ڈیرہ غازی خان میں ٹریفک سسٹم کی ناکامی 

ہمارے ہاں نوجوانوں کو کھیلوں کی سہولیات میسر نہیں نہ گراؤنڈز نہ ہی کوچز جو ان نوجوانوں کی تربیت کرسکیں لہذاجب وہ ترقی یافتہ ممالک کے نوجوانوں کو دیکھتے ہیں تو ان کا مشرقی خون خود بخود  جوش میں آ جاتا ہے  ہمارے ہاں نوجوان اپنی مثبت سرگرمیوں کا اظہار ون ویلنگ کے زریعے کرتے دکھائی دیتے ہیں اور ان کے جذبات انہیں اپنے جوہر دکھانے کے لیے اکساتے اور نتیجہ حادثات کی صورت اختیار کر جاتا ہے حادثات کی صورت میں کئی گھروں کے چشم و چراغ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اگر دنیا میں ٹریفک کے جدید نظام کی مثال دی جاتی ہے تووہاں   ٹریفک کا اعلی اور جدید  قسم کا نظام ہے پھر یہ مثال دی جاتی ہے کہ وہاں کے ٹریفک پولیس اہلکاروں کے پاس جدید قسم کی گاڑیاں ہوتی ہیں یہاں تو پاکستان کی ٹریفک پولیس کے اہلکاروں کی جرأت کو سلام کرنا چاہیے جو اس جدید دور میں بھی اعلی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں ڈیرہ غازی خان میں 1990میں جب صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان سردار فاروق احمد خان لغاری کے دور میں شہر کے چند ایک مقامات پر  ٹریفک سگنلز لگائے گئے تھے اس وقت تو شہر کے روڈز بھی سکڑے ہوئے تھے  اب تو شہر کے روڈز بھی کشادہ ہو چکے ہیں اب ڈیرہ غازی خان میں ٹریفک سگنل کی اشد ضرورت ہے تاکہ شہریوں میں شعور اجاگر ہو وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان خان بزدار کو بھی چاہیے کہ وہ ڈیرہ غازی خان کے اس سنجیدہ مسئلہ پر فوری توجہ دیں اور  ٹریفک پولیس کو جدید قسم کی نئی گاڑیاں مہیا کریں تاکہ کوئی بھی شخص قانون شکنی کرتے ہوئے گاڑی بھگانے کی کوششں نہ کرے  اوراس کو موقع پر پکڑ کر جرمانہ یا کوئی سزا دی جائے اس وقت ڈیرہ ٹریفک پولیس کے کئی نوجوان پولیس آفیسر دوران ڈیوٹی شر پسند ڈرائیوروں کی گاڑیوں کی زد میں آکر اپنی جان کی بازی  ہارگئے اور اپنے پیچھے پسماندگان میں کئی فرد چھوڑ کر اس دنیا فانی سے چلے گئے ہیں ڈیرہ ٹریفک پولیس کی کارکردگی کچھ یوں رہی ہے ٹریفک پولیس نے رواں سال میں بھی اب تک کل ڈرائیونگ لائسنس اور روٹ پرمٹ منسوخ کیے گئے ہیں ایک  وقت ایسا بھی تھا کہ شہر بھر کے اندر موٹر سائیکلوں پر پھٹے ہوئے سلنسر پریشر ہارن نے تو شہریوں کی زندگی اجیرن بنائی ہوئی تھی کاروائی کی اشد ضرورت تھی مگر ٹریفک پولیس نے اس مسئلہ پر سنجیدگی سے غور کرکے ان شرپسند افراد کے خلاف انتھک کاروائیاں کر کے ان کے خلاف قانونی کارروائی کرکے اس مسئلے کا حل نکالا اس وقت  ضرورت جس بات کی ہے وہ  ڈیرہ ڈویڑن کے اندر ایس پی ٹریفک کی تعیناتی نہ ہونا ہے  جب سے ایس پی کی سیٹ ختم کی گئی اس روز سے ٹریفک ملازمین کے لیے مشکلات پیدا ہوئیں آئی جی پنجاب کو چاہئے کہ وہ ایس پی ٹریفک کی سیٹ کو دوبار بحال کویقینی بنائے کیونکہ ڈویژن بھر میں سارا بوجھ ڈی ایس پی ٹریفک پر ہوتا