پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں گزشتہ روز پی ٹی آئی کے سینیٹرز نے بھی شرکت کی اور پارلیمنٹ میں آتے ہی نعرے بازی شروع کر دی جس پر حکومتی بنچوں کی جانب سے انہیں یہ طعنہ سننے کو ملا کہ ”لوٹ کے بدھو گھر کو آئے“۔ مشترکہ اجلاس کے ایوان میں حکومتی اور اپوزیشن بنچوں کے مابین مخالفانہ نعرہ بازی تسلسل کے ساتھ جاری رہی جس کے باعث سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے اجلاس پیر دس اپریل تک ملتوی کردیا۔
یہ حقیقت ہے کہ پارلیمانی جمہوری نظام کی پارلیمنٹ ہی بنیاد ہے جس میں قانون و آئین سازی سمیت امور حکومت و مملکت کے جملہ امور پر بحث کی جاتی ہےٍ‘ انہیں نمٹایا جاتا ہے‘ فیصلے کئے جاتے ہیں اور اہم قومی ایشوز پر قراردادیں پیش کی جاتی ہیں۔ قوم اپنے نمائندوں کو منتخب کرکے اس لئے منتخب ایوانوں میں بھجواتی ہے کہ وہ ان ایوانوں میں انکے مسائل کو اجاگر کرینگے اور انکے حل کیلئے اپنا کردار ادا کرینگے۔ اس سلسلہ میں سرکاری اور اپوزیشن بنچوں کی یکساں ذمہ داری ہوتی ہے مگر پی ٹی آئی نے اپنی سیاست میں منتخب ایوانوں کو کبھی پرِکاہ کی حیثیت بھی نہیں دی۔ اس نے 2013ءکی اسمبلی میں بھی اپنی اپوزیشن کی سیاست کا دھرنا تحریک سے آغاز کیا اور اس دوران منتخب ایوانوں میں نہ صرف جانے کی زحمت گوارا نہ کی بلکہ اپنے ارکان قومی اسمبلی اور سینیٹرز کے استعفے بھی سپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینٹ کو بھجوا دیئے تاہم سپیکر نے ایک منفرد رولنگ دیکر انکے استعفے منظور نہ کئے۔ اسی طرح 2018ءکی اسمبلی میں سرکاری بنچوں پر بیٹھ کر بھی پی ٹی آئی سڑکوں کی سیاست کو ترجیح دیتی رہی اور خود قائد ایوان عمران خان نے بھی خال خال ہی منتخب ایوان میں آنے کی زحمت اٹھائی۔ جب گزشتہ سال 10 اپریل کو وزیراعظم کیخلاف عدم اعتماد کی قرارداد منظور ہونے کے نتیجہ میں پی ٹی آئی کی حکومت ختم ہوئی تو عمران خان نے اسی وقت اسمبلیوں میں نہ بیٹھنے کا اعلان کر دیا اور پھر پی ٹی آئی ارکان کے استعفے سپیکر قومی اسمبلی کو بھجوا دیئے۔ پی ٹی آئی کی جانب سے منتخب ایوانوں کے ساتھ آنکھ مچولی کا کھیل اب تک جاری ہے۔ عمران خان ضمنی انتخابات میں منتخب ہوئے تو انہوں نے اسمبلی میں جا کر حلف اٹھانے کی زحمت بھی نہ اٹھائی۔ وہ اپنی عوامی مقبولیت کے زعم میں ہوا کے گھوڑے پر سوار ہیں اور پورا سسٹم اپنی من مرضی کے مطابق چلانے کے خواہش مند ہیں جو درحقیقت انکی جمہوری کے بجائے آمرانہ سوچ ہے۔ اگر وہ جمہوری نظام میں تبدیلی چاہتے ہیں تو ایسا بھی منتخب ایوانوں کے ذریعے ہی ممکن ہوگا جہاں پی ٹی آئی بیٹھنے کی بھی روادار نہیں۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پی ٹی آئی سینیٹرز کا گزشتہ روز کا طرز عمل بھی یہی پیغام دے رہا تھا کہ وہ سسٹم کو اتھل پتھل کرنا چاہتے ہیں۔ اگر وہ منتخب ایوانوں میں بیٹھنا ہی نہیں چاہتے تو پھر انکی جانب سے اسمبلیوں کے انتخابات کے انعقاد کا تقاضا چہ معنی دارد؟