روزنامہ نیو یارک ٹائمز کے 25مارچ کے شمارے میں شائع ہونے والے ایک مضمون کا عنوان ہے‘‘Caliphate is Gone, but ISIS is Not’’۔ آئی ایس آئی ایس (داعش) کا پہلی مرتبہ ظہور آج سے چودہ سو سال قبل خوارج کی شکل میں اس وقت ہوا جب اسلام کے ابتدائی دور کے دو گروہوں میں آپس کی جنگ شروع ہوئی‘ اور دوسری مرتبہ اس کاقیام ابوبکر بغدادی کی زیر قیادت شام کی ہاہمی لڑائی کے خلاف ہوا۔2014ء میں داعش تین بڑے گروپوں ‘ یعنی شامی‘ عراقی اور احمد خیشگی کی سربراہی میں تین تا چار ہزار سعودی جنگجووں پر مشتمل تھی۔اب شام میں انہیں شکست ہو چکی ہے لیکن وہ بدستور ان دونوںممالک کیلئے خصوصا اور گذشتہ تین دہائیوں میں جنگ کی تباہ کاریوں کے شکار ممالک کیلئے خطرے کا باعث بنے رہیں گے۔جے ایف جیفری کے بقول’’عراق اور شام میں اس وقت داعش کے پندرہ سے بیس ہزار مسلح جنگجو ہیں اورانہیں جس رفتار سے ختم کیا جا رہا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ تیزی سے پھیلتے جا رہے ہیں۔‘‘
2014ء میں ‘ راقم نے ایک مضمون بعنوان ’’ داعش کون ہیں‘‘ لکھا جو ملک کے معروف انگریزی اور اردو اخبارت میں ستمبر 2014ء کو شائع ہوا تھا۔ اس مضمون میں داعش کے بارے لکھتے ہوئے کہا تھا کہ داعش کا ابھرنا‘ عالم اسلام کیلئے کوئی نئی چیز نہیں ہے البتہ دوسروں کیلئے یہ ایک عجوبہ ہے۔ داعش کے ظہورمیں آنے کا سبب وہ مظالم‘ نفرت اور محرومیاں وناانصافیاں ہیں جو ایک عرصے سے ایک مخصوص طبقے کے لوگوں کے ساتھ روا رکھی جارہی ہیں۔ اب وہی محروم اور پسے ہوئے لوگ اپنے انداز سے ان ناانصافیوں کا انتقام لینے کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ اس قسم کا پہلا واقعہ سینتیسویں ہجری (37 H)میں خوارجیوں کی شکل میں رونما ہوا جنہوں نے نہروان کے مقام پر خلیفہ اسلام حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے خلاف جنگ لڑی تھی۔ ان کے غصے کی وجہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی حضرت عائشہ اور حضرت معاویہ کے خلاف لڑی جانے والی جنگ جمل اور جنگ صفین تھی جس میں عالم اسلام کی یہ مقتدرترین اور قابل احترام ہستیاں ایک دوسرے کے مد مقابل تھیں۔ اس بنا پر خارجی ان سے متنفر ہو گئے تھے۔امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے افغانستان‘ عراق اور شام پر ڈھائے جانے والے مظالم اور ایران کے خلاف جابرانہ پابندیاں حالیہ ’نفرت کی لکیر‘ کھینچنے کا باعث بنی ہیں جبکہ افغانستان‘ پاکستان‘ شام‘ عراق اور فلسطین میں موجود سنی شیعہ تفریق کو دانستہ طور پر ابھار کر اندرونی تصادم کو ہوا دی گئی ہے۔ روشن خیالی کو پروان چڑھانے کی آڑ میں سیاسی اسلام کو رد کردیا گیا ہے حالانکہ مسلمانوں کا پختہ یقین ہے کہ:
’’انسانی بقاء کا محور اللہ تعالی کے بنائے ہوئے نظام سے ہی ممکن ہے جبکہ روشن خیالی کا پرچار کرنے والے انسان کو خودمختار سمجھتے ہوئے اسے نعوذباللہ اللہ تعالی کی ذات پر ترجیح دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ
اللہ تعالیٰ کی ذات پر انسان کو فوقیت حاصل ہے۔‘‘
