منصورہ دارالامن، دارالامان 

ہفتہ گزاری کی سب سے جاذب نظر خبر اس پیشکش کی تھی جو جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے دورِ حاضر کے سب سے نڈر لیڈر عمران خان کو کی، یہ کہ اگر اور جگہ آپ کو ڈر لگتا ہے تو منصورے تشریف لے آئیں، یہ دارالامن ہے بلکہ دارالامان ہے۔ 
خان صاحب نے اس پیشکش پر ابھی تک کوئی ردّعمل نہیں دیا، یعنی فیصلہ ”محفوظ“ کر لیا۔ منصورہ دارالامن ہے لیکن خان صاحب نے محفوظ فیصلہ سنا دیا تو ان کے آنے کے بعد بھی کیا۔ یہ دارالامن رہے گا؟۔ یا دار الدنگافساد اور دارالرقص و سرور میں تبدیل نہیں ہو جائے گا۔ 
سراج الحق صاحب نے پیشکش تو کر دی لیکن یہ نہیں سوچا کہ کیا جماعت اسلامی کے بیت المال میں اتنا راس المال ہے کہ اس ”بار امانت“ کو ا±ٹھا سکے؟ 
خان صاحب کے تشریف لانے کامطلب یہ ہو گا کہ پہلے ہاتھ تو منصورہ کے تمام داخلی اور خارجی راستوں پر، ایک ہزار نفری گارڈ جو کہ حکومتی ایلیٹ فورس بلکہ کمانڈر فورس کے معیار سے ذرا بھی کم نہ ہوں، کی تعیناتی کی جائے جو ہر طرح کے رائج الوقت توپ تفننگ سے لیس ہوں۔ دوسرا جزو یہ ہو گا کہ خان صاحب کو کم از کم دس بارہ کنال کا ایک رہائشی یونٹ عطا کیا جائے جس کا ہر کمرہ اور ہر کمرے کا ہرکھڑکی دروازہ بلٹ پروف ہو۔ رہائش گاہ کے اندر باہر سیمنٹ اور ریت کی بوریوں کے بنکر ہوں۔ عین دروازے کے باہر ایک اور مین دروازہ مضبوط اور آہنی سلاخوں والا، کم سے کم دس فٹ اونچا بنایا جائے۔ ایلیٹ فورس جیسی دجنوں بلکہ بیسوں گاڑیاں بکتر بند ہو کرچوبیسوں گھنٹے منصورے کے گرداگرد گشت کریں۔ منصورہ میں جو بھی باہر سے آئے، خواہ وہ سراج الحق ہی کیوں نہ ہو ، حقیقی آزادی کے مجاہدوں کی طرف سے مکمل تلاشی اور ”اوکے“ کا سرٹیفکیٹ پانے کے بعد ہی اندر آ سکے گا۔ مکانات کی چھتوں پر ایسا بندوبست بھی ہو جو مشکوک قسم کے اڑن کھٹولے کی آمد پر نہ صرف خبرداری بلکہ پکڑ داری کا کام بھی سرانجام دے سکے۔ نیز ایک بڑی جامع الصفات پلٹن، مجسّم بہار ایسی موجودات دن کے ہر لمحے ”می رقصم “ کا سماں باندھے رکھے۔ 
____________
صرف اتناہی نہیں، جماعت کے ”مطبخ“ کی ذمہ داریاں بھی بڑھ جائیں گی۔ یعنی خان صاحب کے دسترخواں کا بندوبست۔ 
خان صاحب درویش صفت ہیں، درویشی کھانا کھاتے ہیں اور اتنا کم کہ بس ایک داڑھ برابر۔ 
یعنی کھانا کچھ زیادہ نہیں ہو گا لیکن بندوبست تو روز کے کرنا ہو گا۔ کچھ زیادہ نہیں، امیر جماعت کو ایک ماہر اور مستعد شکاریوں کی ٹیم رکھنا پڑے گی جو روز کے روزایک ہرن اور ڈیڑھ درجن طیور بادوآب کا شکار کر کے لا سکے۔ ان میں تلور، چکور ، تیتر بٹیر، مرغابی، بط، تاز وغیرہ شامل ہوں گے، نیز کچھ اعلیٰ قسم کی تازہ مچھلی، جھینگے اور لالبٹر وغیرہ بھی۔ یہ سب ملا کر ایک داڑھ برابر ہوتے ہیں۔ 
امید ہے جماعت کا بیت المال یہ سب سہار پائے گا۔ نہیں تو پھر سراج الحق کو چاہیے کہ پیشکش واپس لے لیں اور ا س میں جلدی کریں۔ ایسا نہ ہو کہ ان سطورکے چھپتے چھپتے خان صاحب اپنا محفوظ فیصلہ سنا ڈالیں۔ 
____________
سراج الحق عمران خان کے پرانے ہم خیال ہیں۔ ایک روز عمران خان جو بیان جاری فرماتے ہیں، اگلے دن وہی بیان سراج الحق بھی جاری فرما دیتے ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ہے تو ”توارد“ ہی جو اکثر بڑے لوگوں میں ہو جاتا ہے، فرق البتہ اتناہے کہ توارد میں پہل عمران خان کی ہوتی ہے۔ دوسرے دن یہ توارد سراج الحق صاحب پر وارد ہوتا ہے۔ ایک صاحب اسی کو بنیاد بنا کر کہا کرتے ہیں کہ مجھے سراج الحق کے آنے والے کل کے بیان کا پتہ آج ہی چل جاتا ہے، وہ ایسے کہ میں عمران خان کا بیان پڑھ لیتا ہوں اور جان لیتا ہوں کہ سراج الحق کا کل کا بیان کیا ہو گا۔ 
