یوں تو شب و روز اﷲ کے نیک بندے اپنے معبود حقیقی سے لو لگائے رہتے ہیں اور ان پر رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوتا رہتا ہے مگر ایک خاص شب جس میں رب العالمین کے ربوبیت کی جانب سے نوازش کثیر و الطاف کبیرکی دولت تقسیم ہوتی ہے وہ شب برأت کہلاتی ہے۔ شب برأت چودہ شعبان کا دن گزار کر آنے والی وہ ایمان افروز اور رحمت افشاں رات ہے جو پاک ہے اور گناہوں سے پاک کرتی ہے۔ شب عرفہ۔ شب عیدین اور شبِ قدر کی طرح اس مبارک رات کی نوعیت بھی مسلمہ ہے جس میں رب العالمین کی بے پایاں شفقت و رحمت و تشکر کا اظہار اور اپنی نیاز مندی اور عبودیت کا عاجزانہ اعتراف کیا جاتا ہے۔ ایک حدیث کے مطابق حضور کریمؐ نے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ مذکورہ مبارک راتوں کی طرح شب برأت کو بھی اپنے بندوں پر رحمت اور خیر کے دروازے کھول دیتا ہے۔ یہ ایک ایسی بخشش کی رات ہے جس میں اﷲ کے حضور سجدہ ریز ہونے سے سکون قلب اور بالیدگئی روح کی ابدی دولت حاصل ہوتی ہے۔ یوں تو رجوع الی اﷲ کی اہمیت اور افادیت ہر وقت ہر آن او ر ہر لمحہ مسلّم ہے۔ لیکن شب برأت جسے لیلتہ ابرأۃ اور لیلتہ الرحمت بھی کہتے ہیں کے ساتھ اس کی خاص نسبت اور تعلق ہے۔ کیونکہ اس میں ایسے قیمتی اور نایاب لمحات رکھے گئے ہیں جو زندگی میں صرف خوش بختوں کو ہی نصیب ہوتے ہیں۔ جو لوگ شب برأت کو رجوع الی اﷲ کر کے اپنے گناہوں سے توبہ کرتے ہیں ان کے لئے بخشش کی یقینی بشارت موجود ہے۔ چونکہ اس رات کو رحمت خداوندی اپنی تمام تر عنایات کے ساتھ مخلوق پر متوجہ ہوتی ہے اور گناہ گاروں کی مغفرت ہوتی ہے اس لئے اس کو شب برأت یعنی قید و عذاب سے بریت کی رات کہتے ہیں۔ البتہ شرک کرنے والوں۔ ناحق قتل کرنے والوں، ماں باپ کی نافرمانی کرنے والوں، شرابیوں، جواریوں، جادوگروں، کینہ پروروں، زانیوں، سُود خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کو اس نعمت سے محروم رکھا جاتا ہے۔ حیات و ممات کے فیصلے اسی رات کو پایہ تکمیل کو پہنچتے ہیں اور رزق کی تقسیم بھی اسی رات کو ہوتی ہے۔ غروبِ آفتاب کے وقت سے ہی اﷲ تعالیٰ نیچے آسمان پر تجلی فرماتا ہے اور طلوع فجر تک ندائے عام ہوتی ہے کہ ہے کوئی رزق مانگنے والا کہ اُسے رزق دیا جائے۔ ہے کوئی استغفار کرنے والا کہ اُس کی مغفرت کی جائے اور ہے کوئی مصیبت میں مبتلا کہ اُسکی مصیبت دور کی جائے۔ خوش قسمت ہیں وہ جو اس مبارک رات میں اﷲ کو راضی کرتے ہیں اور اسکی رحمتوں اور برکتوں سے جھولیاں بھرتے ہیں۔ اُم المئومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ ایک رات حضورؐ کو بستر پر موجود نہ پا کر تلاش کے لئے جنت البقیع کی طرف گئی۔ اور وہاں دیکھا کہ آپؐ عبادت میں مشغول ہیں۔ مجھے دیکھ کر فرمایا آج شعبان کی پندرھویں رات ہے۔ اس رات اﷲ تبارک و تعالیٰ آسمان سے دنیا کی طرف توجہ فرماتا ہے اور اپنی مخلوق پر تجلی فرما کر بنی کلب قبیلہ (جس کے پاس اس زمانے میں سب سے زیادہ بکریاں ہوتی تھیں) کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ لوگوں کے گناہ بخش دیتا ہے۔ حضورؐ پاک کا فرمان ہے کہ" رمضان اﷲ کا مہینہ ہے اور شعبان میرا مہینہ ہے ۔اس ماہ کی پندرھویں رات کو جاگ کر گزارو۔نوافل ادا کرو اور دن کو روزہ رکھو"۔رمضان میں ہی آپؐ کو منصبِ رسالت پر مامور کیا گیا تھا اور قرآن کریم جیسی لازوال کتاب کا نزول شروع ہوا تھا۔ چنانچہ آپؐ نہ صرف رمضان میں غیر معمولی طور پر عبادت فرمایا کرتے تھے بلکہ رمضان کی آمد سے پہلے ہی شعبان کے مہینہ میں آپؐ کے اُوپر ایک خاص کیفیت طاری ہو جاتی تھی۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ اور حضرت اُم سلمہ ؓ فرماتی ہیں کہ رمضان کے سوا سال کے باقی گیارہ مہینوں میں صرف شعبان ہی ایسا مہینہ تھا جس میں آپؐ سب سے زیادہ روزے رکھا کرتے تھے۔ بلکہ شعبان کو پورا مہینہ ہی روزہ رکھتے ہوئے گزر جاتا تھا۔ لیکن آپؐ کا یہ طرز عمل گہرے روحانی تعلق کی بنا پر تھا۔عام مسلمانوں کے بارے میں ارشاد نبویؐ تھا کہ وہ ایسا ہر گز نہ کریں کیونکہ خدشہ تھا کہ یہ ایک لازمی رسم بن جائے گی اور رمضان کے فرض روزوں میں شعبان کے مزید روزوں کا اضافہ آپؐ کی اُمت پر ایک بوجھ بن جائے گا۔ ماہ شعبان میں بکثرت روزے رکھنے کی ایک وجہ حضورؐ نے یہ فرمائی کہ" ماہ شعبان میں لوگوں کے اعمال اﷲ کے حضور پیش کئے جاتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ میرے اعمال جب پیش کئے جائیں تو میں روزہ کی حالت میں ہوں"۔حضرت علی المرتضیؓشب برأت کے بارے میں فرماتے ہیں کہـ" اس رات جو دعا اﷲ سے مانگو وہ قبول ہو جاتی ہے"۔ چنانچہ آپؓ بھی رات کو کھلے آسمان کی طرف دیکھ کر بہت دیر تک دعائوں میں مشغول رہتے تھے۔ حضرت اسامہ ؓ فرماتے ہیں"شب برأت کو اعمال کا حساب ہوتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ جب اعمال کا حساب بارگاہ ایزدی میں پیش ہو رہا ہو تو میں سر بسجود ہوں اور بروقت ندامت اور عبادت کام آ جائے" غوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی ؒنے فرمایا "بہت سے لوگوں کے کفن تیار ہو چکے ہیں مگر وہ کفن پہننے والے بازاروں میں خرید و فروخت میں لگے ہوئے ہیں اور موت سے غافل ہیں۔ بہت سے لوگوں کی قبریں کھد چکی ہیں مگر دفن ہونے والے غفلت میں ہیں اور خوشیاں منا رہے ہیں"۔ حدیث میں ہے کہ اس رات کو جو شخص چار رکعت نفل ادا کرے اور ہر رکعت میں پچاس بار سورئہ اخلاص پڑھے یعنی چار رکعت میں کل دو سو بار سورئہ اخلاص پڑھے اور پھر دن کو روزہ رکھے تو اﷲ تعالیٰ اس کے بہت سے گناہ معاف فرما دے گا۔ بروقت ہر حال میں اﷲ کی بندگی و اطاعت کرنے کا نام ہی عبادت ہے۔ اور خصوصی طور پر شب برأت میں عبادت کر کے اس کی برکات و فیوض سے بہرہ ور ہونا اور اﷲ تعالیٰ کی مغفرت کی دعائیں مانگنا ایک اچھا اور مستحسن فعل ہے جس کے کرنے سے نہ صرف ثواب حاصل ہوتا ہے بلکہ آخرت بھی سنور جاتی ہے۔بدقسمتی سے بعض نادان مسلمان اس مقدس اور بابرکت رات سے اخروی فوائد حاصل کرنے کی بجائے ہندوانہ رسموں کی نذر کر دیتے ہیں۔ آتشبازی ۔ چراغاں کرنا۔ پٹاخے چلانا اور کھیل تماشوں میں وقت ضائع کرنا تمام جاہلانہ رسوم ہیں جو غیر مسلموں سے حاصل کی گئی ہیں۔ اس رحمتوں اور برکتوں والی رات میں ملائکہ جب رحمتیں اور مغفرتیں لے کر زمین کی طرف بھیجے جاتے ہیں تو بعض نادان مسلمان بارود کے دھماکوں سے ان کا استقبال کرتے ہیں۔ ان کے اس فعل کا ثبوت نہ تو کلام مجید میں اور نہ ہی احادیث میں ملتا ہے۔ خطیب اپنے خطبوں میں ان خرافات سے بچنے کی تلقین کرتے کرتے تھک چکے ہیں۔ مقامی انتظامیہ ہر سال اس موقع پر آتشبازی پٹاخے وغیرہ کی تیاری اور اس کی فروخت اور استعمال پر دفعہ 144کے تحت پابندی تو لگا دیتی ہے مگر سچ تو یہ ہے کہ قانوں پر عملدرآمد نہ ہونے سے اس میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایک طرف تو ملکی دولت کو پھونکا جاتا ہے اور دوسری طرف اﷲ کی ناراضگی کا سبب بننا پڑتا ہے۔ پچھلی قوموں نے بھی نئی نئی رسمیں رائج کر کے ان کی پابندی فرضوں اور واجبات سے بھی زیادہ کرنی شروع کر دی تھی۔ ان رسموں کی قرآن کریم نے زنجیروں سے مثال دی ہے۔ دین اسلام نے پچیدہ رسموں کو چھوڑ کر آسان سا ضابطہ حیات تجویز فرمایا ہے ۔گو کہ ہر رسم نیک نیتی سے شروع کی جاتی ہے۔