گزشتہ کچھ برسوں کے دوران، انتہائی نوعیت کی موسمیاتی کیفیات پاکستان میں معمول بن چکی ہیں۔ شدید گرمی کی لہریں، خشک سالی اور سیلاب ہر سال عام ہو چکے ہیں جو غذائی و آبی تحفظ کو متاثر کرتے ہیں۔ پسماندہ طبقے جیسا کہ غریب، بزرگ اور خواتین ان نتائج سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ دنیا بھر میں کم ترین کاربن خارج کرنے والے ممالک میں سے ایک ہونے کے باوجود بھی پاکستان انتہائی موسمیاتی واقعات سے وابستہ خطرات سے سب سے زیادہ دوچار دس ممالک میں سے ایک ہے۔ یو این کے ادارہ برائے موسمیاتی تغیرات کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان اپنے سالانہ جی ڈی پی کا 9% کھو سکتا ہے۔ گرمی کی شدید لہروں اور بن موسم بارشوں نے بھی پاکستان کی زرعی پیداوار کو شدید طور پر متاثر کیا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے بارے آگاہی دےنے والے مختلف اداروںنے خبردار کیا ہے کہ اس نوعیت کے موسمی واقعات کی تعداد مستقبل میں بڑھے گی، جو پاکستان میں غذائی تحفظ کے لیے شدید خطرے کا سبب ہو گا۔ ایشیائی ترقیاتی بینک آنے والے برسوں میں کاشت کی بڑھتی قیمتوں اور موسمیاتی تبدیلی کی بدولت اہم غذائی اور نقد فصلوں، جیسا کہ گندم، گنا، چاول، مکئی اور کپاس کی کاشت میں نمایاں گراوٹ کی پیشنگوئی کر چکا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں اور یوکرین پر روسی حملے کے سبب سپلائی چین کے متاثر ہونے سے آنے والے برسوں میں صورتحال مزید ابتر ہونے کا امکان ہے۔ اگر غذائی عدم تحفظ سے نمٹنے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے مضر اثرات سے مطابقت کے لیے بر وقت اقدامات نہ کیے گئے تو پاکستان کی بقا کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
موسمیاتی تبدیلی پاکستان میں غذائی پیداوار کے لیے براہ راست خطرہ ہے۔ ہمالیہ کے گلیشیئرز جو ملک میں پانی کے بنیادی ذریعے سندھ طاس کو پانی سے بھرتے ہیں، پوری بیسیویں صدی کے دوران ان گلیشیئرز نے اپنے وجود کا اتنا حصہ نہیں کھویا تھا جتنا کہ وہ گزشتہ 20سالوں مےں کھو چکے ہیں۔ پاکستان جیسا ملک، جس کے جی ڈی پی کا ۲۳ فیصد حصہ زرعی شعبے اور سندھ پر انحصار کرتا ہے، اس کے لیے یہ تشویش کی ایک سنگین وجہ ہے۔
شدید موسمیاتی کیفیات پانی کی کمی کے لیے خطرہ ہونے کے علاوہ، ذرائع آمدن اور زراعت کے لیے بھی تیزی سے خطرات پیدا کر رہی ہیں۔ ہر موسم گرما میں، مون سون کی شدید بارشیں پنجاب اور سندھ کی زرخیز زمینوں میں اچانک سیلاب، جائیداد کو نقصان اور زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھنے کا سبب بنتی ہیں۔ یہ نتائج ہر سال کے ساتھ ابتر ہو رہے ہیں۔ روس اور یوکرین کے مابین جاری جنگ نے بھی غذائی عدم تحفظ میں اضافہ کیا ہے- پاکستان میں درآمدی گندم کا93 فیصد یوکرین سے حاصل کیا جاتا ہے، جو دنیا میں گندم کا پانچواں سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے۔ بحیرہ احمر کے اطراف میں روسی ناکہ بندی نے یوکرین کی گندم کی برآمد اور عالمی سپلائی چینز کو متاثر کیا ہے۔ جس نے عالمی منڈی میں اناج کی قیمتوں پر اثر ڈالا ہے،اور جنگ کے آغاز سے گندم کے آٹے کی قیمت میں 100 فیصد سے زائداضافہ ہو چکا ہے۔ برآمدات، مہینوں تک منجمد رہنے کے بعد اب دوبارہ بحال ہو چکی ہیں جو عالمی غذائی بحران کے خطرات میں کمی لائیں گی- تاہم، عدم استحکام اور دیرپا موسمیاتی دبا¶ پاکستان میں غذائی تحفظ کے لیے خطرہ ہے۔
