عوام کی خدمت کے نام پر چونا لگانے والے

ڈاکٹر عارفہ صبح خان 
تجاہلِ عارفانہ 

عوام کی خدمت کے نام پر چونا لگانے والے 

حکمرانوں اور سیاستدانوں نے عوام کو الو بنانے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ ابھی حال ہی میں چین نے پاکستان کو بھاری امداد دی ہے جو تین قسطوں میں مسلسل جاری ہے۔ اس کے علاوہ بھی دو ممالک نے اسی عرصہ میں امدادیں دی ہیں۔ چھ سات ماہ گزر گئے ہیں کہ حکومت آئی ایم ایف کے کی منتیں خوشامدیں کرنے کے علاوہ خاطر مدارات میں بھی کثیر رقم خرچ کر رہی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں کبھی پاکستانی قوم پر اتنا کڑا وقت نہیں آیا۔ یہان تک کہ 1965ئ اور 1971ئ کی جنگوں میں بھی پاکستانی قوم نے ایسے بدترین لمحات نہیں دیکھے جو آجکل دیکھ رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط پر پوری قوم کا ب±ھرکس نکال دیا ہے۔ جو چیز کل چھ سو روپے کی تھی۔ آج 24 سو روپے کی کر دی ہے۔ تیس چالیس روپے کا نفیس اور اعلیٰ قسم کا ملنے والا کیلا رمضان شریف میں چھ سو روپے کا مل رہا ہے۔ آٹا جو ابھی دو تین سال پہلے 30 روپے کلو مل رہا تھا۔ آج ا±س سے گھٹیا، غیر معیاری اور ناقص آٹا 200 روپے کلو مل رہا ہے جو م±رغی ڈیڑھ سو روپے کی مل رہی تھی۔ وہ 700 روپے کی مل رہی ہے۔ جو دودھ 85 روپے کلو فروخت ہو رہا تھا۔ وہ دو سو روپے مل رہا ہے۔ پاکستان میں موجود ہر آدمی کے ذرائع آمدنی وہی ہیں جو دو سال پہلے تھے۔ نوکری پیشہ افراد اور خاص طور پر پنشنرز میں اضافہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ ہزار یا پانچ ہزار روپے بڑھنے سے یہ 400 گنا مہنگائی عام آدمی کے لیے یہ جان لیوا ہے۔ مزدور طبقہ بیس پچیس ہزار میں کیا کھائے گا اور کیا پیئے گا۔ کیا نہائے گا اور کیا نچوڑے گا۔ حکومت ب±ری طرح ناکام اور بدنام ہو چکی ہے۔ اگر الیکشن ہوتے ہیں تو حکومت کو ووٹ نہیں پڑیں گے۔ خواہ دھاندلی کر لیں یا جو مرضی حربہ اختیار کر لیں۔ سب سے زیادہ بدنامی شہباز شریف کے حصے میں آئی ہے جو ایک بھی اچھی پالیسی نہیں بنا سکے۔ عوام کو ریلیف کی جگہ مسلسل تکلیف میں رکھا ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے عوام میں شدید ردعمل، بغاوت، نفرت اور اشتعال پیدا ہو گیا ہے۔ لوگ سرعام گالیاں دے رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی اپنا دامن بچا کر چل رہی ہے لیکن وہ بھی حکومت کا حصہ ہے۔ اس لیے بدنامی ا±سکے حصے میں بھی آئی ہے۔ فضل الرحمان اپنا دامن صاف بچا کر پچھلی گلی سے نکل لیے ہیں۔ بیٹا داماد اور کچھ رشتہ داروں کو وزارتیں اور عہدے دلوا کر موج میلہ منا رہے ہیں۔ اب کہاں گیا ا±ن کا اسلام کا بھاشن۔ باقی رہ گئی ایم کیو ایم وہ ہمیشہ ہر حکومت میں وزارتوں کے مزے بھی لوٹتی ہے، مراعات بھی لیتی ہے اور پھڈے بازیاں بھی کرتی ہے۔ جماعت اسلامی پورا مہینہ پریس ریلیزوں اور ایک دو جلسے کر کے اپنی دکان مزے سے چلاتی رہتی ہے۔ اب صورت یہ ہے کہ جس کی وجہ سے معیشت ، کاروبارِ زندگی، اخلاق اور تہذیب کا جنازہ نکلا۔ ا±نہیں رتی بھر شرمندگی اور ندامت نہیں ہے۔ ایک اناڑی اور کھلاڑی نے پورا ملک دا? پر لگا دیا۔ سارا خزانہ کھا گیا۔ توشہ خانہ کو بھی نہیں بخشا۔ اسلام کا چورن مولانا فضل الرحمان سے زیادہ بیچا۔ تین آیتوں کے علاوہ جسے ایک سورة زبانی یاد نہیں۔ وہ مدینہ ریاست کے نام پر عوام کو چ±ونا لگاتا رہا۔ جب اندازہ ہوا کہ اب لوگ اس کی چکنی چیڑی باتوں میں نہیں آئیں گے تو قاتلانہ حملے کا ڈرامہ رچا لیا۔ جب سارے جھوٹ ایک ایک کر کے ک±ھلنے لگے تو مظلوم بننے کے لیے چار گولیوں کا ڈرامہ رچا لیا۔ اگر چار گولیاں لگی تھیں تو کیا چاروں ایک ہی ٹانگ کی پنڈلی میں لگی تھیں۔ ایک آدمی کنٹینر پر کھڑا تھا جس کے آگے ساڑھے چار فٹ کا لوہا لگا تھا لیکن گولی ا±چھل کر پنڈلی میں لگی۔ کوئی گولی سر، گردن، سینے، کندھے، کمر میں نہیں لگی بلکہ کھچا کھچ بھرے کنٹینر میں سے گولی کسی دوسرے آدمی کو لگنے کے بجائے پہلے نیچے گئی پھر عمران خان کی ٹانگ کو ڈھونڈھ کر پنڈلی میں لگی۔ پلستر صرف اسی جگہ لگا رہا جبکہ خود عمران نے کہا کہ دو گولیاں دوسری ٹانگ میں لگی ہیں لیکن ا±س ٹانگ پر نہ پلستر تھا اور پورے جسم کا بوجھ بھی ا±سی ٹانگ پر مزے سے اٹھا رکھا تھا۔ پھر زخمی ٹانگ دوسری ٹانگ پر رکھ کر موصوف گھنٹوں گپ شپ کرتے تھے۔ عدالت جاتے ٹانگ سے چلا نہیں جاتا تھا اور اب اچانک جلسوں میں جانے کے لیے ٹانگ بالکل ٹھیک ہو گئی۔ مینارِ پاکستان میں سیڑھیاں چڑھ کر سٹیج پر بھی پہنچ گئے اور ایک گھنٹہ بلٹ پروف جیکٹ پہن کر، بلٹ پروف سٹیج پر تقریر کرتے ٹانگ کو کچھ نہیں ہوا۔ بلٹ پروف گاڑی اور درجنوں مسلح گارڈز کے ساتھ سٹیج پر آ کر کہتے ہیں کہ خوف کا ب±ت توڑو۔ ا±و بھائی پہلے خود تو خوف کے شکنجے سے باہر آ?۔ خود تو گرفتاری کے خوف سے کبھی باتھ روم اور کبھی سٹور میں جا چھپتے ہو۔ اگر سچے ہو تو گرفتار ہونے سے کیوں ڈرتے ہو۔ ظاہر ہے رات دن ملک کو ل±وٹا اور نوچا کھسوٹا ہے۔ پھر اندر سے تو چور آدمی ڈرتا ہے۔ اپنی حفاظت کے لیے عورتوں کو ڈھال بنانے والا خود کو کس منہ سے لیڈر کہتا ہے۔ جسے اپنی جان کے لالے پڑے ہیں وہ قوم کی کیا حفاظت کرے گا۔ پوری قوم کو مہنگائی اور بیروزگاری میں جھونکنے والا کہتا ہے کہ میں قوم کا مسیحا ہوں۔ میں پاکستان کو ترقی اور کامیابی دوں گا۔ دوسری طرف ایک لیڈر ہے جس کے پلیٹلیس ٹھیک ہونے میں نہیں آ رہے۔ وہ سب کچھ کھاتا پیتا ہے۔ گھومتا پھرتا ہے لیکن پاکستان آنے کے لیے ا±سے اپنے ذاتی ڈاکٹروں کی اجازت چاہیے۔ یہ ڈاکٹرز جناب کے ذاتی غلام ہیں۔ آصف زرداری کے متعلق مشہور ہے کہ انہیں شوگر اور کچھ خفیہ بیماریاں ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ مسلسل بھنڈیاں اور کریلے کھا رہے ہیں۔ حال ہی میں دوبئی میں ا±نکی سرجری ہوئی ہے۔ پھروزیر اعظم شہباز شریف ہیں جن کے متعلق کافی سالوں سے س±ن رہے ہیں کہ انہیں کینسر ہے لیکن جس طرح شہباز شریف کا دماغ چلتا ہے۔ لگتا نہیں کہ ا±نہیں کینسر ہے۔ اب ایک بیمار اور عدالتوں کو مطلوب آدمی اسحاق ڈار کو وزیر خزانہ بنایا گیا ہے جس نے پاکستانی عوام کو سینکڑوں عذابوں میں مبتلا کر دیا ہے۔ آئی ایم ایف سے ابھی تک معاہدہ نہیں ہوا جسے اسحاق ڈار لنگوٹیا یار کہا کرتا تھا۔ عوام پر ہزاروں ٹیکس لگا کر، اندھی مہنگائی کر کے بھی آئی ایم ایف نے ٹھینگا دکھا دیا ہے۔ ٹیکسوں کے پیسوں سے ساری اشرافیہ عیاشیاں کر رہی ہے۔ جھوٹ بول بول کر اور عوام کی آنکھوں میں د±ھول جھونک کر یہ سب مل کر عوام کو چ±ونا لگا رہے ہیں۔ کسی کو عوام سے ہمدردی نہیں۔ کسی کو خوفِ خدا نہیں۔

ای پیپر دی نیشن