سیاسی منظرنامہ بسااوقات حقائق کی رو سے نظریات سے ہٹ کر بھی تجزیے کا متلاشی ہو جاتا ہے، ان دنوں شاید ایسا موسم ہی جاری ہے کیونکہ میدان سیاست میں ماضی کی دونوں حکمران جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی ابھرتی ہوئی قیادت بلاول بھٹو زرداری ‘مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز اور پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ اور قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز میدان میں نظر آ تے ہیں اور ایسے دکھائی دیتا ہے کہ آصف علی زرداری نے فیصلہ کر لیا ہے کہ چاہے انہیں کسی مقدمہ میں ملوث ہونے کی بنا پر جیل جانا پڑے ‘ انہوں نے اب بلاول کو ہی آگے لانا ہے ‘ خصوصی طور پر پنجاب میں بلاول کے ذریعے ہی پیپلز پارٹی کے مرد ہ جسم میں جان ڈالنی ہے ‘ رنگ بدلتا ہے آسمان کیسے کیسے کا محاورہ تو ایک ضرب المثل کا درجہ رکھتا ہے اگر اس محاورہ کو سیاسی دنیا کے حوالہ سے دیکھا جائے تو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ آسمان ہی نہیں سیاست دان بھی رنگ بدلتے ہیں ‘گزشتہ یوم بلاول بھٹو اور آصف زرداری نے جعلی اکائونٹس کیس میں نیب کی تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش ہو کر اپنی عوامی قوت کا جو مظاہرہ کیا اور پیپلز پارٹی کے جیالوں نے پولیس کو اور نیب والوں کو اپنی زندگی کا ثبوت دیا اور جس جوش اور جذبہ کے ساتھ بلاول بھٹو کے حق میں جو نعرہ بازی کی اور پولیس کی لاٹھی کی پرواہ بھی نہیں اور حکومت کے تمام فول پروف سکیورٹی کے انتظامات دھرے کے دھرے رہ گئے ‘ وزیراعظم عمران خان کے نو ماہی حکومت کے دوران یہ پہلا موقعہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے ڈیڑھ سو سے زیادہ جیالوں نے اپنی گرفتاری بھی دی اور یہ بھی پہلا موقع ہے کہ آصف علی زرداری اس سے قبل بھی مختلف عدالتوں میں پیش ہوتے رہے لیکن پیپلز پارٹی کے جیالوں نے ایسے رد عمل کا مظاہرہ نہیں کیا ‘ کیونکہ نیب والوں نے بلاول بھٹو کو بھی ملوث کر لیا ‘پاکستان کی سیاست میں یہ بڑی پرانی روایت کہ سیاستدانوں پر مقدمات قائم ہو تے ہیں اور وہ مقدمات اس قدر کمزور بنیادوں پر قائم ہو تے ہیں کہ حکومت کسی مقدمہ کو ثابت نہ کر سکے اور عدالتوں سے بری ہو تے ہیں اور جن پر مقدمات قائم ہونے چاہیے وہ نہیں ہو تے ‘ لہذا ہم مقدمات کو نظر انداز کر تے ہوئے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اسلام آباد میں جو کچھ ہوا وہ بلاول کی وجہ سے ہوا اور اگر ہم یہ کہیں کہ نیب والوں نے بلاول کو لیڈر بنانے کا فیصلہ کر تے ہوئے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت جعلی اکائونٹس کیسز میں بلاول کا نام ڈال کر میلہ سجانے کا اہتمام کیا ورنہ کون نہیں جانتا کہ نیب کی کارکردگی زیرو پلس زیرو ہے۔ کہتے ہیں آندھی اچانک ہی آیا کر تی ہے سو یہ تبدیلی بھی اچانک رونما ہو ئی ہے اور اس تبدیلی کے پس منظر میں ایک ’’ انتظامی حادثہ‘‘ بھی ہے جس کی طرف سطور بالا میں اشارہ کر چکا ہوں ‘جبکہ ماضی کی دونوں بڑی پارٹیاں ایوان اقتدار سے باہر ہیں ‘البتہ ایک پارٹی ایک صوبہ میں حکمران ضرور ہے اب دونوں پارٹیوں کی بوڑھی لیڈر نے فیصلہ کیا ہے کہ پاکستان کی روایتی سیاست کا کھیل کھیلتے ہوئے اپنی گدی وراثت کو اپنی اولا د میں منتقل کر تے چلے آ رہے ہیں ‘ نوازشریف بھی 6ہفتوں کی ضمانت پر جیل سے باہر آ چکے ہیں۔ شہبازشریف کا نام ای سی ایل سے نکالا جا چکا ہے جبکہ بلاول بھٹو زرداری ٹرین مارچ میں مصروف ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بنک موجود ہے اور اس ووٹ بنک کو تاحال وقت کی تلخ ہوائیں بھی متاثر نہیں کر سکیں ‘جبکہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں بنیادی فرق ہے کہ پیپلز پارٹی بلاول کو محترمہ بے نظیر بھٹو کا اصل جان نشین قرار دیتی ہے اور آصف علی زرداری کو سیاسی غاصب قرار دیتی ہے اور پیپلز پارٹی میں بلاول کے ساتھ ان کی ہمشیرہ بھی بلاول کے ساتھ کھڑی نظر آ تی ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف اپنی گدی اپنی بیٹی مریم نواز کو دینے کا فیصلہ کر چکے ہیں ‘ جبکہ ان کے بھائی میاں شہباز شریف جو اس وقت قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف ہیں اور ان پر میاں نواز شریف کے مقابلہ سنگین الزامات ہیں انکی خواہش ہے کہ انکے بیٹے حمزہ شہباز کو مسلم لیگ (ن) کا سجادہ نشین قرار دیا جائے جبکہ وہ پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف ہیں ‘ مریم نواز اور حمزہ شہباز کی آپس میں بنتی نہیں لہذا مسلم لیگ (ن) میں سجادہ نشینی کی جو جنگ ہو رہی ہے پیپلز پارٹی میں نہیں ‘سیاسی طور پر دیکھیں کہ تحریک انصاف کے عمران خان کا کوئی سجادہ نشین نہیں کیونکہ عمران خان کے صاحبزادے سیاست سے بہت دور ہیں ‘اس کے ساتھ ہی بلاول اپنی ماں بینظیر بھٹو کی زندگی میں ذوالفقار علی بھٹو کی ویڈیو سے بلاول کو ایکٹنگ کا کورس کرایا جا رہا ہے ‘ اس وقت سیاسی جماعتوں کی جتنی بھی قیادت ہے وہ عمر کے اس حصہ میں داخل ہو چکی ہے کہ ان کی سیاسی زندگی آئندہ انتخابات تک ہے جبکہ بلاول بھٹو ‘ حمزہ شہباز اور مریم نواز تو میدان میں داخل ہوئے ہیں ان میں بلاول قومی اسمبلی میں اور حمزہ شہباز پنجاب اسمبلی میں اپنا کورس کر رہے ہیں یعنی زمانہ طالب علمی باہر آ چکے ہیں ‘ مریم نواز ان کے مقابلہ میں میاں نواز شریف کی تمام تر خواہش کے باوجود کمزور پوزیشن پر نظر آ تی ہے لہذا مقابلہ حمزہ شہباز اور بلاول کے درمیان ہی نظر آ تا ہے اور ان سیاسی مستقبل تاریک نہیں روشن نظر آ تا ہے اور یوں محسوس ہو تا ہے کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی نے ایک بار پھر جنم لیا ہے اور اسلام آباد میں انگڑائی ضرور ی ہے اور بلاول نے اپنی پریس کانفرنس میں ثابت کر دیا کہ وہ ابھرتا ہوا سورج ہے اگر وہ پنجاب میں داخل ہو گیا تو پھر روکنا مشکل ہو گا جبکہ میاں نواز شریف اپنی انگیز کھیل چکے ہیں ‘لہذا مریم نواز نہیں حمزہ شہباز ہی وکٹ پر دکھائی دے گا اور مسلم لیگ (ن) والے پیپلز پارٹی ایک شو بھی تمام تر نعروں کے باوجود نہیں دکھا سکی ۔
سیاسی منظرنامہ اور سیاستدانوں کے اتار چڑھاؤ
Mar 29, 2019