ُٓرمضان المبارک کی آمد آمد ہے اس کیساتھ پاکستان میں شوگر کی قیمتوں میں تیزی کا رحجان بھی نظر آ رہاہے دوسری طرف پنجاب حکومت نے شوگر مافیا کے خلاف کریک ڈائون کا سلسلہ شروع کر دیاہے جس سے چینی کی ترسیل یکدم رک گئی ہے اور قیمتوں میں غیر یقینی پیدا ہو گئی ہے حقیقت یہ ہے کہ آج تک پاکستان میں کوئی ادارہ یہ طے نہیں کر سکا کہ ملک کی سالانہ چینی کی ضرورت کتنی ہے اندازوں پر کام چل رہاہے موسمی حالات اور گنے میں بیماری کی وجہ سے اس کریشنگ سیزن میں ویسے بھی شوگر ملیں پیداوار کامطلوبہ ٹارگت پورا نہیں کر سکی ہیں گذشتہ روز کمشنر شوگر کین نے حکومت کو خط لکھا ہے کہ ملک میں تین لاکھ میٹرک ٹن چینی کا شاٹ فال ہے اور حکومت TCPکے ذریعے یہ چینی باہر سے منگوائے جبکہ اس سے پہلے TCPنے چینی کے دو ٹینڈر زمنسوخ کئے ہیں چینی کے حوالہ سے یہ بہت پیچیدہ صورتحال ہے کیونکہ کھپت کا کنفرم آئیڈیا کسی کے پاس بھی نہیں ہے صرف وہ اندازے ہیں جو ماضی میں کبھی بھی کامیاب ثابت نہیں ہوئے ہیں کاٹن کے ایک بڑے ایریا میں گنا کاشت ہونے کے باوجود اگر پاکستان نے چینی امپورٹ ہی کرنی ہے تو اس پر بہت زیادہ غور کرنے کی ضرورت ہے پاکستان میں شوگر پر بہت زیادہ سیاست ہوتی ہے اس لئے یہ مسّلہ ہر وقت نظروں میں رہتا ہے لیکن افسوناک پہلو یہ ہے کہ اس کا آج تک کوئی بھی مستقل حل نہیں نکل سکا ہر ایک دو سال کے بعد شوگر بحران جنم لیتا ہے کبھی ہم امپورٹ کر رہے ہوتے ہیں اور کبھی ہم ایکسپورٹ کر رہے ہوتے ہیں جبکہ شوگر کے ذخیرہ اندوزوں کیخلاف ابھی تک کوئی بھی میکنزم نہیں بن سکا اس وقت بھی درجنوں لوگوں پر مقدمے بن چکے ہیں اور 9سے زائد شوگر ملوں کے ریکارڈ کی FIAتحقیق کر رہی ہے اسکے باوجود نہ تو ملک میں شوگر کی قیمتیں کم ہوئی ہیں اور نہ ہی غیر یقینی صورتحال ختم ہوئی ہے عوام کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ کس پر مقدمے بنیں ہیں اور کن کن کی چھان بین ہو رہی ہے انہیں دلچسپی ہے کہ انہیں چینی مناسب قیمت پر ملے اور وافر مقدار میں مارکیٹ سے میسر رہے لیکن اس وقت حکومت اور حکومتی ادارے اس میں ناکام ہو چکے ہیں دوسری طرف پاکستان میں گنے کی کوالٹی پر کام نہیں ہو رہا جس وجہ سے اس وقت پوری دنیا میں فی ایکڑ گنے کی پیداوار پاکستان میں سب سے کم ہے اور اسکا نقصان نظر آ رہاہے پاکستان میں اس وقت بحران رہے گا جب تک معیاری گنا پاکستان میں نہیں لگے گا گذشتہ ہفتے صوبہ پنجاب نے شوگر سپلائی چین مینجمنٹ آرڈر 2021کا نوٹیفیکشن کابینہ کی منظوری کے بعد جار ی کیا گیا ہے شوگر سپلائی چین مینجمنٹ آرڈر 2021میں کین کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کو چینی کی فروخت کے سلسلے میں مکمل اختیار سونپا گیا ہے نوٹیفیکشن میں کہا گیا ہے کہ چینی کی قلت پر کین کمشنر اور DCکو اقدامات کرنے کا اختیار ہو گا نوٹیفیکشن کے مطابق چینی کا اسٹاک کم ہو تو ڈپٹی کمشنر کو آگاہ کرنا لازم ہو گا نئے قانون کے تحت کوئی ڈیلر ،ہول سیلر بغیر رجسٹریشن چینی نہیں خرید سکے گا کوئی فیکٹری غیر رجسٹرڈ ڈیلر ،ہول سیلر اور بروکر کو چینی فروخت نہیں کر سکے گی قانون کے تحت چینی کی خرید و فروخت کے پورے نظام کو ریگو لیٹ کیا جا سکے گا محکمہ خوراک کے نوٹیفیکشن میں کہا گیا ہے کہ شوگر ملز اور ڈیلرز کے گودام کی رجسٹریشن ہو گی صرف رجسٹرد ڈیلر ہی چینی کی خریدو فروخت کر سکے گا آرڈر کے تحت ذخیرہ کرنے کیلئے صرف 2.5میٹرک ٹن چینی کی اجازت ہو گی زیادہ چینی ذخیرہ کیلئے متعلقہ ڈپٹی کمشنر کی اجازت ضروری ہو گی چینی ذخیرہ اور کاروبار کیلئے ڈپٹی کمشنر سے اجازت لینا ضرروی ہو گی نوٹیفیکشن میں کہا گیا ہے کہ اس اقدام سے چینی کے کاروبار میں سٹے بازی اور ذخیرہ اندوزی کے خاتمے میں مدد ملے گی لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا کیونکہ اس میں مل ڈیلر ،سیلر کے منافع پر بات ہی نہیں کی گئی چینی کا کاروبار کرنے والوں کا کہنا ہے کہ وہ اس کاروبار سے نکل جائیں کیونکہ موجودہ حالات میں یہ کاروبار منافع بخش نہیں رہا حکومت یہ کاروبار خود کر لے اب حالات یہ ہیں کہ پنجاب میں شوگر ایکٹ آنے کے بعد شوگر کا کاروبار کراچی یعنی سندھ میں منتقل ہو تا نظر آ رہاہے کیونکہ سندھ میں شوگر سٹاک کرنے اور فروخت کرنے میں کوئی پاپندی نہیں ہے اسے افسوناک قرار دیا جا سکتاہے پنجاب کے شوگر کاروباری لوگوں کا کہنا ہے کہ مستقبل میں چینی کا پورے پاکستان میں کاروبار سندھ والے ہی کریں گے دیکھتے ہیں کہ پنجاب حکومت کے اس ایکٹ کے بعد عوام کو سستی چینی ملتی بھی ہے یا نہیں ؟
ختم شد۔