اس وقت ملک کے سیاسی حالات جس نہج پر پہنچا دیئے گئے ہیں‘ محسوس یہی ہوتا ہے کہ سیاست دانوں کی آپس کی چپقلشیں کہیں تیسری قوت کو دعوت نہ دے بیٹھیں‘ جس کے بعد سیاست دانوں کو جمہوریت کی بحالی کیلئے کٹھن مراحل سے گزرنا پڑے گا اور پھر جمہوریت کی بحالی میں کتنا عرصہ درکار ہوگا‘ یہ بھی ایک اہم سوال ہے۔ کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ طالع آزماﺅں نے تقریباً35 چھتیس سال ملک میں جمہوریت کو راندہ¿ درگاہ کئے رکھا۔ لیکن یہ امر قابل اطمینان ہے کہ جب سے نظریہ¿ ضرورت کو عدالت کے احاطے میں دفن کیا گیا ہے‘ کسی طالع آزماءکو شب خون مارنے کی جرا¿ت نہ ہوئی۔ اس لئے دعا یہی ہے کہ عروج پر پہنچے انتشار اور سیاسی درجہ حرارت میں کسی طرح کمی آجائے‘ لیکن فی الحال ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ گزشتہ روز وزیر داخلہ رانا ثناءبھی دوٹوک یہ کہہ چکے ہیں کہ اب عمران رہے گا یا ہم‘ ہمارے وجود کی نفی ہو گی تو ہر حد تک جائیں گے۔ دوسری جانب پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کسی طرح بھی حکمران جماعتوں کے ساتھ مفاہمت کیلئے تیار نہیں‘ اس سے یہی عندیہ ملتا ہے کہ سیاست دانوں کے باہم لڑائی جھگڑوں سے انتخابات کی را ہ تومزید دور ہو گی ہی‘ جمہوریت کے ڈی ٹریک ہونے کے امکانات کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔
موجودہ صورتحال میں آئین اور قانون کی بالادستی کہیں نظر نہیں آرہی۔ سپریم کورٹ کے صادر کئے گئے فیصلے کے باوجود 90 دن میں انتخابات کرانے سے گریز کیا جا رہا ہے۔ انتخابات سے گریز کی وجہ سیاسی اور دانشور حلقے بخوبی جانتے ہیں۔ عمران خان کی سیاست سے لاکھ اختلافات سہی‘ اگر وہ آئین کے تحت 90 دن میں تحلیل شدہ اسمبلیوں کے انتخابات کرانے کی بات کررہے ہیں تو یہ ان کا اصولی مطالبہ ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ تمام سیاسی اور دانشور حلقے انکے اس مطالبے کی مخالفت کرتے نظر آرہے ہیں۔ اس سے جہاں توہین عدالت کا تاثر پختہ ہو رہا ہے وہیں آئین سے انحراف کرکے اسے بے وقعت بنایا جا رہا ہے۔ اس تناظر میں تو جنرل (ر) ضیاءالحق کا بیان درست نظر آتا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ آئین ایک محض کاغذ کا ٹکڑا ہے‘ جب چاہے پھاڑ کر پھینک دیا جائے۔ بے شک ملک اس وقت بدترین معاشی بحران سے گزر رہا ہے اور ایسے میں انتخابات کرانا معیشت پر مزید بوجھ ڈالنے کے مترادف ہوگا۔ مگر المیہ یہ ہے کہ سیاسی قیادتیں نہ مل بیٹھنے پر متفق ہیں اور نہ انتخابات کا کوئی درمیانی راستہ نکال رہی ہیں جبکہ سیاسی درجہ حرارت ہے جو روزافزوں بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ ملکی مفاد میں تو بہتر یہی ہے کہ تمام سیاسی قیادتیں اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر مل کر بیٹھ جائیں اور انتخاب کی کوئی قریبی تاریخ مقرر کرلیں تاکہ ملک سے انتشار اور غیریقینی صورتحال کا خاتمہ ہوسکے۔
