تاریخ کے جھروکے آج بھی صبح صادق کی طرح چہارسو سچائیوں کے ڈھیر لگا رہے ہیں۔ ذرا چشم تصور سے دیکھئے 1906ء کی پاکیزہ ساعتیں ہیں‘ ڈھاکہ میں نواب سر سلیم اللہ کے گھر برصغیر کے مسلم رہنماؤں کی ایک کہکشاں اُتری ہوئی ہے۔ سرسید احمد خان کی تحریک علی گڑھ کا پودا اب شجر سایہ دار کی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے ‘ مسلم لیڈر شپ سرجوڑ کر بیٹھی ہے۔ اس میں بنگالی اور غیر بنگالی کی کوئی تمیز نہیں‘ سب کی سوچ ایک‘ مفادات کی نہج ایک اور فکر کے سر چشمے ایک ہیں‘ چشم فلک دیکھ رہی ہے‘ سرسید کی قائم کردہ محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کی کوکھ سے آل انڈیا مسلم لیگ کی کونپل پُھوٹ پڑی ہے‘ سب کے چہرے مسرور ہیں‘ سرآغا خان کو اس نوزائیدہ سیاسی جماعت کی قیادت سونپی جارہی ہے۔ سرسلیم اللہ تو کیا‘ نواب محسن الملک اور نواب وقار الملک سمیت ساری بنگالی مسلم لیڈر شپ آل انڈیا مسلم لیگ کی لڑی میں پروئی جاچکی ہے۔ کسی کی زبان پر یہ الفاظ نہیں کہ اس مساعی سے بنگالی مسلمانوں کے مفادات کو زک پہنچے گی۔ کسی بھی بنگالی لیڈر کے ذہن کے کسی خلیے میں یہ بات موجود نہیں کہ ہندوستان کے شمال مشرقی اور شمال مغربی اکثریتی مسلمانوں کے سیاسی و معاشی مفادات الگ الگ ہیں۔ سب ہی ایک کشتی میں سوار ہو چکے ہیں اور اپنی منزل یعنی ہندوستان میں اپنے لیے علیحدہ وطن کے قیام کی جانب چل پڑے ہیں۔ اس وقت کوئی شیخ مجیب الرحمن یا حسینہ واجد نہیں‘ جو ہرزہ سرائی کرتیں کہ اس مشترکہ جدوجہد سے مسلم بنگال کے مفادات مجروح ہونگے۔ بنگلہ دیشی وزیراعظم حسینہ واجد کو آج تاریخی حقائق ازبر نہیں ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں ڈھاکہ میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ ہمیں ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ‘ جس سے بنگلہ دیش کے مسلمانوں کے دل پاکستان کی محبت سے خالی ہو جائیں اس موقع پر ان کی ہرزہ سرائی ایسی نہج پر آپہنچی جہاں انسان اپنے ہی وجود کی نفی کر بیٹھتا ہے۔ فرماتی ہیں پاکستان سے محبت کرنے والے بنگلہ دیشیوں کو سخت سزا ملنی چاہئے۔ عوام کو پاکستان کے ساتھ لگاؤ رکھنے والوں کا منہ توڑ جواب دینا ہوگا‘ ورنہ ہمارا وجود مٹ جائے گا۔ آفرین ‘ صد آفرین حسینہ واجد اس ہرزہ سرائی سے ان کے اپنے بزرگوں کی ارواح تڑپ اُٹھی ہونگی اور عالم بالا میں آسودہ شیر بنگال مولوی فضل الحق کی روح کا اضطراب کاش چشم بینا سے دیکھ سکتیں؟ انہیں شاید معلوم نہیں یا یاد ہی نہ رہا کہ لاہور میں 1940ء کی قرارداد پاکستان پیش کرتے ہوئے ان کے لحن کی گھن گرج آج بھی تاریخ کی سماعتوں میں محفوظ ہے۔ حسینہ واجد صاحبہ اپنے بزرگوں کی جدوجہد کا یکسر انکار کرکے کوئی بھی قوم اپنا قبلہ راست نہیں کرسکتی۔ تاریخ کی جگمگ کرتی سچائی تو یہ ہے کہ پاکستانیت آج بھی بنگلہ دیشی مسلمانوں کے خون میں شامل ہے اور یاد رکھیے جو صداقت آئندہ نسلوں کو ان کے بزرگوں کی طرف سے ودیعت ہوتی ہے‘ وہ خون میں شامل ہو کر ان کا ورثہ اور اثاثہ بن جاتی ہے۔ لہٰذا بنگلہ دیشی مسلمانوں کے دل سے آج بھی پاکستان کی محبت ختم کرنا ایک کار لاحاصل ہے۔ یہ اسلامیان برصغیر کے دلوں کا ایسا چراغ ہے ‘ جو پھونکوں سے بُجھانا ناممکن ہے۔
