مریم کا لہجہ، پرویز الٰہی کا مشورہ اور مہنگائی کی نئی لہر!!!!

مریم نواز کے لہجے پر پاکستان پیپلز پارٹی نے جواب دیا ہے۔ یقیناً جس انداز میں مریم نواز شریف نے پاکستان پیپلز پارٹی کے بارے گفتگو کی ہے صرف پاکستان پیپلز پارٹی ہی نہیں کوئی بھی سیاسی جماعت اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی جا سکتی۔ سیاست عدم برداشت نہیں ،برداشت کا نام ہے، سیاست بند راستوں کو کھولنے کا نام ہے، سیاست سب کو ساتھ لے کر چلنے کا نام ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی تو یہ کام کر رہی ہے لیکن پاکستان مسلم لیگ نون کو کیوں اعتراض ہے، کیوں نظام کے چلتے رہنے پر مریم نواز شریف اور ان کے چند قریبی ساتھیوں کو چلتا ہوا نظام برا لگتا ہے۔ بہرحال یہ ان کی سیاسی حکمت عملی وہ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کو بھی نون لیگ کی ایک شاخ کے طور پر چلانا چاہتی ہیں جو کہ ممکن نہیں ہے۔ بہرحال پاکستان پیپلز پارٹی نے انہیں باقاعدہ جواب دے کر اچھا کیا ہے۔ پی پی پی نے سینیٹ میں انتخابی کا حصہ بن کر حکومت کا مقابلہ کیا، مریم نواز یہ چاہتی ہیں کہ پیپلز پارٹی وہ فیصلے کرے جس سے نواز شریف اور مریم نواز کو سیاسی فائدہ ہو، انہیں نیب سے نجات ملے۔ بہرحال میاں نواز شریف اور ان کی بیٹی کی سوچ ایک جیسی ہے۔ دونوں لوٹ مار کا مال بچانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ مولا بخش چانڈیو  کہتے ہیں کہ پی ڈی ایم کسی کی جاگیر نہیں، نہ بچوں کا کھیل ہے جو کہہ دیا کہ لانگ مارچ نہیں ہو رہا۔ پریس کانفرنس کرتے ہوئے شازیہ مری کہتی ہیں کہ بلاول بھٹو کا لہجہ سیاسی لیکن مریم نواز کا لہجہ قابل افسوس تھا۔ ہمیں افسوس ہوتا ہے جب پیپلز پارٹی کیلئے سلیکٹڈ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ ہر طعنے کا جواب دینا آتا ہے جسے آپ نے لیڈر آف اپوزیشن نامزد کیا اس سے ہماری رنجشیں ہیں۔ کیا نون لیگ میں اتنی ہمت، برداشت یا صبر نہیں کہ وہ حزب اختلاف کی بڑی جماعت کے سیاسی فیصلوں کا احترام کر سکے، کل تک تو بلاول بھٹو زرداری کے آگے بچھے بچھے جا رہے تھے، گاڑھی چھن رہی تھی، ایک ہی سٹیج سے متحدہ اپوزیشن کا پیغام دیا جا رہا تھا لیکن صرف ایک فیصلے سے ہی ساری محبتیں، قربتیں دوریوں میں بدل گئی ہیں۔ اپوزیشن کرنا مشکل کام ہے، یہاں اعصاب کا امتحان ہوتا ہے، سنجیدگی اور تدبیر کا امتحان ہوتا ہے پاکستان مسلم لیگ نون کی موجودہ قیادت ان صفات سے عاری ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے فیصلوں میں سنجیدگی اور پختگی کی کمی ہے۔ بدقسمتی ہے کہ وہ اپنے ووٹرز کو مسلسل گمراہ بھی کر رہے ہیں۔ 
جولائی سے فروری تک مہنگائی کی شرح 8.3 فیصد رہی ہے جو آئندہ مہینوں میں 7.9 فیصد سے 9.5 فیصد تک رہنے کی توقع ہے۔ حکومت مہنگائی قابو کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ حکومت اس لحاظ سے خوش قسمت رہی ہے کہ اسے امن و امان کے بہتر حالات ملے، انہیں دہشت گردوں سے خطرہ نہیں تھا، ملک میں امن و امان کے حالات ماضی کی نسبت بہت اچھے تھے۔ اس کے بعد حکومت کے لیے سب سے بڑا ہدف مہنگائی قابو کرنا تھا لیکن حکومت ابھی تک اس میں ناکام رہی ہے۔ یہ گرمیاں اور بھی زیادہ مشکل ہوں گی، اشیاء  خوردونوش کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے پھر بجلی بھی مہنگی ہو رہی ہے رمضان المبارک کی آمد آمد ہے ماہ مبارک کو دیکھتے ہوئے ناجائز منافع خور بھی متحرک ہو چکے ہیں۔ حکومت کو ایک اور چیلنج درپیش ہے مجھے بالخصوص س شعبے میں کسی اچھائی کی  توقع نہیں ہے کیونکہ کسی بھی شعبے میں بہتری کی کچھ وجوہات ہوتی ہیں اگر بہتری کے لیے بنیادی اقدامات ہی نہ کیے جائیں اور صرف زبانی جمع خرچ کیا جائے تو اس سے بہتری کی امید نہیں کی جا سکتی۔ وزارت خزانہ کی طرف سے جاری کردہ آؤٹ لک کے مطابق جولائی سے فروری تک ترسیلات زر 18 ارب 70 کروڑ ڈالرز رہیں جب کہ اس عرصے میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 0.9 ارب ڈالرز رہا اور بیرونی سرمایہ کاری میں 29.9 فیصد تک کمی ہوئی ہے۔ چینی کی فی کلو قیمت ایک سو دس روپے تک پہنچ گئی ہے۔  لاہور کے یوٹیلٹی سٹورز  پر دو سو پندرہ روپے لیٹر میں فروخت ہونے والا خوردنی تیل دو سو اکہتر روپے کا ہو گیا ہے۔ پشاور کے یوٹیلٹی سٹورز سے آٹا اور چینی غائب ہو چکی ہے جبکہ پانچ کلو گھی کے ڈبے کی قیمت پندرہ سو روپے ہے۔ مرغی کا گوشت  مسلسل مہنگا ہو رہا ہے۔ حکومت رمضان پیکج لا رہی ہے لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کھانے پینے کی ضرورت صرف رمضان المبارک کے دوران ہی ہوتی ہے یہ سہولت سارا سال ہونی چاہیے۔ اشیاء خوردونوش کی ملک بھر میں یکساں و مناسب قیمتوں پر بلا تعطل فراہمی کو ہر صورت یقینی بنانا چاہیے۔
کرونا وائرس پھیلتا جا رہا ہے بات سمارٹ لاک ڈاؤن سے ایک مرتبہ پھر لاک ڈاؤن کی طرف بڑھ رہی ہے۔ گذشتہ برس ہم نے بہت تکلیف دیکھی ہے۔ اس کے باوجود کہ عوامی سطح پر سنگین مسائل کا سامنا رہا لیکن سیاسی قیادت نے عوام کو کرونا سے بچنے کے لیے حفاظتی اقدامات کے حوالے سے کوئی کام نہیں کیا، بہتر یہی تھا کہ سیاسی قیادت کرونا کیسز میں نرمی کے دوران عوام کو حفاظتی تدابیر پر عمل کا پیغام دیتی سب نے دل کھول کر خلاف ورزیاں کیں اور اب حالات یہ ہیں کہ کرونا حفاظتی تدابیر کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف مقدمات درج ہو رہے ہیں۔ حکومتی شخصیات بھی کرونا ایس او پیز کو تباہ کرنے میں برابر کی شریک ہیں۔ ان حالات میں سپیکر صوبائی اسمبلی پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے سب سے بہتر مشورہ دیا ہے۔ پرویز الٰہی کہتے ہیں کہ کرونا سے نمٹنے کیلئے باتیں کم اور ویکسین کا بندوبست زیادہ کریں۔ویکیسن کے معاملے میں پاکستان خطے کے تمام ممالک میں سب سے پیچھے ہے۔کرونامریضوں میں خطرناک حدتک اضافہ ہو رہا ہے۔ بروقت اقدامات نہ کیے تو قیمتی جانیں ضائع ہونے کا خطرہ ہے۔ عوام کو ریلیف نہ دیا تو آئندہ الیکشن میں مشکلات کاسامنا کرنا ہوگا۔ پرویز الٰہی نے حکومت کو نرم اور سادہ زبان میں آئینہ دکھایا ہے۔ حکومت ویکسین کے معاملے میں بھی بروقت فیصلے کرنے میں ناکام رہی ہے۔ عوام کو ریلیف دینا تو دور کی بات ہے بنیادی ضروریات کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کو آئندہ الیکشن بھی کوئی فکر نہیں ہے یہ فکر ہوتی تو عام آدمی کے مسائل حل کرنے پر ضرور توجہ دی جاتی۔ حکومت کو وسیع پیمانے ویکسین کا بندوبست کرنا ہو گا۔ ہم لاک ڈاؤن کے متحمل نہیں ہو سکتے، لوگ پہلے ہی غربت میں زندگی گذار رہے ہیں کاروبار بند ہونے سے غذائی بحران کا خطرہ پیدا ہو گا۔ بہرحال حکومت کو تدبیر کرنا ہو گی۔ بیانات سے نکل کر عملی اقدامات کی طرف بڑھنا ہو گا۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...