SARS-COV-2 وائرس جس نے دنیا بھر میں COVID-19 یعنی کورونا وائرس نامی وبا کو جنگل کی آگ کی طرح پھیلا دیاہے ایک نسبتاً نیا وائرس ہے۔ یہ انسانوں کوپھیپھڑوں کے شدید عارضے میں مبتلا کرنے والا ایک ایسا عفریت ہے جو ایک مریض سے دوسرے مریض میں منتقل ہو کر بیماری کو چہار اطراف میں عام کر دیتا ہے۔یہ وائرس اس لیے بھی خطرناک ہے کہ یہ ایک انسان سے دوسرے انسانوں میں پھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اس کے پھیلاؤ کا قاعدہ یہ ہے کہ متاثرہ افراد کے منہ اور ناک سے برآمد ہونے والے قطرات اور رطوبت جن کے اندر یہ وائرس موجود ہوتا ہے اسے دوسروں تک پہنچانے کا ذریعہ اور راستہ بنتے ہیں۔یہ قطرات اور رطوبت اگر کسی شے کی سطح پر موجود ہوں اورکسی غیر متاثرہ فرد کا ہاتھ ان کو لگ جائے اور بعد ازاں وہ اپنے منہ،ناک اور آنکھوں کو ہاتھ لگائے تو وائرس اس کے جسم میں بھی داخل ہو جائے گا۔ کسی بیمار شخص کے کھانسنے سے بھی قریب بیٹھے ہوئے افراد اِس مرض کا شکار ہو سکتے ہیں۔ کورونا وائرس نظام ِتنفس کے گنجلک مسائل کو جنم دیتا ہے جیسے خشک کھانسی، سانس کا پھولنا، سانس لینے میں دشوار ی اور ناک کا بند ہونا ۔ دیگر علامات میںگلے کی خرابی اور اسہال وغیرہ شامل ہیں۔ یاد رہے کہ کسی بھی قسم کے اینٹی بایوٹکس وائرس کو نابود کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔چنانچہ وائرس کے ذریعے سے وجود میں آنے اور پھیلنے والے امراض زیادہ سرعت سے پھیلتے ہیں اور لاتعداد انسانی اموات کا باعث بنتے ہیں۔ ماضی میں زیکا وائرس ، ماربر گ وائرس، کرِمیٔن کانگو ہیئمرجک بخار، ہینڈرا وائرس اور چکنگونیا دنیا کے مختلف حصوں میںنہایت خطرناک وبائی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ ان وباؤں نے لاکھوں انسانوں کی جان لی۔ وائرس ایک نہایت چھوٹا خوردبینی ذرّہ ہے جو فعال رہنے کے لیے کسی حیاتیاتی خلیے کے درُوںطفیلی حیثیت میں رہتا ہے۔ وائرس صحت کے بنیادی توازن کو بگاڑنے کے سبب حیاتیاتی اجسام میںمختلف النوع بیماریوں کے آغاز وپرداخت کا باعث بنتاہے۔ وائرس کا ارتقائی سفر ہی اس نوعیت کا ہے کہ یہ کسی دوسرے جاندارخلیے کا ڈی این اے یا آراین ا ے سر قہ کیٔ بغیر یا اُسے تاراج کیٔ بغیر اپنی نقل تیارکر ہی نہیںسکتا ۔وائرس حیاتیاتی کائنات کے سب سے ضدی،سرکش اور بے باک طفیلئے ہیں۔چونکہ انسان ابھی تک وائرس کو بیکٹیریا کی طرح فنا کر دینے کی قابلیت حاصل نہیں کر سکا اس لیٔ زیادہ تروبائی امراض کے پھیلاؤ کا بنیادی سبب بھی وائرس ہی ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق کورونا وائرس میں مبتلا ہر چھ میں سے ایک فرد شدید بیمار ہو سکتا ہے۔ اگر کورونا وائرس کے پھیلنے کی قدرتی رفتار اور متاثرہ افراد کی تعداد کو ذہن میں رکھا جائے تو یہ ایک بہت بڑی تعداد بنتی ہے۔اس پر طرّہ یہ کہ تاحال اس بیماری کا علاج دریافت نہیں ہو سکا ہے اور متاثرین کو مخصوص طریقوں سے جسمانی طور پر مستحکم کیا جا تا ہے۔ مثال کے طور پر مریض کے جسم کے ا فعال کو ہر ممکن حد تک درست رکھنے کی سعی کی جاتی ہے جب تک کہ اس کا مدافعتی نظام اس وائرس کا مقابلہ کرنے کے قابل نہ ہو جائے۔عالمی ادارۂ صحت اور دنیا میں کئی دیگر اداروں میں کرونا وائرس کے خلاف ادویات کا استعمال تجرباتی بنیادوں پر ہو رہا ہے اور امید و ِ اثق ہے کہ اس سال کے آخر تک کوئی نہ کوئی دو ا یا ویکسین انسانوں کے زیرِاستعمال ہو گی۔تاہم جب تک اس بیماری کا علاج سامنے نہیں آتاہمیں اپنے آپ کو اس کے مُوذی اثرات سے بچانے کی عقلمندانہ کوششیں کرنی ہوں گی۔ موجودہ حالات میں ہمارے اجتماعی سماجی و معاشرتی رویوں میں تبدیلی سب سے اہم ہے۔اس کے لئے ہمیں Social Distancingسوشل ڈسٹینسنگ یعنی سماجی دُوری اور سیلف آئسولیشن Self-Isolation یعنی خود ساختہ گوشہ نشینی اختیار کرنا پڑے گی ۔باشندگانِ پاکستان طبعاً نہایت ملنسار، آشنا مزاج اور دوسروں سے بسرعت مانوس ہو جانے کی خصلت رکھتے ہیں۔ مصافحہ کرنا، بغل گیر ہونا، ایک دوسرے کے قریب براجمان ہونا ہمارے لوگوں کی سماجی سرشت میں شامل ہے۔بد قسمتی سے یہی سماجی رویے کرونا کے پھیلاؤ میں بنیادی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ سوشل ڈسٹینسنگ سے مراد وہ اقدامات ہیں جن کے ذریعے ہم اپنے جاننے والے یا نہ جاننے والے خواتین و حضرات کی جماعتوں یا ٹولیوں سے خواہ وہ کہیں بھی ہوں اپنے آپ کو دور رکھ سکتے ہیں۔عوامی اژدھام والے مقامات مثلاً سنیما، شاپنگ کے مراکز، کھیل کے میدان ، شادیوں کی تقاریب ،میلے ٹھیلے اور رش والی دیگر جگہوں پر جانے سے گریز کریں۔دفتر جانا ناگزیر ہو تو وہاں بھی لوگوں سے مناسب فاصلہ رکھیں۔ بعینہ سیلف آئسولیشن یا خود ساختہ تنہائی کا مطلب یہ ہے کہ ہم خود کو دنیا بھر سے الگ کر لیں اور اپنے گھر تک محدود ہو جائیں۔دوسروں کے گھر جانے سے گریز کریں اور انھیں بھی اپنی رہائش گاہ آنے سے بطرزِ شائستہ روکیں۔ خود ساختہ گوشہ نشینی بلا کسی کوشش کے کسی بھی متاثرہ فرد میں موجود وائرس کو ہم تک نہیں پہنچنے دیتی۔امریکی محقّقین کے مطابق 1957-58 میں انفلوئینزا کی مشرقی ایشیا سے پھوٹنے والی وبا جو دنیا بھر میں 11 لاکھ اموات کا سبب بنی بنیادی طور پر سماجی دُوری نہ ہونے کے باعث اس قدر تباہ کن ثابت ہوئی۔آئیے کرونا وائرس کی تباہ کاریوں کو روکنے کے لئے ذہنی بلوغت کا ثبوت دیں اور اپنے سماجی معمولات میں ضروری تبدیلیاںلائیں۔
کرونا وائرس‘ اسباب اور حفاظتی تدابیر
Mar 29, 2020