پنجاب اور خیبرپختونخوا کے انتخابات اور سپریم کورٹ کا فیصلہ

Mar 29, 2023

ایک طرف ملک سنگین بحرانوں سے دوچار ہے تو دوسری جانب سیاست کی گتھیاں سلجھنے کی بجائے مزید الجھتی جارہی ہیں۔ مزید افسوس ناک امر یہ ہے کہ اب اختلافات محض سیاسی قیادت کی حد تک محدود نہیں رہے بلکہ انھوں نے ملک کے اہم ترین اداروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لینا شروع کردیا ہے۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت میں پنجاب اور خیبرپختونخوا کے انتخابات سے متعلق ازخودنوٹس کیس کے حوالے سے سوموار کو جو صورتحال سامنے آئی اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عدلیہ میں بھی اختلافات پیدا ہورہے ہیں اور یہ صورتحال انتہائی تشویش ناک ہے۔ سیاسی قیادت کے مابین اختلافات پیدا ہونا ایک عام سی بات ہے لیکن ان اختلافات کا اثر ریاستی اداروں میں بھی دکھائی دینے کا مطلب یہ ہے کہ ریاست کا نظام مزید عدم استحکام کی طرف جارہا ہے جس کا نقصان بہرطور بہت ہی خوف ناک قسم کا ہوسکتا ہے۔
مذکورہ کیس میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل کا تحریری اختلافی فیصلہ سامنے آ گیاہے۔ دونوں فاضل جج صاحبان نے تفصیلی فیصلے میں کہا کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات سے متعلق درخواستیں مسترد کی جاتی ہیں۔ فیصلے میں مزید کہا گیا کہ از خود نوٹس کی کارروائی ختم کی جاتی ہے، ہائیکورٹ زیرالتوا درخواستوں پر تین روز میں فیصلہ کرے۔دونوں معزز ججوں کا اپنے فیصلے میں کہنا ہے کہ وقت آگیا ہے کہ چیف جسٹس آفس کا ’ون مین شو‘ کا لطف اٹھانے کا سلسلہ ختم کیا جائے۔ ون مین شو نہ صرف فرسودہ بلکہ ایک برائی بھی ہے۔ چیف جسٹس کا ون مین شو جمہوری اصولوں کے خلاف ہے۔ ون مین شو مختلف آراءکو محدود کرتا ہے۔ ون مین شو سے آمرانہ حکمرانی کا خطرہ ہے۔ مشترکہ رائے سے ہونے والی فیصلہ سازی طاقت کا توازن برقرار رکھتی ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو وسیع اختیارات سے نوازا جاتا ہے۔ ستم ظریفی ہے کہ سپریم کورٹ قومی اداروں کے اختیارات کو ریگولیٹ کرنے کی بات کرتی ہے لیکن اپنے گریبان میں نہیں جھانکتی۔
جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل نے کہا، وقت آگیا ہے کہ 184 (3) کے اختیار سماعت کو ریگولیٹ کیا جائے۔ ازخود نوٹس 4 ججوں نے مسترد کیا۔ فیصلے میں جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ الیکشن ازخود نوٹس کیس کا آرڈر آف کورٹ 4-3 کا فیصلہ ہے، پاناما کیس میں پہلے 5 رکنی بینچ کا فیصلہ دو تین کا تھا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ہم دو ججوں کا فیصلہ جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ کے فیصلے کا ہی تسلسل ہے۔ کیس میں ایک بار کازلسٹ جاری ہونے کے بعد بنچ تبدیل نہیں ہو سکتا۔ آئینی ادارے کے ممبران کے طور پر ہمارا ہر عمل تاریخ کا حصہ بنتا اور زیر بحث آتا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل نے اپنے فیصلے میں مزید کہا کہ چیف جسٹس کے ازخود نوٹس کو 7 میں سے 4 ججوں نے مسترد کیا تھا۔ جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس کے ’ون مین پاور شو‘ کے اختیار پر نظرثانی کرنا ہوگی، اسپیشل بنچ، آئینی معاملات پر بنچ کی تشکیل کے بارے میں فل کورٹ کے ذریعے پالیسی بنانا ہوگی، از خود نوٹس کے اختیار کے بارے میں فل کورٹ کے ذریعے پالیسی بنانا ہوگی۔ سپریم کورٹ کی طاقت عوامی اعتماد پر منحصر ہے۔
فیصلے میں جسٹس منصور علی شاہ نے مزید کہا کہ ازخود نوٹس کیس کا اختیار استعمال کرنے میں عدلیہ کو محتاط ہونا چاہیے، از خود نوٹس کیس کا متاثرہ فریق اپیل کا حق کھو دیتا ہے۔ ہمیں از خود نوٹس لینے کے طریقہ کار پر بھی تحفظات ہیں۔ ایک پولیس اہلکار کے تبادلے کے کیس میں دو ججوں نے ازخود نوٹس لینے کی سفارش کی، ازخود نوٹس کی سفارش کرنے والے بنچ میں مبینہ آڈیو لیکس والا جج بھی شامل تھا۔ چیف جسٹس کے تشکیل کردہ نو رکنی بنچ میں ان دو ججوں کو شامل کیا گیا جو پہلے ہی اپنا ذہن دے چکے تھے۔ فاضل جج کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ سیاسی معاملات کو بہترین انداز میں حل کرنے کا فورم پارلیمنٹ یا سیاسی بحث ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ نے وزیراعلیٰ پنجاب اور آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے کیسوں میں ازخود نوٹس کا استعمال کیا، کسی ایک فرد کو اتنے زیادہ اختیارات مل جانے سے اس کا آمر بننے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔
یہ فیصلہ کئی حوالے سے اہمیت کا حامل ہے اور اس میں اٹھائے گئے سوالات بہت اہم ہیں۔ تاریخی اہمیت کے اس فیصلے کے ذریعے مستقبل کے بھی کئی معاملات کا تعین ہونا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ اس مسئلے کا حتمی حل نکالنے کے لیے سپریم کورٹ کا فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔ سپریم کورٹ صرف ایک عدالت یا ادارہ ہی نہیں بلکہ ریاست کے ایک اہم ستون کے طور پر وہ ریاست کے استحکام کی ضامن بھی ہے۔ ایسی صورتحال جس سے اس معزز عدالت میں بیٹھے منصفین کے مابین اختلافات واضح ہوں ریاست کے مفاد میں ہرگز نہیں ہے۔ اگر معاملات کو اس سطح پر حل کرنے کی بجائے یونہی چھوڑ دیا گیا تو اس بات کا امکان موجود ہے کہ آگے چل کر ریاست کو مزید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ پاکستان پہلے ہی جس سیاسی انتشار اور معاشی عدم استحکام کی وجہ سے منجدھار میں پھنسا ہوا ہے وہ ایسی کسی صورتحال کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے جس میں عدلیہ بھی اختلافات کا شکار ہو جائے۔

مزیدخبریں