آرمی چیف اورسکیورٹی کا وسیع مفہوم

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے پچھلے دنوں نیشنل ڈیفنس ڈویژن کے زیر اہتمام منعقدہ سکیورٹی ڈائیلاگ میں تقریر کرتے ہوئے عالمی اور علاقائی معاملات کا تجزیہ پیش کیا۔وہ دل کی ساری باتیں زبان پر لے آئے ۔
میں نہیں جانتا کہ اس خطاب پر پرنٹ میڈیا نے کیارد عمل ظاہر کیا اس لیے کہ میں پانچ برسوں سے بینائی کی نعمت سے محروم ہوں اور اخبار پڑھنے سے قاصر ہوں مگر میں یہ ضرور جانتا ہوں کہ ہمارے الیکٹرانک میڈیا پر صرف کوے کی چونچ حلال ہے یا حرام پر ہی ٹاک شوز چلتے رہے ،ہمارے سیاست دانوں نے اس تقریر کو سیاق و سباق سے ہٹ کر دیکھا تو مجھے اس پر چنداں  حیرت نہیں ہوئی ،ایک زمانہ تھا جب کند ذہن ،غبی اور نالائق شاگردوں کو استاد یہ طعنہ دیتا تھا کہ تمہارے دماغ میں بھس بھرا ہوا ہے مگر اب ان الفاظ کو یوں بدلا جا سکتا ہے کہ سیاست دانوں کا معدہ کھد ، پائے ، نہاری،بریانی ،اور لسی پیڑوں  اور فالودے سے مد ہوش ہے۔ اور اس پاپی پیٹ کو دماغ کی جگہ استعمال کرنے سے یہی کچھ ہو تا ہے جو جنرل باجوہ کی تقریر کے ساتھ سیاست دانوں نے کیا،سیاق و سباق سے ہٹ کر بات کرنے کی علت بہت پرانی ہے  مگرفور جی اور فائیو جی کے دور میںبھی یہ علت بدرجہ اتم ہے۔
 سکیورٹی کا مفہوم اب بہت وسیع ہو چکا ہے ،اور جنرل باجوہ نے اس کو پوری طرح واضح بھی کیا ہے ،انہوں نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ سکیورٹی کی ذمہ داری اب صرف  افواج کے کندھوں پر عائد نہیں ہوتی کہ وہ داخلی اور خارجی خطرات کے خلاف ملک و قوم کا دفاع تو کرتی ہے ،جنرل باجوہ یہ بات نہ بھی کہتے تو ہر شخص جانتا ہے کہ آج کی دنیا میں سرحدی خطرات سے زیادہ بڑے بڑے خطرات ملکوں اور قوموں کو درپیش ہیں، سب سے بڑا خطرہ فوڈ سکیورٹی کا ہے ،اتنا ہی بڑا خطرہ واٹر سکیورٹی کا ہے اور اسی قدر اہم مسئلہ معاشی سکیورٹی کا ہے اور ماحولیاتی سکیورٹی کے خطرات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اور سوشل سیکورٹی تو خلیفہ عمر ؓ نے رائج کر دی تھی۔ جسے ہم نقل بھی نہیںکر سکے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان خطرات سے نمٹنے کا طریقہ کیا ہے ،جنرل باجوہ درست کہتے ہیں کہ نہ تو کسی ایک خطرے کو ختم کرکے حالات درست رکھے جا سکتے ہیں اور نہ کوئی ایک ملک تنہا طور پر ان خطرات سے نبرد آزما ہو سکتا ہے ،ہر مسئلے کا حل عالمی اور علاقائی سطح پر مشترکہ کوشش کے ذریعے ہی  نکالا جاسکتا ہے ۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ ماضی کے فارمولے آج اور آنے والے کل کے مسائل کا شافی علاج ثابت نہیں ہوسکتے ،اس کے لیے ہمیں  آج کے اور کل کے ماحول کو پیش نظر رکھ کر ہی کوئی راستہ نکالنا ہوگا اور مل جل کر اپنانا ہوگا ۔جنرل باجوہ نے بڑی تفصیل سے واضح کیا ہے کہ پاکستان کن خطرات میں گھرا ہوا ہے اور ہم ننے ان خطرات کا کامیابی سے کس طرح مقابلہ کیا ہے،انہوں نے صاف لفظوں میںکہا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ علاقائی امن کے لیے سنگین خطرہ ہے اور اسے پر امن طور پر حل کیے بغیر آگے بڑھنا ممکن نہیں ،انہوں نے یہ ضرور کہا ہے ہمیں اپنے تمام تنازعات بات چیت کے ذریعے مل بیٹھ کر طے کرنے چاہئیں ۔اس کے لیے انہوں نے افغان امن مذاکرات کو ایک ماڈل کے طور پر پیش کیا ہے جوپاکستان کی  امن کی خواہش کا آئینہ دار ہے افغانستان کا امن امریکہ یورپ طالبان اور پاکستان کی مشترکہ کوششوں کے بغیر ناممکن ہے،اسی طرح ہمسایہ ملک بھارت کے ساتھ بھی تمام جھگڑے  ماضی کو دفن کر کے طے کیے جاسکتے ہیں۔