حسینہ واجد صاحبہ بنگلہ دیش کے وجود کو پاکستانیوں نے تسلیم کیا اور اگر آپ یاد دلانا چاہتی ہیں تو اطراف کی تاریخی غلطیاں اور سیاسی مغالطے یاد دلائیں‘ یہی ایک اصلاحی پہلو ہوسکتا ہے اس سارے معاملے میں اور تاریخ سے خوشہ چینی کرتے ہوئے بعض حقائق بھی بازیافت کرنے کی ضرورت ہے۔ جس میں ایک مرحلہ تقسیم بنگال کا بھی ہے۔ یہ تاریخی سچائی ہے کہ 1905ء میں تقسیم بنگال سے مشرقی بنگال کے مسلمانوں کو معاشی فائدہ پہنچنے کا احتمال تھا۔ اگرچہ اس وقت انگریزوں نے یہ فیصلہ اپنے انتظامی اقدامات کے تحت کیا تھا لیکن متحدہ بنگال کے بڑے صوبہ مغربی بنگال کے متعصب ہندو نہیں چاہتے تھے کہ اقلیتی صوبے کے پسماندہ مسلم عوام ترقی کریں۔ ان کی خواہش تھی بنگال متحد رہے اور سارے فنڈز مغربی بنگال کے ہندوؤں کی ترقی پر خرچ ہوں ‘ لہٰذا انہوں نے اس تقسیم کے خلاف سخت احتجاج اور بے جا واویلا کیا اور بعد ازاں اس تقسیم بنگال کو ختم کرا کے چھوڑا۔ محترمہ کیا آپ کو تاریخ کے اس مرحلے پر مشرقی بنگال کے مسلمانوں کے معاشی وسیاسی مفادات کو زک پہنچنے کی سچائی نظر نہیں آتی؟ اس منظر نامے میں آپ کو مشرقی بنگال کے مسلمان عوام کے ساتھ پورے ہندوستان کے مسلمانوں کی عملی معاونت وہمدردی بھی نظر نہ آئی جو اس بات کی دلیل تھی کہ اسلامیان برصغیر کے دل کی دھڑکن امت واحدہ کی گواہی دے رہی ہے۔ یہ سارا منظر نامہ آپ کی آنکھوں سے کیسے اوجھل ہوگیا؟ سقوط مشرقی پاکستان کے وقت پاکستان کے حکمرانوں‘ ارباب اختیار اور اسٹبلشمنٹ نے سنگین غلطیاں اور بے محابا غلط اقدامات کئے تھے۔ پاکستان کے مؤرخین‘ محققین اور دورس نگاہوں کا قلم تھامنے والوں نے ان غلطیوں کا ہمیشہ کھلے دل سے اعتراف کیا اور آج کے بنگلہ دیشی مسلمانوں سے ہاتھ جوڑ کر معافیاں بھی مانگیں‘ پاکستان کے معصوم‘ نہتے اور بیگناہ مسلم عوام کا اس میں کیا قصور تھا؟ جبکہ حسینہ واجد آپ بنگلہ دیشی مسلمانوں کو پاکستان دشمنی کا سبق پڑھا رہی ہیں‘ آخر کیوں؟ یاد رکھیں اور ہزار مرتبہ یاد رکھیں پاکستانیت آج بھی پاکستان اور بنگلہ دیشی مسلمانوں کا مشترکہ اثاثہ ہے۔ ان کی جھولی میں تاریخ نے یہ قیمتی نظریہ ڈالا تھا۔ جس کا دوسرا نام دو قومی نظریہ یا نظریہ پاکستان ہے۔ جو چاہے اسے مسلم تشخص کا نظریہ بھی کہہ سکتا ہے۔ جس کی افادیت کلام اقبال میں جابجا موجود ہے۔خاص ہے ترکیب میں قوم ِرسولؐ ہاشمی ۔ محترمہ ہندوستانی حکمرانوں کی زبان اور نطق سے بات کرنا چھوڑ دیں،پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں کا درحقیقت آج بھی ازلی دشمن متعصب ہندو ہے،جس کے خلاف دونوں ملکوں کے مسلم عوام کی سال بہ سال جدوجہد آج بھی تاریخ کا اٹوٹ انگ رشتہ ہے۔بنگلہ دیش کے عوام کو سلام کہ وہ تمہاری بے سروپا ور غیر تاریخی باتوں پر یقین نہیں کریں گے۔جس طرح آج بھی پاکستانیوں کے دل میں شیر بنگال مولوی فضل الحق کی محبت موجزن ہے،اسی طرح بنگلہ دیشی مسلمان آج بھی قائداعظم محمد علی جناحؒ کا نام عزت واحترام سے لیتے ہیں۔ آپ بنگلہ دیش کے عوام کو پاکستان دشمنی کا درس دے کر کیا حاصل کرنا چاہتی ہیں ؟ہمیں معلوم ہے صرف دو چیزیں آپ کا مطمحٔ نظر ہے۔ایک ہندوستان کی زبان میں پاکستان کو مخاطب کرنا ور دوسراا پنے والد کی غداری کو حب اوطنی میں تبدیل کرنا۔ لیکن یہ دونوں مقاصد حاصل نہ ہو سکیں گے۔ پاکستان سے محبت رکھنے والوں کو لاکھ پھانسی کے پھندوں پر لٹکائیں۔ اطراف کے مسلم عوام کے دلوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرسکتیں،غلطیوں کا اعتراف تو دونوں جانب سے ہوچکا اب محبتیں بانٹنے کا دور قریب تر آگیا ہے۔ہندوستان کے حکمرانوں کو ڈر ہے کہ بنگلہ دیش اور پاکستان دوبارہ دو آزاد مسلم ممالک کی حیثیت سے یکجا ہوئے تو ان کے بنیادی منفی مقاصد کو دھچکا لگے گا۔ہاں ہندوستان کے حکمران اور اسٹیبلشمنٹ بھی نوٹ کر لیں کہ تاریخ کے مثبت عمل میں جڑے ہوئے دو مسلمان ممالک کو دور رکھنے کی سازشیں اب زیادہ کامیاب نہیں ہونگی۔ پاکستانیت ایک ایسا چراغ ہے جو پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں مسلمان بھائیوں جیسے ممالک کے دل کی روشنی ہے، یہ جلتا رہے گا اور تاابد اسے کوئی بجھا نہ سکے گا ،ہمارے مشترکہ بزرگوں کا دعویٰ تاریخ کے ایوانوں میں آج بھی گونج رہا ہے کہ پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا۔