اور اب عبوری حکومت کی تشکیل … ؟

قائداعظم نے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان بن جانے کے بعد یہ اعلان کیاکہ آج سے سب پاکستانی ہیں اور پاکستانی ہونے کے ناطے مذہب و سیاست سب برابر کے حقوق رکھتے ہیں۔ کسی بھی سیاسی مخالف کو انتقام کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا چنانچہ مخالفین جو تقسیم کے خلاف تھے کو برابر کے حقوق مل گئے لیکن کانگریسی مسلمان شکست کو تسلیم کرنے کی بجائے تخریبی سرگرمیوں میں مصروف ہوگئے آج بھی تقسیم کو ختم کرنے کے لئے بھارت کے اشاروں پر کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے یک جہتی پیدا کرنے کی بجائے غلامانہ ذہنیت رکھنے والے زمینداروں، تمن داروں، وڈیروں، نوابوں اور سرداروں کو ساتھ ملا لیا اور ایک ہی کوشش میں مصروف نظر آتے ہیں کہ کسی بھی طرح نسلی ، لسانی، فساد برپا کرکے پاکستان کو بنگلہ دیش بنا دیا جائے جہاں حسینہ واجد یہ کہتی نظر آ رہی ہے کہ پاکستان سے محبت رکھنے والوں کو چن چن کر ختم کر نا ہوگا۔ اکھنڈ بھارت کا یہ پہلا مرحلہ ہے جو وہ مقامی ایجنٹوں سے کراو رہا ہے۔ دوسرے مرحلے کا نمونہ گجرات میں پیش کیا جاچکا ہے اور مقبوضہ کشمیر میں کیا جا رہا ہے۔ تمام اسلام دشمن قوتیں اس سازش میں برابر کی شریک ہیں۔ داعش کی تخلیق اور اس کے ذریعہ اسلام کے نام پر قتل و غارت گری کروائی جا رہی ہے۔ یہ سازش اب کھل کر سامنے آچکی ہے۔
آئین میں عبوری وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ اور ان کے وزراء کا تقرر، تین مہینے کے اندر اندر آزادانہ منصفانہ، صاف شفاف الیکشن کروانا ان کی ذمہ داری قرار دیا گیا ہے۔ 70 سال گزرنے کے بعد بھی اب تک جتنے الیکشن پاکستان میں ہوئے ہیں سب کے سب متنازعہ قرار دیئے گئے ہیں ہارنے والا اپنی شکست تسلیم نہیں کرتا اور جیتنے والا الیکشن کے نام پر اقتدار پر قبضہ جمائے رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتا رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ 1970ء کا الیکشن ہرقسم کی دھاندلی سے پاک تھا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مشرقی پاکستان میں ہونے والے انتخابات دہشت، زور، زبردستی اور دھاندلی کی ایسی مثال ہیں جو اس سے پہلے کبھی سامنے نہیں آئی تھی۔ بھارت نے شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ کے ساتھ گٹھ جوڑ کیا اور کسی دوسری جماعت کوالیکشن لڑنے ہی نہیںدیا جہاں تک پاکستان کے آئین اور اس میں درج عبوری حکومتوں کا ذکر ہے اس کی بنیاد نیک نیتی اور ایمان داری پر ہے۔ 1947ء سے پہلے کے برصغیر میں جھوٹ بولنا، حسد کرنا، دھوکہ دینا، بہت معیوب سمجھا جاتا تھا۔ غربت تھی لیکن بے ایمانی اور بے حیائی کا دور دور تک نشان نہیں تھا۔ آزادی کے بعد پہلے پاکستانی بجٹ میں ایک کروڑ روپے کا خسارہ تھا۔ فنانس سیکرٹری نے قائداعظم سے کہا کہ ایک چھوٹا سا ٹیکس لگا دیتے ہیں جس کے نتیجے میں کئی کروڑ روپیہ جمع ہو جائے گا۔ قائداعظم نے برہمی کا اظہار کیا اور فرمایا کہ کیا ہم آزادی کا انعام پاکستانی عوام کو ٹیکسوں کا تحفہ دے کر کریں؟ اور اپنے چار ساتھیوں وقار الملک وغیرہ کو حکم دیا کہ 25/25 لاکھ روپے عطیہ خزانے میں جمع کروا دیں اس طرح وہ خسارہ پورا کیا گیا اس اعلیٰ ترین مثال کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان میں خزانے کا استعمال دیانت داری سے امانت سمجھ کر کیا جاتا لیکن افسوس آج جس اقتصادی تباہی سے پاکستان دو چار ہے وہ قائدین کے رخصت ہو جانے کے بعد نااہل اور خودغرض برسراقتدار طبقے نے دانستہ پیدا کی ہے۔ ہمیں فخریہ بتایا جاتا ہے کہ پاکستان میں ہر پیدا ہونے والا شیرخوار بچہ ایک لاکھ 35 ہزار روپے کا مقروض ہے اس کا مطلب ہے کہ پوری پاکستانی قوم، اس کے اثاثوں، اس کی عزت و ناموس کو گروی رکھ دیا گیا ہے۔ ماہرین معاشیات کی باتیں سنیں تو رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ آنے والے چند مہینوں میں پاکستان کو دیوالیہ قرار دے دیا جائے گا اور جن اثاثوں پر دشمن کی نظر ہے وہ خطرے میں پڑ جائیں گے، جس بہادر اور نڈر فوج پر پاکستانی فخر کرتے ہیں ان کی تنخواہیں ادا کرنے کی پوزیشن میں بھی حکومت نہیں رہے گی نوٹ چھاپ چھاپ کر افراط زر اور مہنگائی نے پہلے ہی عوام کا جینا دو بھر کیا ہوا ہے۔ ان حالات میں 2018ء کا الیکشن ہونے جا رہا ہے سیاست دانوں کے سامنے اور خاص طور پر برسراقتدار ٹولے کے سامنے مسئلہ یہ ہے کہ کسی بھی طرح عبوری وزیراعظم اپنی مرضی کا لایا جائے تاکہ لوٹا ہوا مال محفوظ رہے اور کوئی ہم سے یہ نہ پوچھے کہ یہ مال کہاں سے آیا۔ امین، فہیم اور دیانت دار وزیراعظم کی تلاش کا ذکر دور دور تک نہیں، مراعات یافتہ طبقہ کے ذریعے معاشرے میں افراتفری کا ماحول پیدا کرنے کی سرتوڑ کوششیں جاری ہیں یہ تو پاکستان کے غریب اور پسے ہوئے محب وطن عوام ہیں جنہوں نے لازوال قربانیاں دے کر پاکستان کا وجود قائم رکھا ہوا ہے۔ اُمید کی ایک کرن دور سے نظر آتی ہے۔ ماضی کی طرح ’’مٹی پائو‘‘ قسم کے سمجھوتوں کی کوئی گنجائش باقی نہیں ہے۔ اگر سعودی عرب جیسے ملک میں شاہی خاندان کے شہزادوں سے لوٹی ہوئی دولت واپس لی جاسکتی ہے تو پھر پاکستان کے کم ظرف چوروں اور لٹیروں سے لوٹی ہوئی رقم کیوں واپس نہیں لی جاسکتی۔ یہ کام جس انداز اور شریفانہ برتائو کے ساتھ نیب کر رہی ہے اور اسے جن مشکلات کا سامنا ہے اس کا علاج عرف عام میں ایک ہی ہے کہ ’’ڈنڈا پیر اے وگڑیاں تگڑیاں دا‘‘ جس طرح عام مجرم سے ریمانڈ کے بعد تفتیش کی جاتی ہے بالکل اسی طرح ان سفید پوش مجرموں سے بھی کی جانی چاہے۔ ماہرین معاشیات کہتے ہیں کہ پاکستان پر ایک سو ارب ڈالر کا قرضہ ہو چکا ہے جبکہ پاکستانی حکمرانوں اور مراعات یافتہ طبقات 600 ارب ڈالر مالیت کی جائیدادیں اور کیش دوسرے ملکوں میں رکھ کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ ملک کی سلامتی اور پاکستانی عوام کی عزت و وقار کے لیے ضروری ہے کہ اس معاملے میں مزید تاخیر نہ کی جائے تاخیر کی اب کوئی گنجائش بھی باقی نہیں ہے امید کی کِرن کا اوپر ذکر کیا ہے آج کل سارے معاملات انہیں کے ہاتھ میں ہیں۔ الیکشن کروانے ضروری ہیں لیکن ایسے الیکشن کا کیا فائدہ جس کے نتیجے میں عوام کے صحیح نمائندے منتخب ہو کر نہ آسکیں جمہوریت اسی وقت کامیاب ہوسکتی ہے جب میرے اور آپ کے ہم سب کے صحیح نمائندے اسمبلیوں میں پہنچیں ۔ اس کا ایک حل یہ ہے کہ فی الوقت جن جن حضرات کے کرپشن اور بدعنوانیوں کے معاملات نیب میں زیر تفتیش اور زیر سماعت ہیں ان پر الیکشن میں حصہ لینے پر پابندی عائد کی جائے۔ اور جن ایم این اے،ایم پی اے، سینیٹرز نے ترقی کے نام پر اپنے کلے مضبوط کرنے کے لئے خزانے سے پیسہ لیا ہے وہ پیسہ ان سے واپس لیا جائے اور 2018 ء کے الیکشن میں حصہ لینے سے روک دیا جائے الیکشن کے قواعد کے مطابق دولت کا بے تحاشہ استعمال سختی سے روکا جائے تاکہ پڑھے لکھے درمیانہ طبقے کے لوگ الیکشن میں حصہ لے سکیں۔ جمہوریت کے نام پر جو مذاق ستر سال سے جاری ہے وہ اب ختم ہونا چاہیے تب ہی خلق خدا کے لئے آسانیاں پیدا ہوسکتی ہیں اور مملکت خداداد ایک فلاحی ریاست بن سکتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن