نومسلم لڑکیوں کا قبول اسلام حقیقت اور افسانے

Mar 29, 2019

محمد اسلم خان....چوپال

نومسلم لڑکیوں کے قبول اسلام اور شادی پر جاری میڈیا وار کے پس پردہ حقائق کیا ہیں تاریخ میں پہلی مرتبہ اپنی آزاد ی سے ہندو لڑکیوں کے قبول اسلام اور حق نکاح پر شدید تنقید کرتے ہوئے ان کے ماں باپ کے ساتھ میڈیا آنسو بہا رہا ہے۔ہمارے ذرائع ابلاغ خوداذیتی کی تمام سرحدیں پارکر چکے ہیں جسے ان کی جبلت کہا جاسکتاہے افسوس صد افسوس کہ ذرائع ابلاغ کی عظیم اکثریت ملی غیرت کے فلسفے کو تسلیم کرنے تیار نہیں خاص طور پر انگریزی میڈیا تو دینی نہیں عمومی سماجی اقدار کو قبول کرنے سے انکاری ہے اور اس الٹ متضادصفات رکھتا ہے اس کے نام نہاد عقیدہ آزادی کا ہماری سماجی اقدار‘ریتی رواج یا قومی غیرت سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ وہ تو ہر اخلاقی‘مذہبی اور معاشرتی اقدار سے آزادی کے نام پر آمادۂ بغاوت ہے پاکستانی میڈیا دو ہندو لڑکیوں کے مسئلے پر جس طرح ان کے والدین کا طرف دار بن کر سامنے آیا ہے اس نے بے راہروی کے فروغ کے ایجنڈے کو بے نقاب کر کے رکھ دیا ہے ۔
٭محتاط اعدادوشمار کے مطابق ٭2008سے لے کر 2018 گذشتہ 10 برس میں 8 ہزار لڑکیاں گھروں سے بھاگ کر’ماں باپ کی ناک کاٹ کر’ ان کی غیرت کا جنازہ نکال کر’برادری ‘قبیلے اور خاندان کی عزت خاک میں ملا کر اپنے آشنائوں کے ساتھ خفیہ اور اعلانیہ شادیاں کر رہیں تھیں المیہ یہ کہ اخبارات اور ٹی وی چینلز نے کبھی اس معاملے میں ماں باپ کی حمایت نہیں کی اور نہ ہی انکے لیے آنسو بہائے۔آج پہلی باروہ لڑکیوں کو ماں باپ کی اطاعت و فرمانبرداری کا درس دے رہا ہے اور اجتماعیت کی حفاظت کی بات کر رہا ہے اور ماں باپ کی عظمت اور ان کا مقام ومرتبہ بیان کر رہا ہے۔
٭ میڈیا دو نو مسلم لڑکیوں کے والدین کے آنسوئوں کی فلم بڑے درد اور دکھ بھرے انداز میں دکھا رہا ہے مگر اس میڈیا نے بھاگنے والی لڑکیوں کے ماں کے آنسوئوں سسکیوں-چیخوں-نوحے-نالے-آہوں-آہ و بکا-فریاد-منت سماجتوں کو کبھی نہیں دکھایا۔صرف اس لیے کہ وہ لڑکیاں مسلمان گھروں سے نام نہاد آزادی کے عقیدے کے تحت بھاگی تھیں ، یہ ان کا حق تھا لہذا ان مظلوم اور بدقسمت ماں باپ کے آنسوئوں کو دکھانا آزادی کے عقیدے کے خلاف بغاوت تھی۔ لیکن جب کسی باپ نے اپنی لڑکی پر کلہاڑی اْٹھائی تو یہی میڈیاباپ کی کلہاڑی بار بار-بار بار دکھاتا ہے اور ماں باپ کے آنسوئوں کو کبھی نہیں دکھاتا کیونکہ یہ آنسوآزادی کے آنسو نہیں ہیں بلکہ یہ خاندان-دین -اقدار اور اخلاق کے آنسو ہیں۔٭بنیادی سوال یہ ہے کہ وہ لبرل میڈیا جو ہمیشہ ہمیشہ بھاگنے والی لڑکیوں کے ساتھ ہوتاہے۔ان کے ماں باپ کی زبردست مخالفت کرتا اور آوارہ لڑکیوں کے بھاگنے کی حمایت کرتا ہے آج پہلی مرتبہ گھروں سے بھاگ کر مسلمان ہونے والی لڑکیوں کے ماں باپ کے ساتھ کیوں کھڑا ہوا ہے؟٭آج میڈیا کی آزادی کا عقیدہ اسے ان نومسلم لڑکیوں کے ساتھ کیوں نہیں کھڑا ہے؟ آج پہلی مرتبہ اسے ماں باپ-برادری اور مذہب کا درد کیوں یاد آرہا ہے؟ لبرل میڈیا کی اس حکمت عملی کو سمجھنے کے لیے آزادی کے کافرانہ اور باطلانہ نظریے اور عقیدے کو سمجھنا ضروری ہے۔
٭ گھروں سے بھاگنے والی لڑکیوں کے والدین ہمیشہ اغوا کی FIR درج کرواتے ہیں۔تمام ماں باپ ہمیشہ اپنی بیٹی کو نیک اور معصوم سمجھتے ہیں اور اْٹھا کر لے جانے والے اور بھگا کر لے جانے والے مرد کے بارے میں یہ سمجھتے ہیں کہ اس مرد نے ہی ان کی بیٹی کو ورغلایا اور اغواء کیا ہے۔ لیکن لبرل میڈیا نے کبھی بھی لڑکی کے ماں باپ کی طرف سے اغوائکی FIR کو پیش نہیں کیا۔مگر آج یہی میڈیا بڑھ چڑھ کر نومسلم لڑکیوں کی FIRپیش کر رہا ہے جو ماں باپ نے درج کرائی۔
لڑکیوں کے ماں باپ کی FIR درست ہے اور 8000لڑکیوں کے ماں باپ کی FIR غلط ہے آخر کیوں اور کیسے؟ یہ ہے میڈیا کے لبرل ’لبروٹوں کا اصل چہرہ جو اب بری طرح بے نقاب ہو رہا ہے ۔ کئی گھروں سے پندرہ سولہ سال کی لڑکیاں بھاگ کر آشنائوں سے کورٹ کے اندر یا کورٹ کے باہر شادیاں کرلیتی ہیں مگر لبرل -سیکولر کسی این جی او کو یہ یاد نہیں آتا کہ سندھ میں 18سال سے پہلے شادی کرنا غیر قانونی ہے۔محبت کی اس غیر قانونی شادی پر لبرل اور این جی او ز کچھ نہیں کہتے بلکہ ان کے اس ماں باپ کی عزت کا جنازہ نکال دینے والے لڑکیوں کے اس شرمناک عمل کی بھرپورحمایت کرتے ہیں اس لیے کہ غیرت مند مسلمانوں کے گھروں میں ’’آزادی‘‘ کا انقلاب طلوع ہورہا ہے۔لڑکیاں آزاد ہو رہی ہیں۔محبت کے گلاب کھل رہے ہیں لہذا بھگانے والے آشنا نے پندرہ سولہ سال کی لڑکی سے شادی کربھی لی تو کیا ہوا؟ لڑکی وقت سے پہلے باشعور ہوگئی تھی۔ وہ سمجھ دار تھی’قانون غلط ہے لہذا اس نے محبت کی شادی کرلی لہذا یہ بے شرم کبھی کم عمری میں بھاگ کرشادی کرنے والی مسلم لڑکی کی غیر قانونی شادی کو بحث و مباحثہ کا موضوع نہیں بناتا۔یہ ہے ان کے اصول مساوات!
٭گھروں سے کم عمری میں بھاگ کر شادی کرنے والی مسلم لڑکیوں کی ویڈیو آتی ہے کہ ہم نے بناکسی جبرو اکراہ محبت کی شادی کی ہے۔ تو میڈیا ایسی ویڈیو بار بار دکھاتا ہے لیکن دو نومسلم لڑکیوں کی پریس کانفرنس جس میں انہوں نے خود بتا یا کہ ہم نے بغیر کسی جبر کے اسلام قبول کیاہے۔ اس ویڈیو کو میڈیا میں کوئی جگہ کیوں نہیں ملتی ؟کیونکہ یہ ویڈیو دینی اقدار سے تعلق رکھتی ہے اس کا تعلق بے لگام آزادی کے عقیدے سے نہیں ہے۔ جہاں مذہب ذریعہ ہو وہ آزادی نہیں ہے وہ ایک مذہبی عمل ہے اور میڈیا کے عقیدہ آزادی سے مطابقت نہیں رکھتا۔

مزیدخبریں