ہے آر پی او ڈیرہ رانا محمد فیصل اور ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر عمر سعید ملک  کو بھی ٹریفک پولیس کے چالان افسران کے لیے  نئی گاڑیوں کی فراہمی کو یقینی بنانا ہوگا ٹریفک پولیس بھی مقامی پولیس کے شانہ بشانہ کھڑی  ہوکر جرائم کے خاتمے کیلئے اپنا کردار ادا کر سکے ڈی ایس پی ٹریفک عمران رشید کی محنت  ایمانداری پر کسی قسم کا کوئی شک نہیں کیا جا سکتا ملازمین کی کمی کے باوجود بھی سرکل چلایا ہوا ہے اگر ملازمین کی بات کی جائے تو اس وقت ٹریفک سٹاف میں ٹوٹل 24 ملازمین کی کمی ہے جس میں 8 انسپکٹر 2 سب انسپکٹر 1 ہیڈ کانسٹیبل 13 کانسٹیبل ہیں پھر بھی دفتر میں وہ بیٹھ کر سارا  دن ٹریفک کا نظام چلا رہے ہیں دفتر کی صورتحال کچھ اس طرح ہے  وہ کسی وقت بھی تیز بارش کی وجہ سے زمین بوس ہو سکتا ہے کیونکہ دوران بارش سارا پانی دفتر کے برآمدے میں جمع ہو جاتا ہے لیکن پھر بھی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنی ڈیوٹی احسن طریقے سے نمٹا رہے ہیں وہ ٹریفک نظام کو بہتر بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں ٹریفک پولیس کے استعمال میں چلنے والی گاڑیاں ایسی ہیں جیسے کسی دور میں جی ٹی ایس کی کھٹارہ  بسوں یا نیو خان کی استعمال شدہ بسوں پر الفاظ تحریر ہوا کرتے تھے(کھیڈ مقدراں دی ،نصیب اپنڑ اپنڑا ) پھر بھی ٹریفک پولیس نے کھٹارہ گاڑیوں کو مرمت کراکے ٹریفک سسٹم کو چلایا ہوا ہے ڈی ایس پی نے  بے روز گار نوجوان نسل کیلئے پولیس لائن میں ٹریفک تربیتی پروگرام شروع کیا ہوا ہے تاکہ نوجوان لڑکے اپنا نظام زندگی خوش اسلوبی سے چلا سکیں  ٹریفک اشاروں کے علاؤہ ڈرائیونگ بھی سکھائی جاتی ہے اور ٹریفک کی آگاہی کیلئے مختلف سکولوں و کالجوں میں ٹریفک قانون کے بارے میں لیکچر دیے جاتے ہیں ڈی ایس پی ٹریفک ڈیرہ کے لیے اگر کوئی مشکلات در پیش ہیں تو  وہ صرف اور صرف  ٹریفک آفس کے رقبہ کی کمی ہے مختصر دفتر ہے جس میں تقریبا چند ایک گاڑیاں بھی بمشکل کھڑی ہو سکتی ہیں کئی  بار نئی بلڈنگ کے لیے انجینر نے معائنہ کیا مگر کام  جوں کا توں اپنی جگہ پر قائم ہے ڈرائیونگ لائسنس کا اشاروں کا ٹیسٹ دینے والے امیدوارجب ڈرائیونگ ٹیسٹ دینے کے لیے آفس کے چھوٹے سے احاطے کے اندر گاڑی چلاتے ہوئے کنفیوز ہو جاتے ہیں وہ ڈرائیونگ ٹیسٹ پاس نہیں کر پاتے پھر چالیس دن بعد پھر وہ اپنی قسمت آزمانے کے لیے دوبارہ ٹیسٹ دینے آتے ہیں ہونا تو ایسا چاہیے کہ ڈرائیونگ پراسسز کو ریلوے اسٹیشن پر مکمل کرائے تاکہ آنیوالے تمام کنیڈیٹ کو کسی قسم کی مشکلات درپیش نہ ہو کم وسائل میں ٹریفک کا عملہ ڈسپلن میں کسی سے کم نہیں اگر کمی ہے تو نئی ٹرانسپورٹ اور نئی عمارت کی اس مشکلات کا حل صرف اور صرف ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر عمر سعید اور ریجنل پولیس آفیسر رانا محمد فیصل ہی کرا سکتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن