مزدوروںا ورکارکنوں کی بہتری کیلئے اداروں کی کارکردگی

سپریم کورٹ آف پاکستان نے پچھلے دنوںجب ورکرز ویلفیئر، بورڈ، پنجاب سے رجسٹرڈ ورکرز کی تفصیلات طلب کیںاور صوبائی ،وفاقی محکموں کو فیکٹریوں کی تفصیلات ،رجسٹرڈ ورکرز اور اخراجات کی رپورٹ طلب کی تو یہ پتہ چلا کے پنجاب میںصرف دو ہزار ایک سو ترپن افراد کو فنڈ دیے گیے ہیں۔جبکہ سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ،جس کی سر براہی چیف جسٹس کر رہے تھے ،نے کہا کہ ورکروں کے بچوں کی تو ہر روز شادیاں ہوتی ہیں،کروڑوں ورکروں میں سے ہزاروں کا آئے دن انتقال ہوتا رہتاہے،کیا پنجاب کے تمام ورکروں کو بھی یہ فنڈمل رہا ہے۔ کیوںکہ ہیں تلخ بہت بندہ ء مزدور کے اوقات ،لگتا ہے کہ آج کل تو کچھ زیادہ ہے ہی تلخ ہوگئے ہیں ۔مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے اور ادھر بقول عدالت عالیہ لگتاہے ،چند افراد کا وظیفہ ہی لگا ہوا ہے۔عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ قررار دیا کہ معلوم ہوا ہے کہ ورکرز ریلفیر بورڈ نے آٹھ ہزار گھر تعمیر کئے ہیں،وہ کن کارکنوں،ورکروں کو دیے گیے ہیںیا دئیے جائیں گے عدالت عالیہ نے ان افرادکہ جن کو گھر دئیے جانے کا بتایا گیا ہے، کہ کوائف بھی پوچھ ہی لئے اور استفسار کیا کہ چار ارب اٹھاسی کروڑ روپے کی رقم پنجاب حکو مت نے کہاں خرچ کی ہے۔قارئین کو شائد اچھی طرح علم ہوگا کہ ملک عزیز میں کر وڑوں مختلف انوع قسم کی فیکٹریوں، سکولوں،پرائیویٹ ہسپتالوں، بیکریوں،بھٹوں،شادی ہالوں،مختلف قسم کے دفاتر و بیوٹی سلون،ہیلتھ کیر کے دیگر بڑے ادارے،شاپس، مدرسوں و جامعات، غرض ہر قسم کے ایسے ادارے جہاں پانچ یا دس سے زیادہ کارکن کام کرتے ہوں،وہاں سوشل سیکورٹی آرڈ نینس مجریہ انیس سو پینستھ اور لیبر ایکٹ مجریہ انیس سو انہترجس میں شاپ ایکٹ کو بھی شامل کیا گیا۔اگر پانچ یا پانچ سے زیادہ ورکر کام کررہے ہیں،تو ہر ایک کو پتہ ہونا چاہیے کہ اس ادارے پر سوشل سیکورٹی لاگو ہوتی ہے ۔ سب سے پہلے توآپ اگر نظر اردگرد د وڑائیں، تو آپ حیران رہ جائیں گے کہ ہر طرف ایسے ہزاروں ادارے،کارخانے،نظر آئیں گے جہاں کوئی مزدور یا ورکر یا ادارے نہ تو سوشل سیکورٹی نہ ویلفیر فنڈ ادا کررہے ہیں، حالاںکہ وہاں ورکروں کی تعداد عموما پانچ یا دس سے بھی تجاوز کرچکی ہوتی ہے۔اور نہ ہی مزودوروں کے کوائف،اوقات،تعداد آویزاں کی جاتی ہے۔بظاہریہ صریحا غیر قانونی ہے یا یہ ادارے جھل دے رہے ہیں اور یامزدوروں کو انکے جائز رجسٹریشن کے حق سے محروم کر کے نا انصا فی کی جارہی ہے۔ہمارے ہاں کسی فیکٹری یا ادارے کی طرف دیکھیں، کہیں اور کتنوں کو شادی گرانٹ،جہیزیا کفن دفن یا وظیفہ وغیرہ ورکرز ویلفیر فنڈ کے نام پردیاجارہاہے۔ کیا زرعی و صنعتی مزدوروں اور ورکروں میںجن کی تعداد کروڑوں میں ہے ،سے کتنوں کو کچھ بھی ، کبھی بھی، مالی روپیہ پیسا گرانٹ یا کسی سرکاری مد میںمد دملی ہے۔کتنے فیصد، چلیں اگر ایک فیصد ،جو کہ کم ترین شرح ہوگی، وہ بھی ہزاروں کی بجائے لاکھوں میں تمام مزدوروں کی تعداد بنتی ہو گی۔