اسلام آباد (نامہ نگار) وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ لاڈلے کو پاکستان سے کھلواڑ کی اجازت نہیں دی جائے، قانون بہر حال اپنا راستہ بنائے گا، بہت ہوگیا، پلوں سے بہت پانی بہہ گیا، لاڈلا ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر تحکمانہ انداز میں بات کرتا ہے، اس نے آئین و قانون کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا ہے، آج ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا ہم آنکھیں بند کر کے گائیں بھینس کی طرح ہانکے جائیں گے یا پھر قانون اور آئین کی حکمرانی پر کاربند ہوں گے، سپریم کورٹ کے دو ججز کا فیصلہ آیا، عدلیہ کے اندر سے اٹھنے والی آوازیں امید کی نئی کرن ہیں، اگر کل کے فیصلے کے بعد ہم نے قانون سازی نہیں کی تو مورخ ہمیں معاف نہیں کرے گا، آنے والی نسلیں معاف نہیں کریں گی۔ منگل کو قومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر راجہ پرویز اشرف کی صدارت میں ہوا۔ قومی اسمبلی میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ گزشتہ سال ہم نے اپنی سیاست کو داﺅ پر لگایا تا کہ ملکی مفاد کو بالاتر رکھا جاسکے۔ آئین نے اداروں کے درمیان اختیارات کو واضح کردیا ہے کہ عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ کے کون کون سے اختیارات ہیں اور ریڈ لائن لگا دی کہ اسے کوئی عبور نہیں کرسکے گا۔ لیکن بعد میں تاریخ میں کیا کیا واقعات ہوئے وہ سب کے سامنے ہیں۔ آج اس آئین کا سنگین مذاق اڑایا جارہا ہے، اس آئین میں موجود اختیارات کی دھجیاں بکھیری جارہی ہیں، ایک لاڈلا کسی عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوتا، جتنے اسے حاضری کے نوٹس ملتے ہیں اس پر مختلف عدالتوں سے توسیع حاصل کرلی جاتی ہیں۔ جب ہم اپوزیشن میں تھے تو کس طرح اپوزیشن اراکین اور ان کے خاندان کی وچ ہنٹنگ کی گئی، جھوٹے مقدمات بنائے گئے اور انہیں جیلوں میں ڈالا گیا، کسی نے نوٹس نہیں لیا۔ آج ایک لاڈلہ تحکمانہ انداز میں بات کرتا ہے اور آئین و قانون کو ردی کی ٹوکری میں ڈالتا ہے لیکن کسی نے نوٹس نہیں لیا، یہ وہی لاڈلا ہے جس نے اسی پارلیمنٹ پر دھاوا بولا تھا۔ جس کے حواریوں نے گندے کپڑے سپریم کورٹ پر لٹکائے، قبریں کھودیں اور ایوان کو گالیاں دی تھیں۔ لیکن اس کے باوجود تنخواہ جیب میں ڈالتا رہا۔ شہباز شریف نے کہا کہ کہا گیا کہ یہ حکومت امریکی سازش کے نتیجے میں قائم ہوئی ہے، کئی ماہ یہ شخص یہ جھوٹ پوری قوم کے آگے بولتا رہا اور ایک طبقہ یہ سمجھنا شروع ہوگیا کہ واقعی یہ امریکا کی سازش ہے اور یہ حکومت امپورٹڈ حکومت ہے لیکن چند ہفتے قبل قلابازی کھائی اور کہا کہ امریکا کی سازش نہیں تھی اپنوں کی سازش تھی۔ انہوں نے کہا کہ بڑے بڑے افلاطون آئے ہوں گے، ڈرامے باز آئے ہوں گے لیکن اس طرح کا ٹوپی ڈرامہ شاید ہی کسی نے کیا ہو اور پاکستان کی بنیادیں ہلا دیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے پاکستان نے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی تمام شرائط مکمل کردی ہیں اور اب ہمیں دوست ممالک سے وعدوں کو پورا کرانے کا کہا جارہا ہے۔ لاڈلے کی حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ جو معاہدہ کیا اس کی خلاف ورزی ہم نے نہیں بلکہ عمران نیازی نے کی اور پاکستان کو دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچا دیا۔ بڑی مشکل سے اس مخلوط حکومت نے ملک کو دیوالیہ ہونے کے خطرے سے بچایا۔ ہم آئی ایم ایف کے ساتھ پوری طرح رابطے میں ہیں لیکن جو وعدوں کی خلاف ورزیاں ہوئیں آج آئی ایم ایف ہم سے قدم قدم پر ضمانتیں لینا چاہتا ہے جو دی جارہی ہیں۔ وزیر خزانہ اسحق ڈار کی کوششوں کی بدولت آئی ایم ایف کی تمام شرائط مکمل کردی گئی ہیں لیکن اب ہمیں یہ کہا جارہا ہے دوست ممالک سے جو وعدے ہیں انہیں پورا کیا جائے، اسے بھی ہم پورا کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ عمران نیازی کے 4 سالہ دور میں پاکستان کا قرض 70 فیصد بڑھ گیا، ایک نئی اینٹ نہیں لگائی البتہ اکھاڑی ضرور گئی، کروڑوں نوکریوں اور مکانات کا وعدہ کیا گیا اور کرپشن، مہنگائی کے انبار لگا دیے۔ ہماری حکومت کے وزیر خارجہ اور درجہ بدرجہ سب 11 ماہ بعد بھی دوست ممالک کو راضی کرنے میں لگے ہیں، امریکا سے بہتر تعلقات پر دن رات کوششیں کررہے ہیں، لیکن جو تباہی اس شخص نے خارجہ محاذ پر کی اسے بیان نہیں کیا جاسکتا۔ برادر ممالک کے زعما کو ناراض کیا گیا، ہم 11 مہینوں سے انہیں راضی کرنے پر لگے ہیں کہ وہ ایک غیر سنجیدہ آدمی تھا جس نے پاکستان کے تعلقات کو تباہ و برباد کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آج اسی عمران نیازی نے لاکھوں ڈالر سے لابنگ کمپنیز ہائر کرلی ہیں جن کے ذریعے پاکستان کے خلاف کیا کیا ناٹک رچایا جارہا ہے، وہاں کچھ لوگوں کو تیار کر کے بیانات دلوائے جارہے ہیں۔ ایک شخص جس کا میں نام نہیں لینا چاہتا اسے کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرے۔ یہ وہی شخص تھا جو کہتا کہ اپوزیشن والے چور ڈاکو ہیں انہیں سفارتکاروں سے ملنے کا کوئی حق نہیں، آج دن رات میٹنگز ہورہی ہیں، کس منہ سے یہ شخص دن رات یہ باتیں کرتا ہے جس کی تردید بھی خود کرتا ہے۔ یہ وہ حالات ہیں کہ قوم کے اندر تقسیم در تقسیم کردی گئی ہے اور اس لاڈلے کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس لاڈلے کو پاکستان سے کھلواڑ کی اجازت نہیں دی جائے، قانون بہر حال اپنا راستہ بنائے گا، بہت ہوگیا، پلوں سے بہت پانی بہہ گیا۔ انہوں نے کہا کہ کبھی آپ نے یہ دیکھا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے قانونی ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے جائیں اور ان پر پیٹرول بم پھینکے جائیں، ان کی گاڑیوں کو آگ لگادی جائے اور کوئی پوچھنے والا نہ ہو، ضمانتوں پر ضمانتیں ملیں، یہ تو جنگل کا قانون ہے، یہ آئین کو دفن کرنے کی مذموم سازش ہے۔ اس ہاﺅس کو ان معاملات کا فی الفور نوٹس لینا ہوگا، 29 نومبر کو پاکستان کے نئے سپہ سالار کا انتخاب ہوا، جو وزیراعظم کا اختیار تھا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ وہ کابینہ کا اختیار ہے اور بلا خوف تردید کہتا ہوں کہ میں نے اپنے ساتھیوں سے پوری مشاورت کے ساتھ جنرل عاصم منیر کو سپہ سالار بنانے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جس طرح ہم ہر ہفتے کابینہ میں ہر معاملہ لے کر جاتے ہیں، باقی اداروں کو بھی کابینہ میں فیصلے کرنے چاہئیں، اگر یہ کام ہم کررہے ہیں تو باقی کیوں نہیں کرسکتے۔ آرمی چیف اور جوائنٹ چیف آف آرمی سٹاف کی تعیناتی کا فیصلہ 100 فیصد میرٹ پر ہوا۔ لیکن آج لندن میں پی ٹی آئی کے ٹرولز جس طرح افواج کی قیادت کے خلاف وحشیانہ زبان استعمال کررہے ہیں 75 برس میں کوئی سوچ نہیں سکتا تھا۔ آج بھارت سے زیادہ کون خوش ہوگا، ہمارے دشمنوں کو اور کیا چاہیے، جس ملک نے آپ کو بنایا، پڑھایا لکھایا آج دشمن سے بھی بڑھ کر اس پر وار کررہے ہیں، ہم اس کی اجازت نہیں دے سکتے۔ اگر اجازت دی گئی تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ اس ایوان کو اس پر ٹھوس لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا قبل اس کے کہ دیر ہوجائے۔ شہباز شریف نے کہا کہ توشہ خانہ سے گھڑی لے کر دبئی میں بیچی گئی اس کیس کا کیا ہوا؟۔ دن رات ضمانتیں ہورہی ہیں۔ ایک لمبی لیز ملی ہوئی ہے۔ اگر یہ ہے وہ انصاف کا نظام تو اس ملک کا خدا حافظ ہے، پاکستان کے طول و عرض میں ہر عدالت انہیں ضمانت دے رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک آڈیو میں سپریم کورٹ کے جج کے بارے میں انکشافات کیے گئے، معلوم نہیں کہ وہ حقائق پر مبنی ہیں کہ نہیں لیکن میں چیف جسٹس سے گزارش کروں گا کہ اس آڈیو کا فرانزیک کرائیں کہ اگر جھوٹی ہے تو قوم کو پتا چلنا چاہیے اور اگر سچی ہے تو سچ سامنے آنا چاہیے۔ ہمارے ہاتھ باندھ کر ہمیں عدالتوں میں کھڑا کیا جاتا تھا چاہے کوئی بیمار ہو، کوئی پرواہ کیے بغیر ہمیں انسداد دہشت گردی عدالتوں کی گاڑیوں میں لے جایا جاتا تھا، وہاں تحکمانہ انداز میں عدالتوں کو ڈکٹیٹ کیا جاتا تھا، واٹس ایپ کے ذریعے ججز تبدیل ہوتے تھے۔ جن کے خلاف یہ مقدمات بنائے گئے کسی کے سامنے سزا دلوانے کے لیے کوئی ثبوت نہیں آیا۔ لیکن اگر ان جج صاحب کے خلاف کوئی ثبوت ہے تو ہاتھ کنگن کو آرسی کیا، سیاستدان تو ایک منٹ میں جیلوں میں جاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ معاشرے میں معزز، امانت دار، خوف خدا رکھنے والے لوگ بھی ہوتے ہیں اور خائن، سازشی، برباد کرنے والے اور جھوٹے افراد بھی ہوتے ہیں، آج تک اعلی عدلیہ کے کتنے ججز کرپشن پر نکالے گئے؟۔ گزشتہ 40 برس میں ماسوائے شیخ شوکت اور چند ایک اور ججز کے کتنے ججز کو کرپشن پر نکالا گیا۔ سیاستدانوں کے خلاف آنکھیں بند کر کے آمدن سے زائد اثاثوں کے مقدمات بن جاتے ہیں اور وہ سالہا سال رلتے رہتے ہیں، یہ وہ غیر منصفانہ نظام ہے جس سے 70 سال بعد پاکستان کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے۔ کوئی بڑے سے بڑا لیڈر اس طرح کی بات کرتا تو آج اسے کالے پانی میں پہنچا دیا گیا ہوتا یا دیوار میں زندہ چن دیا گیا ہوتا۔ وزیراعظم نے کہا کہ آج لاڈلے کو سب نے دیکھا کہ دہشت گرد آئے۔ انہوں نے سارا کام کیا اور کسی نے چوں تک نہ کی، کس طرح عمران نیازی نے 2021 میں دہشت گردوں کو واپس لے کر آیا اور انہیں پیشکشیں کی اور انہیں سوات اور دیگر علاقوں میں بسایا گیا۔ جس کے بعد دہشت گردی نے پھر سر اٹھایا۔ ان کا کہنا تھا کہ کس طرح پاکستان کے بے گناہ بھائی بہن ماں، پولیس اہلکاروں، فوج کے افسروں نے جامِ شہادت نوش کیا، تو انہیں کون لے کر آیا اس کی تحقیق ہونی چاہیے۔ وزیراعظم نے کہا کہ جب اس ایوان میں پارلیمانی قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا تھا تو اراکین نے ڈنکے کی چوٹ پر کہا تھا کہ یہ نہ کریں، دہشت گرد دہشت گرد ہوتا ہے کوئی اچھا برا نہیں، لیکن یہی بتایا گیا کہ ہم طاقتور ہیں، ہم سنبھال لیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ان کیمرہ میٹنگ کی وجہ سے میں زیادہ تفصیلات نہیں بتاسکتا لیکن آخر کیا مقاصد تھے کہ ان کو لاکر 2018 کے الیکشن کی طرح دوبارہ جھرلو چلوانا تھا اور ایک پارٹی کو فائدہ دلوانا تھا، یہ وہ چبھتے سوال ہیں جن کا جواب ملنے تک قوم اندھیروں میں بھٹکتی رہے گی۔ شہباز شریف نے کہا کہ 1973 کے آئین کو بنے ہوئے 50 سال ہوگئے ہیں، 1971ءکے سانحے میں پوری قوم کے لیے سبق تھا، آئین نے مقننہ، عدلیہ، انتظامیہ کے اختیارات واضح کر دیے، پچھلے برس ہم اپوزیشن بینچوں پر بیٹھے تھے، اتحادی جماعتوں نے ریاست کو بچانے کے لیے سیاست کو داﺅ پر لگایا۔ آج آئین کا سنگین مذاق بنایا جا رہا ہے۔ شہباز شریف نے کہا کہ لاڈلا ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر تحکمانہ انداز میں بات کرتا ہے، اس نے آئین و قانون کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس شخص نے خاتون جج کے بارے میں کیا کہا کسی نے نوٹس نہیں لیا۔ وزیر اعظم نے کہا ہے کہ قوم کی بیٹی کو چاند رات کو گرفتار کیا گیا، کسی نے نوٹس نہیں لیا، تحریک انصاف نے فوج کے خلاف منظم مہم چلائی، بیرون ملک آرمی چیف کے خلاف مظاہرے کرائے، عمران خان کو پاکستان سے کھلواڑ کی اجازت نہیں دیں گے، ایوان کو ان معاملات کا فی الفور نوٹس لینا ہو گا، عمران خان کے بارے میں فیصلہ کرنا ہو گا۔ شہباز شریف کا کہنا ہے کہ ڈیوٹی کے دوران ایک بریگیڈیئر لیول کا افسر شہید ہوا، 80 ہزار پاکستانیوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربانیاں دیں، آج یہ نیازی دہشت گردوں کو اپنی شیلڈ بنا رہا ہے، ویڈیوز اور تصاویر منگوا کر دکھ لیں، میں آج بطور پاکستانی، پارلیمنٹیرین گزارش کر رہا ہوں کہ اس ہاﺅس کو ان معاملات کا فوری نوٹس لینا چاہیے۔ شہباز شریف نے کہا کہ قانون اور آئین کی حکمرانی کے لیے وہ فیصلے کریں کہ آئندہ نسلیں یاد رکھیں، اجتماعی دانشمندی سے ہمیں یکجا ہوکر فیصلہ کرنا ہوگا، جو جتھوں کے ساتھ عدلیہ کو بلیک میل کرتا ہے اس کی پذیرائی ہے، ایک شخص کے لئے صبح دوپہر رات عدالتیں کھلتی اور ضمانتیں ہوتی ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس شخص میں پتھر کا دل ہے پاکستانیت نہیں، عمران نیازی تاریخ کا سب سے بڑا فراڈیا ہے۔ جو ریاست مدینہ کے نام پر دھوکا دے، آئین اور قانون نہ مانے اس سے بات نہیں ہوسکتی، عمران خان کو قانون کی حکمرانی کا اتنا ہی درد تھا تو قوم سے معافی مانگیں۔ اس کے بعد مل کر بیٹھنے کے لیے تیار ہیں۔ شہباز شریف نے کہا کہ انتخابات کے از خود نوٹس کیس میں عدالت عظمی کے دو ججز کا فیصلہ آیا، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل کا انتخابات سے متعلق فیصلہ 4 اور تین ججز کا فیصلہ ہے، دونوں معزز ججز نے انتہائی اہم نکات اٹھائے، پارلیمان سپریم کورٹ ججز کے کل کے فیصلے کو دیکھے کہ اس پر ہم کیا قانون سازی کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ کے اندر سے اٹھنے والی آوازیں امید کی نئی کرن ہے، کل کے فیصلے کے بعد ہم نے قانون سازی نہ کی تو مورخ معاف نہیں کرے گا۔ اس موقع پر وزیر اعظم شہباز شریف نے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل کا کل کا فیصلہ ایوان میں پڑھ دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ کروڑوں لوگوں کو انصاف دینا ہے یا ایک لاڈلے کو، اس ملک کو بند گلی میں جانے سے روک دیں، جس کے لیے ریاست کے تینوں پلرز کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ آئین نے اداروں کے درمیان اختیارات کو واضح کردیا ہے کہ عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ کا کون کون سے اختیارات ہیں اور ریڈ لائن لگادی کہ اسے کوئی عبور نہیں کرسکے گا لیکن بعد میں تاریخ میں کیا کیا واقعات ہوئے وہ سب کے سامنے ہیں۔ شہباز شریف نے کہا کہ کل 2 ججز نے کہا کہ الیکشن شے متعلق فیصلہ 3 کے مقابلے 4 کی اکثریت کا تھا اور انہوں نے اپنے فیصلے میں کئی سوالات اٹھائے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے بعد وقت کی اشد ضرورت ہے کہ ہم اس ایوان میں بیٹھیں اور اپنی معروضات پیش کریں کہ کل جو فیصلہ آیا اس کے حوالے سے پارلیمان کیا قانون سازی کر سکتی ہے کیوں کہ پارلیمان کو ملکی مفاد میں ہر طرح کی قانون سازی کا اختیار ہے۔ وزیراعظم نے کہا عدلیہ کے اندر سے اٹھنے والی یہ آوازیں امید کی نئی کرن ہیں۔ جب عدل نظر آئے تو اس ملک میں تمام خطروں کے بادل چھٹ جائیں گے اور ترازو کا توازن جنگل کے قانون کو بدلے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج ججز کے نام گلی محلوں کے بچوں کے منہ پر ہیں۔ اگر ہمیں اسے ختم کرنا ہے تو انصاف کا بول بالا ہونا چاہیے۔ اس کے لیے قانون، آئین ہمیں اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ہم قانون سازی کریں۔ وزیراعظم نے کہا کہ اگر کل کے فیصلے کے بعد ہم نے قانون سازی نہیں کی تو مورخ ہمیں معاف نہیں کرے گا، آنے والی نسلیں معاف نہیں کریں گی۔ اس لیے ہمیں آج یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کروڑوں عوام کو ریلیف دلانا ہے یا ایک لاڈلے کو ریلیف دینا ہے، آئین و قانون پر عمل کرنا ہے یا جنگل کے قانون کو ملک میں چلتے رہنا ہے۔ گزشتہ سال ہم نے اپنی سیاست کو داءپر لگایا تا کہ ملکی مفاد کو بالاتر رکھا جاسکے۔ وزیراعظم نے کہا کہ جو ریاست مدینہ کا نام لے کر قوم کو دھوکا دے اور دوسروں کو چور اور ڈکو کہے اور خانہ کعبہ کے ماڈل کی گھڑی کو بیچ دے، جو قانون و آئین کو نہ مانے اس سے بات نہیں ہوسکتی۔ جب تک کہ وہ قوم کے سامنے یہ تسلیم نہ کرے کہ میرے ماضی کی وجہ سے قوم کو، آئین، جمہور، عدلیہ کو زک پہنچی ہے اور اس پر معافی مانگتا ہوں۔ تو پھر ہم سب بیٹھ کر مشورہ کرلیں گے، کیوں کہ ہمارے پاس توپیں، چھڑیاں نہیں صرف شائستہ زبان، آئین و قانون ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب وہ (عمران خان) بار بار کہتا ہے کہ شہباز شریف نے یہ کہا تھا، میثاق معیشت کہا تھا تو اس کا کیا جواب آتا رہا، اب آئے اور پوری قوم سے معافی مانگے کہ میں نے اس اس کے خلاف یہ غلط بات کی جس پر معافی مانگتا ہوں پھر تو ایک طریقہ ہے، لیکن ایسے ہم بچھے جائیں یہ ممکن نہیں، وقت ضائع ہورہا ہے، قومیں کہاں پہنچ گئی ہیں اور ہم اسی چکر میں گھومیں جارہے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ آئین نے اداروں کے درمیان پاور کی تقسیم کی۔ اس نے ریڈ لائن لگا دی کہ اس لائن کو کوئی عبور نہیں کر سکے گا مگر تاریخ کے واقعات ہم سب کے سامنے ہیں۔ آج آئین کا سنگین مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ آئین میں موجود مقننہ اور عدلیہ کے اختیارات کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں۔ مزید برآں وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف نے فوج کیخلاف منظم مہم چلائی، بیرون ملک آرمی چیف کیخلاف مظاہرے کرائے۔ قومی اسمبلی سے خطاب میں شہباز شریف کا کہنا تھا کہ عمران خان کو پاکستان سے کھلواڑ کی اجازت نہیں دیں گے، ایوان کو ان معاملات کا فوری نوٹس لینا ہوگا، عمران خان کے بارے میں فیصلہ کرنا ہوگا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے عمران خان کے قوم سے معافی مانگنے تک مذاکرات کا امکان مسترد کردیا۔
عدلیہ کے اندر سے آوازیں امید کی کرن ، قانون سازی نہ کی تو مورخ معاف نہیں کرے گا : وزیراعظم
Mar 29, 2023