لاہور (شہزادہ خالد) اپوزیشن کی جانب سے عدم اعتماد کی تحریک پیش کئے جانے کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے استعفیٰ دے دیا جس پر آئینی و قانونی ماہرین نے کہا ہے کہ اس طرح کے ماحول سے ملک کی ترقی رک جاتی ہے۔ آئینی بحران پیدا ہو جاتا ہے۔ سپریم کورٹ بار کے صدر احسن بھون نے نوائے وقت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کا استعفیٰ ابھی تک منظور نہیں کیا گیا۔ استعفیٰ منظور ہونے کے بعد اصل معاملہ سامنے آئے گا۔ اگر گورنر پنجاب استعفیٰ منظور کر کے کسی رکن اسمبلی کو وزیر اعلیٰ نامزد کر دیتے ہیں تو نامزد وزیر اعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینا پڑے گا۔ اعتماد کے ووٹ میں ناکامی پر حکومتی اور اپوزیشن کے نامزد امیدواروں میں ووٹنگ ہو گی۔ پنجاب بار کونسل کی ایگزیکٹو باڈی کے ممبر و سابق سیکرٹری لاہور بار کامران بشیر مغل نے کہا کہ اگر سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الہیٰ وزیر اعلیٰ کے امیدوار بنتے ہیں تو انہیں پہلے سپیکر کی نشست سے استعفیٰ دینا پڑے گا اور پھر وہ وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں امیدوار کے طور پر حصہ لے سکتے ہیں۔ سپیکر کے استعفیٰ کی صورت میں ڈپٹی سپیکر ہائوس کا اجلاس بلائیں گے اور وزیر اعلیٰ کے لئے ووٹنگ کرائیں گے۔ گذشتہ ماہ پنجاب بار کونسل کی وائس چیئرمین کی نشست چھوڑنے والے ممبر پنجاب بار و سابق صدر لاہور ٹیکس بار فرحان شہزاد نے کہا کہ اگر گورنر پنجاب کسی ممبر اسمبلی کو وزیر اعلیٰ نامزد نہیں کرتے تو سپیکر اسمبلی 14 دن کے اندر اجلاس بلانے کا پابند ہوگا۔ اجلاس میں وزیر اعلیٰ کے لئے کاغذات نامزدگی جمع کرنے اور انتخاب کی تاریخ دی جائے گی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اگر قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہو جاتی ہے تو تمام اسمبلیاں توڑ دی جائیں گی۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے توڑنے سے شدید آئینی بحران پیدا ہو جائے گا جس کا ملک متحمل نہیں ہو سکتا۔ ندیم بٹ ایڈووکیٹ ہائی کورٹ نے کہا کہ یہ ساری گیم ایک شطرنج کی طرح ہے جس میں بادشاہ کو بچانے کے لئے وزیر کی قربانی دینی پڑتی ہے۔ ن لیگ لائرز فورم کے سابق نائب صدر پنجاب مشفق احمد خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ یہ سارا کام آئینی و قانونی ہے۔ اس سے کوئی بحران پیدا نہیں ہوگا۔ پاکستان بار کونسل کے سابق کوآرڈی نیٹر مدثر چودھری، ولائت چودھری ایڈووکیٹ سپریم کورٹ نے کہا کہ اسمبلیوں کے ممبر عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوتے ہیں انہیں عوام اور ملک کا مفاد پیش نظر رکھنا چاہیے۔