خطرناک وائرس کرونا سے پیدا ہونے والی متعدی وباء کوویڈ – ۹۱کی تیسری لہر شدت اختیار کرتی جا رہی ہے اور دن بدن نئے کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس بیماری نے جب عالمی وباء کی شکل اختیار کی تو اس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے اندھا دھند حفاظتی اقدامات کیے کئے گئے۔ الحمد للّٰہ! ملک عزیز میں دوسرے ممالک کی نسبت زیادہ جانی نقصان نہیں ہوا۔ اس کی وجوہات جو بھی ہوں عوام کی طرف سے احتیاطی تدابیر بالکل نہیں ہیں۔ سچ یہ ہے کہ عوام نے نہ پہلے کبھی احتیاط کی، نہ کر رہے ہیں اور رویے بتا رہے ہیں کہ مستقبل میں بھی کوئی ارادہ نہیں۔ بد قسمتی سے وباء سے بچنے اور کسی بھی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے سنجیدگی نظر نہیں آتی۔ خود ایس اوپیز کو فالو نہیں کر رہے اور عوام کو مجبور کررہے ہیں۔اگراحتیاطی تدابیر کا درس دینے والے ہی عمل نہیں کریں گے تو عوام پر ان نصائح کا خاک اثر ہوگا۔ مزید ستم یہ ہوا کہ سیاست ، مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر تقسیم در تقسیم قوم اس نازک مسئلہ پر بھی دو گروہوں میں بٹ گئی۔ ایک گروہ بیماری کو تسلیم کرتا ہے جبکہ دوسرا گروہ اسے نہیں مانتابلکہ اس کو ڈرامہ قرار دیتا ہے۔ محکمہ صحت کی طرف سے’’ ڈرنا نہیں لڑنا ہے ‘‘ جیسے جذباتی نعرے جلتی پر تیل ڈالنے کے مترادف ہیں۔ دانستہ طور پر دیدہ دلیری کے ساتھ ایس اوپییز کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں اور سکولوں کی بندش کے علاوہ تمام پابندیوں کو ہوا میں اڑایا جا رہا ہے۔ حیرت ہے کہ پاکستان میں ایک نظام کیوں نہیں۔ کچھ مقامات اوراداروں میں ماسک اور سینی ٹائزر کے بغیر داخلہ کا سوچ بھی نہیں سکتے اور بعض جگہوں پر آزادی ہی آزادی ہے۔پالیسی سازاورعمل در آمد کرانے والے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اور لمحہ فکر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آگہی کا فقدان ہے۔آگہی مہم کا مقصد عوامی سطح پر کرونا سے محفوظ رہنے کے طریقوں کی اہمیت کو اجاگر کرنا، سماجی فیصلوں کی اہمیت پرزور دینا اور ایس او پیز پر سختی سے عمل درآمد کروانے کی ضرورت کو اجاگر کرنا تھا۔لیکن سسٹم اس حوالے سے ناکام رہا۔ ضروری ہے کہ آگہی صرف وہی دے جو اس شعبہ کا ماہرہو اور وہ اتنا معتبر ہو کہ عوام اس کی بات پر اعتبار کریں اوراس کی نصیحت پر عمل کریں۔ جائزہ لینا ہوگا کہ عوام میں شعور کی بیداری اور رائے عامہ پر اثر انداز ہونے والیادارے کون سے ہیں اور کیا وہ اپنے فرائض پوری ذمہ داری سے ادا کررہے ہیں۔ عوام میں شعور بیدار کرنے میں میڈیا بنیادی کردار ادا کر سکتا ہے۔ بدقسمتی سے میڈیا نے موثر کردار ادا نہیں کیا بنیادی معلومات کی بجائے سنسنی اور خوف کی فضا پیدا کی گئی۔حیرت ہوتی ہے جب کرونا کے حوالے سے خبر کے دوران ایکشن فلموں کی طرح کے دل دہلا دینے والے صوتی اثرات سنتے کو ملتے ہیں۔ کیا اموات اور بیماری کی خبریں ڈھول ڈھمکے کے ساتھ سنائی جاتی ہیں۔ کوئی اس منطق کی وضاحت فرمائے گا۔ کرونا کے حوالے سے معلوماتی پروگرام بہت کم نشر ہوئے اور اگر کوئی ہوا بھی تو اس کے مبصر وہی سیاسی تبصرہ کرنے والے چاہیے تو یہ تھا کہ ان پروگراموں میں شعبہ طب سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو ہی دعوت دی جاتی تاکہ وہ وبا کے بارے میں تکنیکی گفتگو کرتے۔ اگر اب بھی پوری قوم نے اس کو سنجیدہ نہ لیا تو اس وبا کے پھیلاؤ کو روکا نہیں جا سکے گا۔صورت حال قابو سے باہر ہوگئی تو کم وسائل اور غیر سنجیدہ رویوں سے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ ایس او پیز پر عمل نہ کوئی راکٹ سائنس ہے اور نہ اس پر کوئی خرچہ ہوتا ہے۔سماجی فاصلہ، ماسک کا استعمال اور ہاتھ ملانے سے گریز کونسے ایسے مشکل کام ہیں جو نہیں کیے جاسکتے۔ کریم آقاحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ صدیاں قبل اس طرح کی صورت حال کا مقابلہ کرنے کی جو حکمت عملی دی وہ آج بھی اتنی ہی موثر ہے۔ وضو،آئیسولیشن اور قرنطینہ اسلامی تعلیمات ہیں جن کو دنیا بھر کے ماہرین طب نہ صرف تسلیم کیا بلکہ سراہا بھی ہے۔
حفاظتی تدابیر اپنی جگہ بہت اہم ہیں لیکن اس کے ساتھ بحیثیت مسلمان ہمارا یہ عقیدہ اور یقین ہونا چاہیے کے بیماریوں سے حفاظت اللہ رب العزت ہی کرتا ہے اور شفا بھی اللہ ہی دیتا ہے۔ کثرت سے انفرادی اور اجتماعی استغفار، دعا اور اللہ سے مدد ہی دنیا کو اس عفریت سے نجات دلا سکتی ہے۔ آگر اللّٰہ پاک مرض سے شفا دے تو’’ مرض کو شکست ‘‘ دینے والے متکبرانہ نعرے نہ لگائیں بلکہ اللہ کا شکر ادا کریں جس نے شفا بخشی۔دعا ہے کہ اللہ پاک ہم سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔
کرونا کی تیسری لہر
Mar 29, 2021