’’نرگسیت‘‘ ایک بہت بری بیماری ہے۔یہ وہ بیماری ہے کہ جس کو بھی یہ لاحق ہو وہ اپنے آپ کو سب انسانوں سے افضل اور عقلِ کل سمجھنا شروع کر دیتا ہے اور یہ سوچ انسان کو ایسی ایسی کاروائیاں کرنے پر مجبور کردیتی ہے جو پورے ملک و قوم کے لئے خطرہ بن سکتی ہیں۔بد قسمتی سے بھارتی وزیراعظم نریندرمودی اسوقت اسی بیماری میں مبتلا ہے۔وہ ایک’’ٹی بوائے‘‘ سے ترقی کرتا ہوا وزارتِ عظمٰی تک پہنچا ہے۔لہٰذا وہ اپنے آپ کو ایک عظیم لیڈر اور تاریخ ساز شخصیت سمجھتا ہے۔ جب سے وہ اقتدار میں آیا ہے اس نے دو باتوں پر خصوصی توجہ دی ہے۔اول ہندوتوا کا پرچار جس سے بہت سی انتہا پسند ہندو تنظیمیں معرضِ وجود میں آئی ہیں اور دوسرا مسلمان اور پاکستان مخالفت۔مودی کے اس رویّہ سے بھارت میں رہنے والے 19کروڑ مسلمان کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ اگر مسلمان کسی گائے کو ہاتھ بھی لگا دے تو وہ انتہا پسند ہندووں کی نظر میں ناقابلِ برداشت اور واجب القتل ہو جاتا ہے ۔ بھارتی مسلمانوں کی زندگی تو اجیرن ہے ہی ساتھ پاکستان کی زندگی بھی تکلیف دہ بنائے رکھی ہے۔ جس دن سے محترم اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوئے ہیں پاکستان کو سبق سکھانے کی باتیں ہورہی ہیں۔ پچھلے چار سالوں سے بھارتی قیادت پاکستان کو بدنام کرنے اور پاکستان کو دنیا میں تنہا کرنے کی ہر ممکن کوشش کررہی ہے۔بھارت میں اگر بادل بھی گرجے تو فوری طور پر اسے دہشتگردی کا نام دے کر انگلی پاکستان کی طرف اُٹھادی جاتی ہے جس کی تازہ ترین مثال 14فروری کا پولیس ریزرو پر دہشتگردی کا حملہ ہے جس میں 44اہلکار بھگوان کے پاس چلے گئے۔اسے پاکستان کی کارروائی قرار دے کر مودی نے پاکستان دشمنی کا ایسا ماحول بنایا کہ بالآخر دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا ہونا پڑا۔
بھارتی وزیر اعظم مسز اندرا گاندھی نے مشرقی پاکستان بذریعہ طاقت توڑ کر بنگلہ دیش بنایا تھا۔ اب نرگسیت کا شکار مودی بھی اپنے آپ کو ایک تاریخ ساز ہندو لیڈر ثابت کرنا چاہتا ہے۔اس مقصد کے لئے اسے جتنے بھی اپنے شہری مروانے پڑیں اسے پرواہ نہیں۔ مودی اسوقت وزارتِ عظمٰی کی دوسری ٹرم حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ مودی نے پچھلا الیکشن بھی پاکستان مخالف نعروں پر جیتا تھا اور اب وہ دوسری دفعہ بھی پاکستان مخالف بیانات کی سیڑھی پرکھڑے ہو کر الیکشن جیتنا چاہتا ہے۔ اس مقصد کے لئے پاکستان کے ساتھ کسی نہ کسی طرح کی چھیڑ خانی ضروری ہے۔لہٰذا اس نے 14فروری کا واقعہ ترتیب دے کر پاکستان کے خلاف دشمنی کا ماحول بنایا۔ پھر اس واقعہ کو بنیاد بنا کر پاکستان میں فضائی در اندازی کر کے پاکستان کی خود مختیاری پامال کرنے کی کوشش کی لیکن پاکستانی شاہینوں نے فوری بدلہ چکا دیا بد قسمتی نرگسیت کے شکار اس انسان نے مار کھا کر بھی سبق نہ سیکھا۔ مودی کا خیال ہے کہ پاکستان مخالفت سے وہ الیکشن جیت سکتا ہے ۔پھر اس کی پارٹی نے مختلف مقامات پر پاکستان مخالف اور مسلمان مخالف نعرے بھی لگوائے ہیں۔ مثلاً ’’ ہندوازم کا سب سے بڑا دشمن کون؟جوابی نعرہ ہے۔ پاکستان مسلمان‘‘۔مودی کے اس نسلی تعصب کے جواب میں بھارت کی اپوزیشن پارٹیوں کی طرف سے سخت تنقید شروع ہو چکی ہے۔دہلی کے مشہور اپوزیشن لیڈر کچر یوال نے اپنی تقریر میں مودی کو مخاطب کرتے ہوئے گرج کر کہا:’’تم ان سیٹوں کے لئے کتنی لاشیں گرائو گے۔کتنی مائوں کی گود اجاڑو گے۔ کتنی خواتین کو بیوہ بنائو گے‘‘؟اسی طرح باقی بھی کئی لیڈروں کی طرف سے اسی قسم کے بیانات اور الزامات کی بوچھاڑ شروع ہو چکی ہے۔ اب دیکھیں اسکا کیا نتیجہ نکلتا ہے؟