حد تو یہ ہے کہ پاکستان جیسا ملک جہاں عرصہ دراز سے شیعہ اور سنی باہم اخوت و محبت کے رشتوں میں بندھے چلے آرہے ہیں‘ یہاں بھی قومی یکجہتی توڑنے کیلئے ہر قسم کے مذموم حربے استعمال کئے جا رہے ہیں۔ اوائل اسلام میں ظاہر ہونے والے خارجیوں نے اپنی قابل احترام ہستیوں سے بد دل ہو کر انتقامی کاروائیاں شروع کی تھیں۔ اسی طرح داعش کی انتقامی کاروائیوں کی وجہ شیعہ سنی تصادم اور اسلامی ممالک کے سربراہوں کا اسلام دشمنوں کے ساتھ گٹھ جوڑ‘ ہے جس نے انہیں اپنے ممالک کے سربراہوں سے متنفر کر دیا ہے۔شام اور عراق میں شیعہ اور سنی ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہونے سے ایک بار پھرجنگ جمل اور جنگ صفین کی کہانی دہرائی جارہی ہے۔ امریکہ کی سرپرستی میں 14فروری کو وارسا میں منعقد ہونے والی کانفرنس میں شیعہ سنی تصادم کو مزید پھیلانے کا نیا منصوبہ تیار کیا گیا ہے۔اور اس کی ذمہ داری اسرائیل کو دی گئی ہے کہ وہ ایران کے خلاف تادیبی کاروائیاں کرے‘ اور بھارت کو ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ پاکستان سے نمٹے تاکہ وسطی ایشیاء ‘ جنوبی ایشیاء اور ایشائی پیسیفک کے علاقے بھارتی بالادستی میں آجائیں۔ صدر ٹرمپ اس حقیقت سے بخوبی آشنائ ہیں۔ان کے خیال میں عسکری قوت کے استعمال سے وہ داعش پر قابو پاکر اسے ختم کر سکتے ہیں۔ ان کا خیال ناقص ہے کیونکہ مسئلہ عسکری قوت کی اہلیت سے کہیں زیادہ گھمبیر نوعیت کاہے۔‘ امریکہ نے القائدہ کو ختم کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگادیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے اسامہ اور دوسری قیادت کو ختم کر دیا ہے لیکن اس کے باوجود القائدہ نہ صرف موجود ہے بلکہ کئی ممالک میں تیزی سے پھیل رہی ہے اور پہلے سے زیادہ تباہ کن شکل اختیار کر تی جا رہی ہے۔بنیادی سوال یہ ہے کہ داعش سے نمٹنے کیلئے کیا کیا جائے۔اس گٹھ جوڑ میں بھارت اور اسرائیل کی شمولیت سے مسلمانوں کیلئے خصوصا اور پوری دنیا کیلئے عموما خطرے کی شدت میں اضافہ ہو گیا ہے۔ عالم اسلام نے خارجیوں پر اسلامی نظام کی وساطت سے قابو پا لیا تھا اور یہی وہ طریقہ ہے جو آج کی مہذب دنیا کو اپنانا چاہیئے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے امریکہ اوراس کے اتحادی ٹھنڈے دل و دماغ سے حکمت عملی وضع کریں اور منصوبہ بندی کریں لیکن بدقسمتی سے اس وقت انہیں معلوم نہیں کہ اس مسئلے پرکیسے قابو پانا ہے۔’’عسکری طاقت کا استعمال ان کی غلط منصوبہ سازی کا جزو بن چکی ہے۔‘‘سابق امریکی صدر اوبامہ اس حقیقت سے آگاہ تھے‘ تبھی تو انہوں نے کہا تھا کہ: ’’یہ بات باعث شرم ہے کہ ایک مخالف نظریات کا حامل شخص ہمارا صدر ہو جس کی کوئی واضح خارجہ پالیسی بھی نہ ہو تو آپ اس سے توقع نہیں رکھ سکتے کہ وہ کوئی احمقانہ اور غلط راستہ اختیار نہیں کرے گا۔‘‘
اسکے باوجود صدر ٹرمپ نے فیصلہ کر لیا ہے کہ’’امریکی ایمبیسی مشرقی یروشلم منتقلی ہوجائے‘‘ اور ’’گولان ہائیٹس‘‘ پر اسرائیل کی خودمختاری کو تسلیم کر لیا جائے۔‘‘ یہ فیصلے تو جلتی آگ پر تیل کا کام کریں گے۔