ماضی کو دفن کرنے والی بات ہمارے سیاست دانوں نے اس طرح بگاڑ کر پیش کی ہے کہ سر پیٹنے کو جی چاہتا ہے ، کیا میں نواز شریف سے یہ پوچھنے کی جسارت کر سکتا ہوں کہ انہوں نے جب میثاق جمہوریت پر دستخط کیے تھے تو ماضی کو بغیر کفن کے دفن نہیں کردیا تھا۔ میں اس بحث کو طول نہیں دینا چاہتا کیونکہ خود جنرل باجوہ کی تقریر ایک کھلی کتاب کی طرح ہے اور اس کو تڑور مڑور کر پیش کیا ہی نہیں جاسکتا۔انہوں نے کھلے دل سے تسلیم کیا ہے کہ دونوں ہمسایہ ملک معاشی رابطوں کو تیز تر کرکے  اپنے اپنے عوام کا معیار زندگی بدل سکتے ہیں ،لیکن ان معاشی رابطوں کو بڑھاوا دینے کے لیے ضروری ہے کہ بھارت وہ سازگار ماحول پیدا کرے جس میں دونوں ملک اعتماد کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ تجارت کے رشتوں سے منسلک ہو سکیں۔اس کے لئے انہوںنے اپنے گھر کو درست کرنے کی بات بھی کی ہے اور یہ با ت  علاقائی  تناطر میں کی گئی ہے۔ان کا اشارہ صرف پاکستان کی طرف نہیں۔یا لوگوںنے اس فقرے کا مطلب بھی غلط نکلاا ور اسے ڈان لیکس سے جا ملایا ۔جس میں پاک فوج کو روگ آرمی کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔
جہاں تک سکیورٹی کے دیگر خطرات کا تعلق ہے تو ان کا مقابلہ کرنے کے لیے صرف  فوج مکلف نہیں ہے اس کے لیے ریاست کے اندر دیگر ادارے بھی موجود ہیں ۔پاکستان پانی کی قلت کا شکار ہے اس کے لیے ڈیم اور نہریں بنانے کے لیے محکمے موجود تو ہیں مگر کام کرتے نظر نہیں آتے ،معاشی معاملات کو چلانے کے لیے درجنوں محکمے ہیں ،تعلیم اور ہیلتھ سیکورٹی کے لئے بھی ریاستی ادارے موجود ہیں۔ انصاف کی فراہمی کویقینی بنانا بھی خود مختاداروں کی ذمے داری ہے۔ اس کے باوجود فوج ہر جگہ اپنی ذمہ داریا ں ادا کرنے میں پیش پیش رہی ہے جنرل باجوہ ہی کے الفاظ ہیں کہ پاکستان نے دہشت گردی کی جنگ طویل عرصے کے لیے لڑی  اور اس میں کامیابی حاصل کی ،پاکستان کی اس کامیابی پر دنیا بھی انگشت  بدنداں ہے ۔پاک فوج نے اس کینسر کا خاتمہ کرکے رکھ دیا ہے ۔زلزلے یا سیلاب کی آفت ہو،ٹڈی دل کے حملے ہوں یا کورونا کی قیامت درپیش ہو تو پاک فوج نے جواں مردی اور خوش دلی سے اپنا کردار ادا کیا ہے۔جنرل باجوہ نے یاد دلایا ہے کہ دور دراز کے پسماندہ علاقوں کو ترقی یافتہ  بنانے میں  پا ک فوج نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ جہاں تک معاشی سکیورٹی کا تعلق ہے تو یہ حقیقت ہر شخص جانتا ہے کہ زرداری اور نواز شریف کی حکومتوں نے ملک کو ڈیفالٹ کے دھانے پر پہنچا دیا تھا اور معاشی سرنڈر کا خطرہ سامنے   تھا مگر جنرل قمر جاوید باجوہ نے ذاتی تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے سعودی عرب ،قطر ،متحدہ عرب امارات اور چین سے  اربوں ڈالر کا زرمبادلہ حاصل کیا ،جس سے آج کا پاکستان معاشی سرنڈر کرنے سے بچ گیا ۔ جنرل باجوہ کا یہ کردار قابل ستائش ہے ۔
دفاعی محاذ پرآرمی چیف نے پاکستانی فوج کے جذبہ ایثار کو نمایاں کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب علاقے میں اسلحے کی دورڑ شروع ہو اور بھارت نت نئے میزائل اور رافیل  لڑاکا طیارے حاصل کرنے کی کوشش میں ہو تو اس ماحول میں پاک فوجج نے دفاعی بجٹ کو بڑھانے کی بجائے اس میں کمی کو قبول کیا ہے ،مجھے یاد ہے جب پچھلے بجٹ میں دفاعی بجٹ کم کیا گیا تو بھارت نے ڈینگ ہانکی تھی کہ ہم ایک کمزور پاکستان کو آسانی سے کچل سکتے ہیں تو تب ہمارے فوجی ترجمان نے اعتماد بھرے لہجے میں کہا تھا کہ اس دفاعی بجٹ میںکمی کے باوجود ہم نے تمھارے ابھی نندن کے طیاروں کو مار گرایا تھا ،اس لیے بات بجٹ کی نہیں ہمت اور حوصلے اور جذبے کی ہے ،جس کا مظاہرہ پچیس مارچ کی پریڈ میں قوم نے  اور دنیا بھر نے اپنی آنکھوں سے  دیکھا۔

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر دی نیشن