مودی بڑی گہری چال چل رہا ہے۔ بھارت کے ایک سابق وزیر ششی تھرور نے اپنے بیان میں پردہ فاش کیا ہے کہ نریندر مودی اور اس کی پارٹی بھارتی آئین کی کچھ شقیں تبدیل کرنا چاہتی ہے۔ یا عین ممکن ہے کہ پورا آئین ہی تبدیل کر دیا جائے۔اصل نقطہ جو ہندو توا کے پجاریوں کو چبھ رہا ہے وہ آئین کا’’ سیکولر‘‘ ہونا ہے۔ انتہا پسند ہندو اسے ہندو توا کے رنگ میں رنگنا چاہتے ہیں۔ لہٰذا آئین میں ’’بھارتی شہریت‘‘ کی تشریح تبدیل کر دی جائے گی۔صرف ہندوئوں کو بھارتی شہری قرار دیا جائیگا۔ اسکا کیا ردعمل ہوگا۔جنوبی ایشیا میں اسکا کیا اثر ہوگا سوچا جا سکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک بہت گہری چال ہے جو بھارت کی اپنی قومی سلامتی کے لئے بھی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ دوسرا پلوامہ واقعہ کے ردعمل میں انتہا پسند ہندو مسلمانوں خصوصاً ’’کشمیریوں‘‘ کے خلاف سخت بپھرے ہوئے ہیں۔جہاں بھی انہیں موقع ملتا ہے۔ مسلمانوں کی ایذارسانی سے باز نہیں آتے۔کشمیری نوجوان طلباء کشمیر سے باہر بھارتی یونیورسٹیوں اور کالجز میں پڑھ رہے ہیں۔ بھارتی انتہا پسندوں نے انہیں وہاں سے بے عزت کر کے زبردستی نکال دیا ہے۔ ان نوجوانوں کا مستقبل تباہ کر دیا ہے۔ ان نوجوانوں میں مایوسی کے ساتھ ساتھ سخت غصہ اور اشتعال بھی پیدا ہوا ہے اور وہ بھی انتہا پسندوں سے بدلہ لینا چاہتے ہیں۔ وہ کشمیر واپس جا کر مختلف جہادی تنظیموں میں شامل ہو رہے ہیں۔ اس سے کشمیر میں جدوجہدِ آزادی میں مزید شدت آرہی ہے۔یہ شدت پاکستان کے لئے بھی پریشان کن ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ حملوں کی تعداد بڑھے گی توہر حملے کا الزام بھی پاکستان پر لگے گا اور یوں مودی کو پاکستان کو بدنام کرنے اور پاکستان کے خلاف کاروائی کرنے کا جواز مل جائیگا۔عادل ڈار کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ مایوس اور بے عزت کئے گئے نوجوان کچھ بھی کر سکتے ہیں۔
نرگسیت کے شکار مودی کے دماغ سے جنم لینے والی حالیہ کشیدگی کسی وقت بھی بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ کی وجہ بن سکتی ہے ۔گو اب تک کے معاملات کے مطابق پاکستان نے بھارت کو ایک طرف تو اسکی دہشتگردی کا منہ توڑ جواب دیا ہے اور ساتھ ہی بھارتی پائلٹ کو بھارت کے حوالے کر کے پوری دنیا کو عموماً اور بھارت کو خصوصاً امن کا پیغام دیا ہے لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ ہماری طرف سے کئے گئے بھلے کو ہندو بنیا ہماری کمزوری سمجھے اور ہمیں مزید تنگ اور بدنام کرنے کی کوشش کرے۔ یہ سوچنا کہ ہماری امن کی خواہش اور امن کی کوششوں کا ہمیں مودی کی طرف سے مثبت جواب ملے گا شاید صحیح ثابت نہ ہو۔ انتہا پسند ہندوجسکا سربراہ اسوقت مودی بذات خودہ ہے اسکی طرف سے عرصہ دراز سے پاکستان کے ساتھ جنگ کی خواہش پنپ رہی ہے کیونکہ پاکستان کے ساتھ جنگ انتہا پسند ہندوئوں کے لئے ایک بہت بڑی کامیابی کی ضمانت ہے۔اس کے دو اہم مقاصد ہیں ۔اول یہ کہ بھارتی انتہا پسندوں نے آج تک پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا۔بھارتی ایجنسیاں موساد، سی آئی اے اور این ڈی ایس کے ساتھ مل کر پاکستان میں کافی عرصے سے دہشت گردی اور تخریب کاری کی پشت پناہی کررہی ہیں۔ وہ ہر صورت میں (خدانخواستہ) پاکستان کو توڑنا چاہتی ہیں۔ دوم اگر پاکستان میں جنگ چھڑتی ہے تو پاکستان لازماً جوابی حملہ کریگا۔ اگر پاکستان جوابی حملے میں شمال کی طرف بڑھتا ہے تو کشمیری تباہ ہوں گے اور اگر پاکستان کا جوابی حملہ مشرق کی طرف بڑھتا ہے تو سکھ تباہ ہوں گے۔ہندوئوں کوکسی طرف سے بھی کوئی نقصان برداشت نہیں کرنا پڑے گا۔سکھوں اور کشمیریوں کو پاکستان کے ہاتھوں مروانا ان کی ایک بہت بڑی خواہش کی تکمیل ہو گی۔ شاطر بنیا ہمیشہ ہر بات میں اپنا ہی فائدہ سوچتا ہے۔ لہٰذا ہمیں بھارتی چالوں کا مناسب سوچ بچاراور محتاط انداز میں جواب دینا ہوگا۔ ایک پرانی کہاوت یاد رہنی چاہیے:’’ اگر کمزوری دکھائیں تو بنیا شیر ہوتا ہے ۔اگر آنکھیں دکھائیں تو بنیا بلی بن جاتا ہے‘‘۔