الیکشن ایمرجنسی لگا کر ہی ملتوی کئے جاسکتے ہیں : چیف جسٹس 


اسلام آباد(خصوصی رپورٹر) پنجاب، خیبرپختونخواہ انتخابات کیس میں چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا ہے کہ قانون کی حکمرانی کے بغیر جمہوریت نہیں چل سکتی، ایمرجنسی لگا کر ہی الیکشن ملتوی کئے جاسکتے ہیں۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا ہم سمجھیں قوم دہشت گردوں کے ہاتھوں یرغمال ہے، یہ ملک ”بنانا ریپبلک“ بن گیا ہے، مسلح افواج حکومت کے ماتحت ہیں، کیسے کہہ سکتے ہم نہیں کرتے۔ سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کے عام انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ نے کی۔ سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے نئے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کا عدالت میں خیر مقدم کیا، ان کا کہنا تھا کہ توقع ہے آپ سے بہترین معاونت ملے گی۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ اصل صورتحال یہ ہے کہ اتنے لمبے عرصے کیلئے الیکشن کیسے ملتوی ہوسکتے ہیں، بے نظیر بھٹو کی شہادت پر الیکشن صرف 40 دن آگے ہوئے تھے، احتجاج کے باعث الیکشن کمیشن کے دفاتر نذر آتش کردیئے گئے تھے، سانحے پر ملک بھر میں احتجاج ہورہے تھے، الیکشن کیلئے سیاسی پختگی کی ضرورت ہے، اس پر بھی ہدایات لے کر آئیں۔ انہوں نے کہا کہ سندھ میں ٹرین پر سفر کیا، ہر جگہ سیلاب تھا، بلوچستان میں کئی جگہ ٹرین پیدل چلنے والوں کی رفتار سے چلتی ہے، کوئٹہ ابھی تک ریلوے لائن سے منسلک نہیں ہوسکا، جہاں نقل و حرکت مشکل ہو وہاں الیکشن ملتوی ہوسکتے ہیں، الیکشن کمیشن کا فیصلہ جلد بازی میں لکھا گیا، الیکشن کمیشن کے پاس تاریخ بڑھانے کی کوئی اتھارٹی یا قانون نہیں۔ جسٹس منیب اختر نے سوال اٹھایا کہ اگر مردم شماری کے دوران قومی اسمبلی تحلیل ہوگئی تو کیا ہوگا؟، کیا نگران حکومت مردم شماری کے نتائج شائع کر سکتی ہے؟۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان نے بتایا کہ 30 اپریل کو مردم شماری مکمل ہونی ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ گزشتہ مردم شماری کے نتائج آنے میں کئی سال لگے تھے، آپ پر بھروسہ کیسے کریں کہ نتائج تاخیر سے شائع نہیں ہوں گے؟۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی ایک دوسرے پر بھروسہ نہیں کرتے۔ جسٹس منیر اختر نے کہا کہ 2 اسمبلیاں تحلیل ہو چکیں، آئین کے تحت 90 دن میں الیکشن ہونا ہے، مشترکہ مفادات کونسل جو بھی کرے کیا الیکشن کی مدت آگے جا سکتی ہے؟، آئینی طور پر مشترکہ مفادات کونسل کا الیکشن سے کوئی تعلق نہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا ہے کہ صوبوں میں قومی اسمبلی کے الیکشن کا نئی حلقہ بندیوں پر کیا اثر پڑے گا؟۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 2017ء سے ایک سیاسی جماعت مردم شماری پر اعتراض کر رہی ہے، عوام کی نمائندگی میں شفافیت ہونی چاہئے، پہلی بار عدالت الیکشن ملتوی کرنے کی وجوہات کا جائزہ لے رہی ہے۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ کارروائی کو لمبا نہیں کرنا چاہتے، سادہ سا سوال ہے کہ الیکشن کمیشن تاریخ آگے کرسکتا ہے یا نہیں؟، اگر الیکشن کمیشن کا اختیار ہوا تو بات ختم ہوجائے گی۔ جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو فریق بنانے کیلئے ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے نکتہ اٹھایا تھا، جمہوریت کیلئے قانون کی حکمرانی لازمی ہے، قانون کی حکمرانی کے بغیر جمہوریت نہیں چل سکتی، سیاسی درجہ حرارت اتنا زیادہ ہوگا تو مسائل بڑھیں گے۔ فاروق ایچ نائیک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ملک میں اس وقت انارکی اور فاشزم ہے، عدالت ہمیں موقع دے تو کیس تیار کریں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ سینئر وکیل ہیں، کیس تو آپ کے دل میں ہے، کل بھی کہا تھا کہ قانونی معاملہ خلاءمیں حل نہیں کیا جاسکتا، معاشرے اور سیاسی قیادت میں ڈسپلن کی ضرورت ہے۔ فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ آئین زندہ دستاویز ہے، تشریح زمینی حالات پر ہی ہوسکتی ہے، موجودہ حالات میں جمہوریت اور ملک کیلئے کیا بہتر ہے وہ تعین کرنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سیاسی جماعتیں سٹیک ہولڈرز ہیں، انہیں لازمی سنا جائے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ یہ سوال پارلیمنٹ میں کیوں نہیں اٹھایا جاتا۔ جس پر فاروق نائیک نے کہا کہ معاملہ پارلیمان میں اٹھانے کا بھی سوچ رہے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے 2 ججز نے پہلے فیصلہ دیا، فیصلہ اگر 4-3 ہوا تو حکم کا وجود ہی نہیں جس کی خلاف ورزی ہوئی، عدالتی حکم نہیں تھا تو صدر مملکت تاریخ بھی نہیں دے سکتے تھے، یکم مارچ کے عدالتی حکم کو پہلے طے کر لیا جائے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اس وقت سوال فیصلے کا نہیں الیکشن کمیشن کے اختیار کا ہے، عدالتی فیصلے کا معاملہ اٹھانا ہے تو الگ سے درخواست دائر کریں، اس وقت مقدمہ تاریخ دینے کا نہیں بلکہ منسوخ کرنے کا ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا ہے کہ دیکھنا ہے کہ الیکشن کمیشن کو اختیار تھا یا نہیں، جمہوریت کیلئے انتخابات ضروری ہیں، الیکشن کمیشن نے مفروضے پر مبنی 8 اکتوبر کی تاریخ دی۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ جائزہ لینا ہے کہ دی گئی تاریخ کی قانونی حیثیت ہے یا نہیں؟، الیکشن کمیشن یا کوئی اور کون ہوتا ہے جو ڈکٹیشن دے کہ اسمبلی تحلیل کر سکتے ہیں یا نہیں؟۔ ان کا اٹارنی جنرل کے دلائل پر اعتراض کرتے ہوئے کہنا ہے کہ دو ججز کے فیصلے کا اس مقدمہ سے تعلق نہیں ہے، فیصلہ کتنی اکثریت کا ہے اس کا جائزہ بعد میں لیا جا سکتا ہے، فی الحال سنجیدہ معاملات سے توجہ نہ ہٹائی جائے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ موجودہ کیس میں استدعا ہی ا±س فیصلے پر عملدرآمد کی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بینچ کے ارکان درخواست میں اٹھائے گئے سوال کا جائزہ لینے بیٹھے ہیں، آپ کا انحصار تکنیکی نکتے پر ہے، سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار درخواست تک محدود نہیں ہوتا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے مزید کہا کہ فیصلے پر عملدرآمد ہوچکا ہے۔ اٹارنی جنرل نے دلیل دی کہ موجودہ درخواست کے قابل سماعت ہونے کا بھی نکتہ اٹھانا ہے۔ منصور عثمان نے فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا کر دی اور کہا کہ مناسب ہوگا فل کورٹ اس معاملے کو سنے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ عدالتی فیصلہ کتنے ارکان کا ہے یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے یہ بتائیں کہ کیا 90 روز میں انتخابات کرانا آئینی تقاضا نہیں؟۔ کیا الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ منسوخ کر سکتا ہے؟۔ چیف جسٹس نے کہا کہ تمام قومی اداروں کا احترام لازمی ہے۔ پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ ہر ادارے کو اپنی آئینی حدود میں کام کرنا ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کی اعلیٰ قیادت سے بھی ایسے رویے کی توقع ہے، پہل تحریک انصاف کو کرنا ہوگی کیونکہ عدالت میں وہ آئے ہیں۔چیف جسٹس کا مزید کہنا ہے کہ ملک میں اس وقت تشدد اور عدم برداشت ہے، معاشی حالات دیکھیں آٹے کیلئے لائنیں لگی ہوئی ہیں، آپس میں دست و گریبان ہونے کے بجائے ان لوگوں کا سوچیں۔ جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ انتخابات تاخیر کا شکار ہوئے تو یہ بحران مزید بڑھے گا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عدالتی فیصلے پر عمل ہوچکا ہے، صدر کی تاریخ پر الیکشن کمیشن نے شیڈول جاری کیا، کیا الیکشن کمیشن کو صدر کی تاریخ بدلنے کا اختیار ہے؟، کیا الیکشن کمیشن 90 دن سے زیادہ کی تاخیر کر سکتا ہے؟بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے پنجاب کی حد تک عدالتی فیصلے پر عمل کیا۔ چیف جسٹس نے پوچھا کیا الیکشن کمیشن کے پاس تاریخ کا تعین کرنے کا اختیار ہے؟کیا الیکشن کمیشن صدر کی دی ہوئی تاریخ کو تبدیل کرسکتا ہے؟، الیکشن ایکٹ کا سیکشن 58 انتحابات منسوخ کرنے کی اجازت نہیں دیتاپی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے آئین کے 2 آرٹیکلز کا سہارا لیا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے وجوہات بتا کر کہا آئینی ذمہ داری ادا کرنے سے قاصر ہیں، اگر الیکشن کمیشن 8 اکتوبر کی تاریخ نہ دیتا تو کیا ہوتا؟ جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن تاریح تبدیل کرنے کیلئے صدر سے رجوع کرسکتا تھا، وجوہات ٹھوس ہوں تو ہی الیکشن کمیشن رجوع کرسکتا ہے، تمام انتظامی ادارے الیکشن کمیشن سے تعاون کے پابند ہیں۔ چیف جسٹس عمر عطاءبندیال نے کہا کہ ملک معاشی بحران سے گزر رہا ہے، نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، بحران سے نمٹنے کیلئے قربانی دینا ہوتی ہے، 5 فیصد تنخواہ کٹنے سے الیکشن کا خرچہ نکل سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کے لیے پورے بجٹ کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ 20 ارب کا کٹ ہماری تنخواہوں پر بھی لگایا جاسکتا ہے۔ حکومت اخراجات کم کر کے 20 ارب نکال سکتی ہے۔ ملک معاشی بحران سے گزر رہا ہے، اسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ بحران سے نمٹنے کے لیے قربانی دینا ہوتی ہے۔ 5 فیصد تنخواہ کٹنے سے الیکشن کا خرچہ نکل سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کے پی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سب سے زیادہ آپریشن کئے، پنجاب میں اب تک صرف 61 آپریشن ہوئے ہیں، سندھ میں 367 جبکہ خیبرپختونخوا میں 1245 آپریشن ہوئے۔ چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ پنجاب کی صورتحال خیبرپختونخوا سے مختلف ہے، ترکی میں زلزلہ متاثرہ علاقوں کے علاوہ ہر جگہ الیکشن ہورہے ہیں، ایمرجنسی لگا کر ہی الیکشن ملتوی کئے جا سکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن کا فیصلہ ایمرجنسی نافذ کرنے کی بات کرتا ہے؟، جس پر علی ظفر نے جواب دیا کہ ابسلوٹلی ناٹ!۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ابسولوٹلی ناٹ تو آپ نے کسی اور سے کہا تھا، جس پر عدالت میں قہقہے لگ گئے۔ بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیئے کہ آرٹیکل 220 تمام حکومتوں اور اداروں کو تعاون کا پابند کرتا ہے، الیکشن کمیشن نے صرف اداروں سے مو¿قف لے کر فیصلہ لکھ دیا، عدالت الیکشن کمیشن سے پوچھے کہ آئینی اختیار استعمال کیوں نہیں کیا؟، انتظامی ادارے تعاون نہ کریں تو آرٹیکل 5 کا اطلاق ہوگا، ہر ادارہ آئین اور قانون پر عمل کرنے کا پابند ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کی تاریخ پہلے ہی 90 دن کے بعد کی تھی، کیا 90 دن بعد کی تاریخ درست تھی؟، صدر نے بھی الیکشن تاریخ 90 دن کے بعد کی دی۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اب بھی عدالت حکم دے تو 90 دن میں الیکشن نہیں ہوسکتا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے مزید کہا کہ آرٹیکل 254 کا سہارا کام ہونے کے بعد لیا جا سکتا ہے پہلے نہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عملی طور پر الیکشن 90 دن میں ممکن نہ ہوں تو عدالت حکم دے سکتی ہے۔ جسٹس منیب اختر نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ انتخابات ممکن نہیں تھے تو الیکشن کمیشن کو عدالت سے رجوع کرنا چاہئے تھا، ایک شیڈول کے دوران دوسری اسمبلی تحلیل ہو جائے تو ایک ہی دن پولنگ کیلئے رجوع کیا جاسکتا ہے، الیکشن کمیشن ازخود ایسا حکم جاری نہیں کرسکتا، الیکشن کمیشن 6 ماہ الیکشن آگے کرسکتا ہے تو 2 سال بھی کرسکے گا۔ جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ انتخابات آگے کون لے جاسکتا ہے یہاں آئین خاموش ہے، کیا پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم نہیں کرنی چاہئے۔ جسٹس منیب نے کہا کہ پارلیمنٹ ترمیم کرلے تو یہ سب سے اچھا ہوگا، سوال یہ ہے کہ ترمیم ہونے تک جو انتخابات ہونے ہیں ان کا کیا ہوگا؟۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ جس بنیاد پر الیکشن ملتوی ہوئے اس طرح تو کبھی الیکشن نہیں ہوسکتے۔ جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ اگر فنڈز کا معاملہ ہے تو نگران حکومت فنڈز کیسے دے گی؟۔ جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا ہے کہ جو مسائل آج ہیں وہ 8 اکتوبر کو کیسے نہیں ہوں گے؟۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن نے وہ اختیار استعمال کیا جو اس کا تھا ہی نہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا ہے کہ کیا بجٹ میں انتحابات کیلئے فنڈز مختص ہیں، اگر فنڈز نہیں ہیں تو فنڈز لینے کا طریقہ کار آئین میں درج ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا حکم نامہ چیلنج کیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے اضافی دستاویز جمع کرانے کیلئے وقت مانگ لیا، وکیل نے کہا کہ کل تک وقت دیں اجلاسوں کے منٹس پیش کرنا چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس نے وقت دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ کل تک کا وقت نہیں دے سکتے، آپ دلائل کا آغاز کریں، کل دوبارہ موقع دے دیں گے۔ مسلم لیگ ن کے وکیل اکرم شیخ بھی عدالت میں پیش ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت نے سیاسی جماعتوں کو بھی سننے کا کہا تھا، عدالت فریق بنائے، تحریری جواب کے بغیر کیسے سن سکتی ہے؟۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے قانونی نکتے طے ہو جائیں پھر آپ کو بھی موقع دیں گے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا 20 ارب روپے جمع کرنا حکومت کیلئے مشکل کام ہے؟، کیا عام انتحابات کی کوئی اہمیت نہیں ہے؟، اراکین کو فنڈز دینا عدالتی حکم کی بھی خلاف ورزی ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا معاملہ ترجیحات کا ہے، لیپ ٹاپ کیلئے 10 ارب نکل سکتے ہیں تو الیکشن کیلئے 20 ارب کیوں نہیں۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وزرات دفاع نے کہا ہے کہ سکیورٹی حالات کے باعث فوج نہیں دے سکتے۔ جسٹس منیب اختر نے پوچھا کہ کیا گارنٹی ہے کہ اکتوبر میں حالات ٹھیک ہو جائیں گے؟، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ شاید الیکشن کمیشن نے سوچا ہو تمام اسمبلیوں کی مدت اکتوبر میں مکمل ہوجائے گی۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ فوج کی نقل و حرکت پر بھی اخراجات ہوتے ہیں، کیا یہ ایسا مسئلہ ہے جسے حل نہیں کیا جاسکتا؟، دہشت گردی کا مسئلہ 90ءکی دہائی سے ہے، کیا تب الیکشن نہیں ہوئے؟ کئی سیاسی لیڈرز کی جانیں قربان ہوئیں، بے نظیر کی شہادت بڑا سانحہ تھا، ان تمام حالات کے باوجود انتحابات ہوتے رہے ہیں۔ جسٹس منیب اختر نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کیا ہم سمجھیں قوم دہشت گردوں کے ہاتھوں یرغمال ہے، کیا پھر یہ ملک ”بنانا ریپبلک“ بن گیا ہے، مسلح افواج حکومت کے ماتحت ہیں، کیسے کہہ سکتے ہم نہیں کرتے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ ڈیوٹی کرنے میں کیا مسئلہ ہے؟ ڈیوٹی تو ڈیوٹی ہے، فوج کا کام ہی سکیورٹی فراہم کرنا ہے، جب الیکشن ہوں تو فوج کا کام ہے سکیورٹی دے۔ بعدازاں عدالت نے سماعت آج ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی۔

ای پیپر دی نیشن