غربت اور مہنگائی کی بلند شرح اور بنیادی خدمات تک محدود رسائی کی شکل میں پاکستان پہلے ہی ایک اقتصادی بحران سے دوچار ہے۔ سیاسی عدم استحکام، موسمیاتی تبدیلی اور غذائی عدم تحفظ ملک کے پہلے سے موجود مسائل میں مزید بگاڑ لائے گا۔ چونکہ ذرائع معاش پر، موسمیاتی تبدیلیاں اثرانداز ہوتی ہیں، ایسے میں داخلی سطح پر ہجرت اور ہزاروں افراد کی نقل مکانی، وسائل پر مبنی تنازعے کا باعث ہو سکتی ہے۔2010 کے تباہ کن سیلابوں نے کسانوں کی بڑی تعداد کو کام کی تلاش میں شہروں کی جانب ہجرت پر مجبور کر دیا تھا۔ گزشتہ سال کے سےلاب کے بعد مزید کسان جو اس سال کاشت نہےں کر سکے وہ شہروں مےں آ گئے ہےں ۔ حکومت کو سماجی اقتصادی مسائل کی دلدل میں گھرے ملک کے لیے ان موسمیاتی تبدیلیوں کو ایک سنگین خطرہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔
مگر وہےں اس وقت پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے وابستہ نئی حقیقتوں کے مطابق خود کو ڈھالنے کے لیے پائیدار زرعی ترقیاتی طریقوں اور منصوبوں میں سرمایہ کاری کر سکتا ہے۔ اس میں کلائمٹ اسمارٹ ایگریکلچر روایات کی جانب رخ موڑنا شامل ہو سکتا ہے جیسا کہ زیادہ پیداوار دینے والی فصلوں کی جانب منتقلی، پانی کا موثر طور پر انتظام، پانی کے ضیاع میں کمی لانا، پانی کی کمیابی سے نمٹنے اور زرعی پیداوار میں اضافے کے لیے چھوٹے و درمیانے سائز کے ڈیموں کی تعمیر وغیرہ۔ کاربن کے اخراج میں کمی پاکستان کے لیے گلوبل وارمنگ کے اثرات میں کمی لانے کا سبب ہوگی۔ حکومت کو تمام بڑے شہروں میں ماس ٹرانزٹ منصوبے متعارف کروانے اور صارفین کو بجلی سے چلنے والی گاڑیوں پر منتقلی کی ترغیب دینی چاہیئے۔ یہ تیل کی درآمد کے بھاری بھرکم بل میں کمی لانے میں بھی مدد دے گا اور تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے سبب ہونے والی مہنگائی سے بھی عوام الناس کو کچھ سکھ ملے گا۔ صارفین کے لیے سولر پینل کے سازوسامان پر سبسڈی کی شکل میں حکومت شمسی توانائی کے لیے ترغیب دلا سکتی ہے، جو بجلی کی رسد پر بڑھتے دبا¶ میں کمی میں مدد دے گی۔
تاہم موسمیاتی تبدیلی کے معاملے سے تن تنہا حکومت نہیں نمٹ سکتی ہے، لہذا کمیونٹی کی مدد بھی ضروری ہے۔ پاکستانیوں کو موسمیاتی تبدیلیوں کے مضر اثرات اور آبی تحفظ کی اہمیت سے بہتر طور پر باخبر کیا جانا چاہیئے۔ پسماندہ کمیونٹیز بشمول غریب، خواتین، معذور اور مقامی گروہوں کی ضروریات اور خدشات سے بہتر طور پر نمٹنے کے لیے کمیونٹیز کی قیادت میں پائیدار ترقیاتی منصوبوں کی تشکیل و نفاذ کیا جانا چاہیئے۔ پاکستان کو ایک ایسی معیشت کی تعمیر پر غور کرنے کی ضرورت ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف زیادہ پائیدار، ہمہ گیریت کی حامل اور لچک رکھتی ہو۔