یہ ہم خیالی پنامہ کیس کے دنوں میں عروج پر تھی۔ خان صاحب پنامہ کیس کا فیصلہ آنے کے لیے بہت بے چینی سے منتظر تھے اور ان سے زیادہ بے چین سراج الحق تھے۔ پنامہ سے کچھ نہ نکلا تو اقامہ نکالاگیا اور حق سچ کاڈنکاعدالت نے بجایا تو عمران و سراج ہر دو نے قرار پایا۔ 
____________
خان صاحب بہادر ہیں، اتنے کہ تاریخ میں مثال ایسی بہادری کی ڈھونڈے نہ ملے گی۔ موت سے تو ذرا بھی نہیں ڈرتے۔ یہی وجہ ہے کہ جلسے میں محض دو حفاظتی تہوں پر گزارا کیا۔ ایک بلٹ پروف کھوکھا، دوسرا اس کے اندربلٹ پروف جیکٹ، بس۔ کوئی اور ہوتا تو کیامحض ان دو بلٹ پروف انتظامات پر گزارا کرتا؟۔ وہ تو سات سات تہیں بنوانا، پھر جلسے سے خطاب کرنا۔ یہ خان صاحب ہی کا دل گردہ ہے کہ انہوں نے کہا ، بس ، یہ دو ہی ہیں۔ کار کا معاملہ بھی یہی رہا۔ بلٹ پروف کار کے اوپر محض ایک اور موٹی سلاخوں والا آہنی جنگلہ اور بس۔ 
موت سے بے خوفی ہو تو ایسی ہو، ایمان کی مضبوطی ہو تو وہ بھی ایسی ہو، دو تہوں والی مضبوطی۔ 
____________
مینار پاکستان کا جلسہ بھی خوب رہا۔ ایک روایت اس نے اور توڑ دی۔ 
روایت یہ ہے کہ جلسے کو کامیاب بنانے کی ساری کوششیں جلسے سے پہلے کر لی جاتی ہیں۔ ایک دن پہلے یا سات دن پہلے، یہ جلسے والوں کی مرضی پر موقوف ہے۔ لیکن 25 مارچ کو ہونے والے اس جلسے کی کامیابی کے لیے پوری پارٹی جلسے کے بعد زیادہ سرگرم ہو گئی۔ جلسے کے دوران اور جلسے کے فوراً بعد پارٹی کے لیڈر اور سوشل میڈیا کی ساری ٹیمیں اور ٹی وی شوز پر بیٹھے ہوئے جہاد آزادی کے ہم خیال اینکر پرسن سارے کے سارے سرگرم ہو گئے کہ جلسہ کامیاب تھا۔ جلسہ چھوٹا نہیں تھا، بڑا تھا، بلکہ بہت بڑا تھا۔ ہم نے خود دیکھا، بالکل چھوٹا نہیں تھا، اچھا خاصا تھا، متاثر کن تھا، بالکل ، بہت لوگ تھے ، چھوٹا تو بالکل نہیں تھا۔ 
حالت یہ تک ہوئی کہ پی ٹی آئی کے کسی رہنما یا میڈیا پرسن سے سرراہ ملاقات میں اس سے یہ پوچھ لو کہ جناب ، کیا حال ہے تو جواب میں یہ سننے کو ملتاکہ بہت بڑا تھا، کس نے کہا جلسہ چھوٹا تھا، میں نے خود دیکھا، بالکل چھوٹانہیںتھا۔ پوچھنے والا کہتا کہ میاں جلسے کا نہیں، آپ کا حال پوچھا ہے تو جواب ملتا کہ حال ہی تو بتا رہا ہوں۔ 
صرف یہی نہیں، 2011ءسے 2019ءتک کے پرانے اور بڑے جلسوں کی وڈیوز 25 مارچ 2023ئ کا جلسہ بناکر سوشل میڈیا کو بھر دیا گیا۔ کچھ نے تو سٹیڈیم کے ، بعض نے کراچی پشاور کے جلسے بھی شیئر کر دئیے۔ کمال سب سے زیادہ اس نے کیا جس نے ویٹکن سٹی کی سالانہ سروس، وہی پوپ کے خطاب والی، 25 مارچ کے مینار پاکستان کا جلسہ بناکر اپ لوڈ کر دی ارے بھئی، اب مہم بس کرو، ہمیں یقین ہوا ، ہم کو اعتبار آیا کہ جلسہ چھوٹا نہیں تھا۔ 
____________
ایک بات بہت اہم اس جلسے کی یہ تھی کہ خان صاحب نے اور پنڈی والے شیخ صاحب نے جو تقریریں کیں، وہ ویسے تو بہت دھواں دار تھیں لیکن خانہ جنگی، گھیراﺅ جلاﺅ‘ خون کی ندیوں اور انقلاب ایران کی خبروں سے یکسر خالی تھیں۔ 
خان صاحب نے کہا ، تصاویر نہیں، الیکشن چاہتے ہیں۔ 
مطلب وہ خانہ جنگی اور سری لنکا والے انقلابی باب بند؟ خونی انقلاب کا پاندان ایک طرف رکھ دیا گیا ہے۔ کیاخبر، اٹھاکر باہر پھینک ہی نہ دیا ہو۔ 

ای پیپر دی نیشن