پوری قوم اس بات پرحیران ہے کہ ملکی عدلیہ کی تاریخ میں قائد عدل چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار پہلے قاضی ہیں جو اندرون عدالت ہی نہیں بیرون عدالت بھی بے حد مستعد اور فعال ہیں، صرف اس لئے کہ بے بس اور بیچارے لوگوں کا کوئی پرسان حال نہیں ان کی تقلید کرتے ہوئے باقی سارے جج صاحبان سرکاری اداروں میں قدم رنجہ فرمانے لگیں تو گڈ گورننس کا سورج طلوع ہو سکتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو اگر بابا رحمتے ہفتہ اتوار بادشاہی مسجد میں دربار عام لگا یا کریں تو حکمرانوں ہی نہیں عدلیہ کی بھی قلعی کھل جائے گی۔ جسٹس ثاقب نثار جہاں کہیں کبھی بیٹھیں گے ، وہ جگہ سپریم کورٹ ہی ہوگی اور عام پاکستانی بغیر کورٹ فیس اور وکیل کے انکے روبرو پیش ہو سکیں گے۔ گزشتہ 4 ماہ میں دوبارہ روپے کی قدر میں غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کی طرح کمی کیا گل کھلا رہی ہے اس کا عام پاکستانی کو ذرا پتہ نہیں۔ ایک اور پیکج کیلئے آئی ایم ایف کے در دولت پر حاضری دینے جا رہے ہیں۔
کرنٹ اکائونٹ کا خسارہ 10.82 ارب ڈالر ہے یعنی اخراجات آمدنی سے 10.82 ارب ڈالر تجاوز کر چکے ہیں اسحاق ڈار نے اکانومی کو بھی گھر کے سامنے والا پارک سمجھا اور گھر کا حصہ بنا لیا۔ عمران کی طرح ڈار بھی کسی ایک کی نہ سنتے تھے ، سینئر بیوروکریٹ تو درکنار وزراء کو بھی درخور اعتنا نہیں سمجھتے تھے۔ چین بھارت اور بنگلہ دیش نے ہماری ٹیکسٹائل کو پچھاڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔4 سال میں ہمیں ایکسپورٹس کے حوالے سے ایک ارب ڈالر سالانہ کا نقصان ہوا۔ جو باتیں چیف جسٹس کہہ رہے ہیں وہ باتیں ارکان پارلیمنٹ اپوزیشن لیڈروں اور سیاستدانوں کو کہنی چاہئیں۔ ہسپتالوں کے دورے وزیر صحت اور سیکرٹری ہیلتھ کیوں نہیں کرتے ؟ ہر بات کیلئے کمیٹی قائم کردینا ملک کو ایسٹ انڈیا کمیٹی کی طرز پر چلانے کا عزم ہے اس بات کامینڈیٹ کس نے حکمرانوں کو دیا ہے ۔ 62 ارب ڈالر کے سی پیک کے منافع میں بڑا حصہ دار چین ہی تو ہے۔ ہم پیسے کے ضیاع سے باز آنے کی بجائے آئی ایم ایف سے بیل آئوٹ پیکج لیتے رہے۔ وہ بھی ہماری اشرافیہ اور حکمرانوںکی طرز فکروعمل کو ہم سے زیادہ جانتے ہیں زیادہ زور میٹرو اور موٹرویز وغیرہ پر دیا ہے، دل ہسپتالوں کی ایمرجنسی 500 بستروں کی ہونی چاہیے۔ بیڈ اتنے کم ہیں کہ مریض وہیل چیئر پر بیٹھنے پر مجبور ہیں ، کیا ماضی میں پنجاب میں 56 کمپنیوں کے بغیر کام نہیں چل رہا تھا۔ جمہوریت کو جس بات سے چڑ ہے وہ لفظ مارشل لا ہے۔ شیخ رشید اپنے قد سے بڑی باتیں کر جاتے ہیں۔ انہوں نے 90 دن کیلئے جوڈیشل مارشل لاء کی بات کی۔ دراصل انہوں نے 90 دن کے مارشل لاء کی بات کی تھی۔ لفظ جوڈیشل لگا کر انہوں نے جمہوری قوتوں کی خشت باری سے خود کو بچایا۔ آئین پاکستان میں کسی بھی طرح کے مارشل لا کی گنجائش نہیں اسی طرح کسی قانون میں عابد باکسر کے ہاتھوں ماورائے عدالت قتل کی گنجائش نہیں۔ عام بسوں میں گنجائش سے زیادہ سواریاں بٹھانا کوئی غیر معمولی بات نہیں اسی طرح طالع آزمائوں نے بھی مارشل لائوں کی گنجائش پیداکی۔ قبرستانوں میں بھی دو قبروں کے درمیاںجگہ نہ ہوتے ہوئے بھی گورکن قبر کی گنجائش پیدا کر لیتے ہیں۔ میرٹ سے ہٹ کر داخلے بھی گنجائش پیدا کرنا ہوتا ہے۔ ملک میں 18 لاکھ سے زیادہ مقدمات زیر التواء ہیں جس طرح زندگی کا علم نہیں اسی طرح مقدموں کے فیصلوں کا علم نہیں، اس بارے میں گنجائش کون پیدا کریگا۔ تمام جمہوری ملکوں میں عام انتخابات سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کو اہل وطن سے مخاطب ہونے کا موقع فراہم کرتے ہیں ایک دوسرے کی پگڑیاں بھی اچھالی جاتی ہیں، انہیں ننگا بھی کیا جاتا ہے، انہیں بگڑے ہوئے ناموں سے بھی پکارا جاتا ہے ان کے کرتوت بھی سامنے لائے جاتے ہیں ہمارے ہاں ن لیگ کا پانچ سالہ عہد ذاتیات کی سیاست کے حوالے سے یادگار رہے گا ایک دوسرے کو جی بھر کر نیچا دکھانے کی کوشش کی گئی ایک دوسرے کے وہ وہ نام رکھے گئے جو سکولوںکالجوں اور محلوں کے لڑکے ایک دوسرے کیلئے استعمال کرتے ہیں ، نیشنل ایشوز پر سوچنے بات کرنے کی کسی کو فرصت نہیں۔
لیکٹرانک میڈیا چند سنجیدہ فکر لوگوں کو چھوڑ کر لا حاصل بحث و مباحثے میں خود کو اور ناظرین کو الجھائے رکھتا ہے۔ ہر اینکر خود کو عہد حاضر کا سقراط ،بقراط، افلاطون یا جالینوس سمجھتا ہے ڈاکٹر شاہد مسعود کی افلاطونیت نے تین ماہ کیلئے انکی زبان بندی کرا دی، وہ کیسا دانشور ہے جو بولنے کے بعد تولتا ہے۔ اسے پتہ نہیں لگتا کہ سامعین اسکے ہر ہر حرف کو تولتے ہیں پاکستان بھر کی ایجنسیاں اور ادارے بھی اسکے سامعین اور ناظرین میں شامل ہیں قومی ایشوز کی لسٹ لمبی چوڑی ہے۔ کیاڈالر کا 115 روپے کا ہو جانا ہمارے سیاسی رہنمائوں کیلئے لمحہ فکریہ نہیں ہو نا چاہئیے۔ ہم امریکہ سے کیا برابری کرینگے جس کے ایک نوٹ کے حصول کیلئے ہمیں 115 نوٹ جمع کرانا پڑتے ہیں۔ ہم کیسے برابری کی سطح پر تعلقات کا دعوی کر سکتے ہیں۔ہم کب تک قرضوں پر انحصار جاری رکھیں گے ایک دن آتا ہے کہ محلے کا دکاندار بھی مقروض سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے۔
ہمارے بالواسطہ ٹیکس ہمیں کبھی خود انحصاری سے ہمکنارنہیں کرینگے۔ براہ راست ٹیکسوں کی طرف ہاتھ بڑھانے سے ہم ہچکچاتے اورشرماتے ہیں ٹیکسوں کی ادائیگی کے حوالے سے ٹیکس ڈائریکٹری نے سب کی قلعی کھول رکھی ہے۔ نج کاری ایسا موضوع ہے جس پر کوئی سیاسی پارٹی اور رہنما ایک پیج پر نہیں۔پی آئی اے اورپاکستان سٹیل کا وہی حال ہے جو کبھی لاہورمیں جی ٹی ایس اور ایل او ایس کا ہوا کرتا تھا کرپشن نے ٹرانسپورٹ کے ان سرکاری اداروں کا نام و نشان تک مٹا دیا۔ عباسی حکومت مذکورہ اداروں کی نج کاری پر تُلی ہوئی ہے جبکہ پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی بھرپور مخالفت کررہی ہیں۔ پنجاب میں زیادہ تر سکول این جی اوز کی گود میں ڈال دئیے گئے کیا یہ سرکار کا اعتراف نااہلی و ناکامی نہیں؟ کیاوجہ ہے کہ پرائیویٹ سکول اپنی گڈ گورننس اور منافع کے زورپر گروپ اور سسٹم بن جاتے ہیں۔ سویٹ شاپس اور بیکریوں کی چین کیسے وجود میں آجاتی ہے۔ سرکاری سکولوںپرسے عوام کا اعتماد کیوں اٹھ گیا ہے؟ بھروسے کا فقدان ہی تو ناکامی ہے کیا نج کاری کے بعد وہی ادارے فرشتوںکے ہاتھ لگ جاتے ہیں؟ پاکستان کا ایٹمی پروگرام اورافواج پاکستان کوفرشتے یا پرائیویٹ افراد چلارہے ہیں سٹاف کالج اور ٹیپا جیسے اداروں میں بیوروکریٹس کی کیا ٹریننگ ہوتی ہے۔ بی ایڈ اورایم ایڈ کی ڈگریوں والے سرکاری سکولوں کے اساتذہ کی کارکردگی سامنے کیوں نہیں آتی۔ کیا این جی اوزکی لگام کے بغیریہ گھوڑے نہیں دوڑ سکتے۔ نج کاری کی مخالف جماعتیںورکرز کے ووٹ چاہتی ہیں۔ کیا انکے پاس خسارے اورقرضوں کی بیڑیاں پہنی پی آئی اے اورپاکستان سٹیل کی کایا پلٹنے کیلئے کوئی الہ دین کاچراغ ہے؟