جہاں تک حکومت کی جانب سے یہ جواز پیش کیا جا رہا ہے کہ دہشت گردی کی وارداتوں کے تسلسل کے باعث انتخابات کرانا ممکن نہیں تو یہ جواز کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ پاکستان گزشتہ بیس بائیس سے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ 2008ءکے انتخابات سے قبل امن و امان کے عمومی حالات بھی بہت خراب تھے۔18 اکتوبر 2007ءکو جب بے نظیر بھٹو کراچی آئیں ‘تب سے 18 فروری 2008ءتک مختلف خود کش حملوں میں پانچ سو سترہ افراد ہلاک ہو چکے تھے لیکن انتخابی عمل نہیں رکا۔2013ءاور 2018ءمیں بھی امن و امان کے حالات تسلی بخش نہیں تھے‘ لیکن عام انتخابات کا انعقاد نہیں روکا گیا۔ ان حالات کے مقابلہ میں موجودہ صورتحال تو انتہائی پرامن ہے ‘ ایسے حالات میں انتخابات نہ کرانا حکومت کے خوف کو ہی عیاں کررہا ہے کیونکہ اسے بخوبی ادراک ہے کہ عوام میں عمران کا بیانیہ خاصا مقبولیت حاصل کر چکا ہے اور دو روز قبل مینار پاکستان پر ہونیوالے عمران خان کے پاور شو نے حکمرانوں کو مزید تشویش میں مبتلا کردیا۔ البتہ عمران خان کا یہ بیان ضرور تشویشناک ہو سکتا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ انکی جان کا خطرہ ہے‘ مگر اس بنیاد پر بھی انتخابات کا التواءمناسب نہیں نظر آتا۔ عمران خان کو سکیورٹی فراہم کرنا سیکورٹی اداروں کی ذمہ داری ہے۔انہیں سکیورٹی فراہم کرکے اس رکاوٹ کو بھی دور کیا جا سکتا ہے۔ رہی بات الیکشن کمیشن‘ سکیورٹی اداروں اور دوسرے ریاستی اداروں کی کہ وہ انتخابات کیلئے سیکورٹی اور عملہ فراہم نہیں کر سکتے کیونکہ دہشت گردی کی وجہ سے سکیورٹی اہلکاروں کی کثیر تعداد اہم شخصیات کی سکیورٹی پر مامور ہے۔ ان کا یہ جواز اپنے فرائض منصبی سے روگردانی کے ہی مترادف نظر آتا ہے۔ الیکشن کمیشن کا کام صرف انتخابات کے معاملات کی دیکھ بھال کرنا اور شیڈول کے مطابق انتخابات کا انعقاد کرنا ہے‘ اگر یہ ادارہ یہ سب کرنے سے ہی قاصر ہے تو پھر اسکے وجود کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے۔ چند روز قبل صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ایک خط کے ذریعے وزیراعظم شہبازشریف کو آئین کی پاسداری اور ملک سے انتشار کی کیفیت ختم کرنے کی غرض سے انتخابات کا مشورہ دیا۔ ان کا یہ اقدام کسی طرح بھی آئین کے مطابق نہیں ۔ بے شک صدر عارف علوی کا کردار وفاق کی علامت کے بجائے اپنی پارٹی کی جانبداری میں زیادہ ادا ہوتا نظر آیا ہے اور وزیراعظم کو خط لکھ کر انتخابات کا مشورہ دینا بھی انکے منصب کا ہرگز تقاضا نہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ آخر کب تک آئین و قانون کے ساتھ کھلواڑ کیا جاتا رہے گا۔ کسی کو تو اٹھ کر اسکے تحفظ کی بات کرنا ہوگی۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی ادارہ جاتی قیادت اپنی آئینی حدود و قیود میں کام کرتی نظر نہیں آرہی۔ اگر ادارے اپنی حدود و قیود میں رہ کر کام کرتے تو ایسے حالات کی نوبت ہی نہ آتی۔ جب تک ریاستی ادارے اپنے آئینی دائرہ کار میں رہ کر کام نہیں کرتے‘ ملک میں قانون کی حکمرانی قائم ہو سکتی ہے اور نہ آئین کی بالادستی۔ قومی اداروں کی انہی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر ملک میں غیریقینی کی فضا پیدا کی جا رہی ہے۔ اس پر غوروفکر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