فریب سود و زیاں ....حیدر عباس کلیال haiderabbasraja556@gmail.com
بنو عباس کی شان و شوکت والی سلطنت صدیوں سے بھر پور رعب و جلال سے دنیا کے نقشے کے ایک بڑے حصے پہ محیط تھی مضبوط، مستحکم اور طاقتور حکمرانوں کے زیر اثر بغداد دنیا کا علمی، ادبی،تہذیبی اور تجارتی گہوارہ تو تھا ہی ساتھ ساتھ جدید طبی، فلکی و سائنسی علوم کی بے مثال درسگاہوں کا ایسا عظیم الشان مرکز بھی تھا جہاں دنیا بھر کے طالبعلم علمی پیاس بجھانے کیلئے کھچے چلے آتے تھے لیکن وقت گزرتا گیا حکمران باہمی اختلافات کے باعث کمزور جبکہ اشرافیہ طاقتور ہوتی گئی یکے بعد دیگرے آل بویہ اور سلجوقی اسٹیبلشمنٹ نے انصرام حکومت میں مداخلت شروع کر دی حتیٰ کہ حالات اس نہج پہ پہنچ گئے کہ خلیفہ کا تقرر اسی اسٹیبلشمنٹ کا مرہون منت ہو گیا حسب منشائ حکمران تبدیل کیے جانے لگے میرٹ کی بجائے ذاتی پسند ناپسند معیار ٹھہرا کٹھ پتلی حکمرانوں کی آڑ میں مخصوص خاندان حکومت کا نظام چلانے لگے۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ عظیم الشان سلطنت پرزے پرزے ہو گئی۔ مسلمانوں کی قائم کردہ ریاستوں میں دوسری بڑی مثال مغل سلطنت کی ہے جو اپنے عروج کے زمانے میں پورے برصغیر پر قابض تھے ان کے ابتدائی حکمران بہت طاقتور اور مضبوط تھے جو ریاست کی مضبوطی اور سلطنت کی بقائ کے ضامن تھے لیکن شہزادوں کی باہمی چپقلش نفرت اور خانہ جنگی نے یہاں بھی خوب رنگ دکھایا چونکہ حال سلطنت عباسیہ سے مختلف نہ تھا لہذا انجام بھی مختلف نہ ہو سکتا تھا یکے بعد دیگرے روہیلہ اور مرہٹہ اسٹیبلشمنٹ کی زور آوری اور امور سلطنت پہ برتری اسقدر بڑھ گئی کہ بادشاہ کا تقرر یہ خود کرتے بادشاہ کی حیثیت کٹھ پتلی سے زیادہ نہ تھی اس صورتحال کی بھاری قیمت پر شکوہ مغلیہ سلطنت کے سقوط کی صورت میں ادا کرنا پڑی۔ اسی طرح مصر میں روم کی قدیم سلطنت ایک خاتون قلوپطرہ کی ضد،انتقام اور انا کی بھینٹ چڑھ گئی آپسی بغض و حسد نے ثانوی قوتوں کو فیصلہ کن حیثیت دلادی یہاں بھی نوبت طوائف الملوکی تک جا پہنچی ترک، خلجی، خاندان غلاماں سمیت اکثر ریاستوں و سلطنتوں کا ایسے ہی مسائل کے باعث خاتمہ ہوا
یہ تو چند مثالیں ہیں تاریخ عالم کے بےشمار اوراق ایسی بےشمار ریاستوں اور سلطنتوں کے سقوط کے واقعات سے اٹے پڑے ہیں جن کے حکمرانوں کے حسد رقابت اور عاقبت نااندیشی نے ثانوی یا ماتحت قوتوں کو اسقدر دوام بخشا کہ وہ خود ان ہی قوتوں کے کٹھ پتلی بن گئے اور تباہی و بربادی کا شکار ہو کر تا قیامت نشان عبرت بن گئیں۔ اب اگر زمانہ حال میں واپس آ کر دنیا کے نقشے پہ موجود ساتویں بڑے ملک (پاکستان )کی صورتحال کا جائزہ لیں تو آپ کو ذرا بھی فرق نظر نہیں آئے گا یہاں کے حکمران اور سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے بغض حسد رقابت اور نیچا دکھانے جیسے منفی جذبات کے تحت تمام حدود سے تجاوز کر چکے ہیں ایک دوسرے کے خلاف غیر پارلیمانی زبان اور غیر آئینی اقدام روزمرہ کی بات ہے لیکن اس سے بھی خطرناک بات یہ ہے کہ یہاں بھی مقتدر حلقے ہی فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں کسے حکمران بنانا ہے اور کب تک بنانا ہے یہ سب عوام یا مقننہ نہیں بلکہ ثانوی حیثیت رکھنے والے اداروں کے ہاتھ میں ہے۔ مذکورہ بالا سلطنتوں کی ہی طرح اقتدار کی غیر ضروری جنگ باہمی رقابت اور شدید نفرت جیسے منفی جذبات کے زیر اثر میں ہم پہلے ہی اپنا آدھا وجود کھو چکے ہیں جبکہ بچے کھچے حصے پہ ہمیشہ ہی معاشی، لسانی یا علاقائی مسائل کی تلوار لٹکی رہتی ہے کبھی مالی دیوالیہ پن اور کبھی انتظامی و حفاظتی صلاحیت کے دیوالیہ پن کا پڑمردہ سنتے رہتے ہیں اب تو اخلاقی دیوالیہ پن کی باتیں بھی زبان زد عام ہیں لیکن مجال ہے کہ کبھی ان مسائل کا باہمی مشاورت یا اجتماعی شعور سے حل نکالنے کی کوشش کی گئی مقتدر ترین ادارہ پارلیمنٹ بلکل غیر فعال ہے سیاستدانوں کی غلط پالیسیوں اور چالوں کے باعث اپوزیشن ایوان سے غائب ہے جس کے باعث سمجھیں آدھا دماغ تو کام سے عاری ہے اسی طرح طاقتور حلقے حکومتی معاملات میں ٹانگ اڑانے سے باز آتے نظر آتے نہ ”حکمران سازی“ سے۔ سیاستدانوں کی باہمی نفرت اور چپقلش جو اب شاید ذاتی دشمنیوں کی صورت اختیار کر چکی ہے کئی طالع آزماو¿ں کو کھل کر کھیلنے کا موقع دے رہی ہے اب بگاڑ اس درجے پہ پہنچ چکا ہے جہاں سے واپسی اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے طاقت کے تمام مراکز کو باہمی چپقلش چھوڑ کر ملکی بقائ کے جنگ مل کر لڑنا ہوگی اور جلد لڑنا ہوگی کیونکہ وقت بہت کم ہے پستی کا سفر ڈھلوان میں ہونے کے باعث بہت تیز رفتار ہوتا ہے۔