پیر حکومت، اپوزیشن کیلئے بیک وقت اظہار مسرت،چبھن کا باعث 


اسلام آباد(عترت جعفری)پیر کا دن اسلام آباد میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کیلئے بیک وقت اظہار مسرت اور چبھن کا باعث رہا ، تحریک عدم اعتماد کے بعد شروع ہونے والی نمبر گیم ابھی اوپن ہے اور رائے شماری تک نمبر گیم کے حوالے سے اعدادوشمار اوپر نیچے ہوتے رہیں گے ،حکومت کیلئے گذشتہ روز خوشی کی بات پنجاب میں اپنے وزیر اعلی کی قربانی دیکر مسلم لیگ ق کی حمایت حاصل کی ، مسلم لیگ ق حکومت کی اتحادی جماعت ہے اور اس کے ارکان کی تعداد 5 ہے،تاہم حکومت کیلئے تکلیف کی بات بلوچستان عوامی پارٹی کی طرف سے حکومت سے الگ ہونے اور اپوزیشن کے ساتھ جانے کا فیصلہ ہے ،بلوچستان عوامی پارٹی کے ارکان کی تعداد بھی پانچ ہے جن مین سے چار نے اپوزیشن کو ووٹ دینے کی حامی بھری ہے ،تاہم زبیدہ جلال پریس کانفرنس میں نہیں تھی ،اپوزیشن کے کے دو روز سے خوشی منانے والے واقعات ہو رہیں ہے،گذشتہ روز حکومت کی اتحادی جماعت جمہوری وطن پارٹی نے اپوزیشن کا ساتھ دینے کا علان کیا ،ان کی ایک سیٹ ہے ، تاہم مسلم لیگ ق کی طرف سے حکومت کیساتھ جانے کا فیصلہ ان کے چھبن کا باعث ہوا ہے ، چونکہ اپوزیشن نے 172ارکان کو شو کرنا ہے ،پیر تک ان کی پوزیشن کچھ س اس طرح سے ہے ،342کے ایوان میں تحریک عدم اعتماد سے پہلے اپوزیشن ارکان کی تعداد162تھی جو عملا160ہے کیونکہ پی پی پی کا یک رکن بیرون ملک ہے جبکہ  اپوزیشن کا ایک رکن علی وزیر جیل کے اندر ہیں ،تاہم ان  کا پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کی درخواست کی جائے گی ،اگر اس وقت اپوزیشن کی تعداد کو  160ہی سمجھی جائے تو اس وقت ان کو باپ کے 4،جمہوری وطن پارٹی کے ایک اور سندھ سے آزاد رکن شاہ نواز  کی حمائت حاصل ہے ،اس طرح یہ تعداد 166ہو جاتی ہے ،اس  تعداد کے بارے میں کوئی شبہ نہیں ہے ،مسلم لیگ ق کی کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد پی ایم ایک ق کے مستعفی ہونے والے وزیر طارق بشیر چیمہ نے اپوزیشن کے ساتھ جانے کا اعلان کیا ، تو  یہ تعداد  168ہو جاتی ہے ،جبکہ  اگر  اپوزیشن علی وزیر کو ایوان میں بلوانے مین کامیاب ہو جاتی ہے تو 169تعداد بن جاتی ہے،اپوزیشن اس وقت اپنے ہدف  تین ووٹ  پیچھے رہ گئی ہے ، حکومت ان نمبرز کوغور کر رہی ہو گی ، پی ٹی آئی کو ہر حال میں  اپنے ارکان کو ایوان میں آنے سے روکنا ہے،اگر اس کے اپوزیشن کے اند رابطے ہین تو اسے اپنے ساتھ مل جانے والے اراکن کو بھی ووٹنگ کے روز آنے سے منع کرنا ہو گا ،ایم کیو ایم کی حمایت ہر ھال مین جیتنا ہو گی،ماپوزیشن کو بھی اپنے  ارکان کو ایوان میں لانا ہو گا ،عام تاثر ہے اب بھی گیم ان ارکان کے ہاتھ میں ہے جو  اسوقت تو اپنی اپنی جماعت کو اس وقت ’’اون ‘ کر رہے  مگر دل مخالف سے ملے ہوئے ہیں  وہی کسی کے بھی حق میں گیم کو پلٹ سکتے ہیں ۔

ای پیپر دی نیشن