کیوںکہ بیچارے مزدور کے لئے تو آج کل صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا ،کے مترادف ہے۔چلیں،ایسے نہیں، تو کتنوںکی سوشل سیکورٹی کے تحت رجسٹریشن ہوئی ہے اور کتنے فیصد مزدوروں کو سوشل سیکورٹی ہسپتالوں میں علاج معالجے کی سہولت حاصل ہے ۔کہیں ایسا تو نہیں کہ فیکٹری مالکا ن کو یہی فکر لگی رہتی ہے کہ کہیں زیادہ مزدور چھٹیاں لے کر گھر بیٹھ نہ جائیں ،اور کارخانے سونے سونے نہ رہ جائیں جو کہ مالکوں کو ہر گز قبول نہیں۔کیوںکہ اداروں کے مالکان کے لیے تو صرف فیکٹری وغیرہ ،چلنا ضروری ہے اور اگر راقم غلط نہیں ،تو متعلقہ افسروں کو صرف اپنی جیب بھرنے سے غرض ہے۔اور مزدور کیا کرے کہ مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا،کے مصداق وہ ایک طرف سرمایہ داروں کے شکنجے میں پس رہاہے تو دوسری طرف ان کی بہتری اور سہولت کے لیے قائم محکموں کی ریشہ دوانیوں کا شکار ہے اور تیسری طرف ایک خود ساختہ مزدور وں کی فلاح کے نام پر نام نہاد لیڈرز کا مافیا ان کو لوٹ رہا ہے اور مزدوروں کو انکے حقوق دلوانے کے نام پر ،روزانہ ہر دفتر میں اپنا حصہ بقدر جسہ وصول کر رہا ہے اور ہر جائز ناجائز طریقہ اختیار کر رہاہے۔ حقیقتااکثر مزدوروں ااور ورکروں کو سوشل سیکورٹی ،یا لیبر قانون اور اولڈ ایج کے نحت حقوق کا آج تک صحیح بتایا ہی نہیں گیا۔ نوے فیصد مالکان کسی ملازم کو تقرری کا کوئی کاغذ ہی نہیں دیتے ۔ بے چارے اکثر ورکر کو عارضی ،پارٹ ٹائم ،روزانہ کی بنیاد پر، یا اس شرط پر رکھا جاتا ہے کہ زبانی طے شدہ تنخواہ ہی ملے گی ۔جبکہ ان بے چارے مزدور وں کے رہنمائوں کی چھان بین کی جائے ،تو آپ یہ سن کر حیران ہوںگے کہ یہ خود کوئی کام نہیں کرتے بلکہ سارا سارا دن لیبر دفتروں میں چکر لگانااور اپنے مالی مفادات حاصل کرنا اور بلیک میل کرکے ایک طرف مزدوروں سے مال کھینچنا تو دوسری طرف دو دھاری تلوار کی طرح متعلقہ افسروں کو بھی بلیک میل کرتے ہیں۔ آپ یہ پڑ ھ کر حیران ہوںگے کے پچاس سال سے زیادہ ہوچکے ان مزدوروں کی فلاح کے لیے بنے اوپر تمام بتائے گئے محکموں کو،لیکن آج تک اکثر فیکٹریوں واداروں میںکسی ایسے محکمے میںان کا نام درج یا رجسٹر نہیں ۔ چوتھے ،حکومت وقت کی مزدوروں کی طرف عدم توجہ اوربڑھتی لاپرواہی ،بے حسی اور اوپر،بڑھتی ہوئی مہنگائی ان کی روزمرہ زندگی کو اور اجیرن بنا رہی ہے۔ چائلڈ لیبر عملی طور پر ختم نہیں ہوئی ،ہوٹلوں میں آپ چھوٹی عمر کے بچوں کو کام کرتے دیکھ سکتے ہیں اسی طرح خواتین ورکروں کو تحفظ اوربہتر ماحول کی بجائے ، ہرا سمنٹ اور کم اد ا ئیگی اور کئی سوشل مسائل کا سامنا کرنا پڑرہاہے۔ جس رفتار سے نئے محکمے پیدا اور بھرتیاں ہو رہی ہیں،اسی قدر لوگوں کی مشکلات بڑھ رہی ہیں اور لوگ ماضی کو زیادہ اچھے لفظوں میں یاد کر رہے میں۔ حبیب جالب کے بقول، ترقی کرتے کرتے،
پہلے پہلے غریب بکتے تھے
اب تو عزت مآب بکتے ہیں
بے ضمیروں کی راج نیتی میں
جاہ و منصب خطاب بکتے ہیں
دور تھا انقلاب آتے تھے
آج کل انقلاب بکتے ہیں
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن