔ اگر دہشتگردی اور انتہا پسندی کا ٹھپہ لگ گیا جس کیلئے بھارت بھی پوری کوشش کر رہا ہے تو پھر یہ تحریک انجام تک نہیں پہنچ سکے گی، البتہ اسکا اختتام ضرور قریب آ جائیگا جو کشمیریوں کی سب سے بڑی بدقسمتی ہو گی اور اسکی ذمہ داری مجاہد تنظیموں ، حریت کانفرنس، اور ان کالعدم تنظیموں اور جماعتوں پر عائد ہو گی جنہوں نے یہ تحریک ہائی جیک کرنے کی کوششوں کو بروقت روکنے کی کوشش نہیں کی۔ دنیا بھر میں انسانی حقوق قوموں کی آزادی کیلئے نرم گوشہ رکھا جاتا ہے۔ دنیا کے سامنے کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی، ممنوع ہتھیاروں کے استعمال اور 7 لاکھ فوجیوں کی تعیناتی کشمیریوں کی بلاجواز گرفتاریوں، پھانسیوں، جعلی مقابلوں میں ہلاکتوں کو دنیا کے سامنے اجاگر کرنے سے اس تحریک کو عالمی حمایت مل سکتی ہے۔ اقوام متحدہ میں یہ پرانا مسئلہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ داعش، طالبان اور القاعدہ کے جھنڈے لہرانے سے یہ مسئلہ بگڑ سکتا ہے اس لئے اس سے اجتناب کرنا ہو گا۔