تیسرا ٹی ٹونٹی میچ: پاکستان نے افغانستان کو 68 رنز سے ہرا دیا
شکر ہے یہ آخری میچ جیت کر ہماری قومی ٹیم کم از کم وطن واپس آ کر یہ کہنے کے قابل تو ہو گی کہ ہم نے افغانستان کو کلین سویپ کرنے نہیں دیا اور ہم وائٹ واش سے بچ گئے۔ مگر کیا یہ شرم کی بات نہیں کہ انٹر نیشنل میچ سیریز میں افغانستان کی کرکٹ ٹیم سے ہاری جن کو گیند اور بلے سے روشناس ہم نے کرایا‘ کھیلنا ہم نے سکھایا‘ آج انہی بلونگڑوں کی ٹیم نے ہماری ہی ٹیم کو ایک کے مقابلے میں 2 میچوں سے ہرا دیا۔ یہ بہت افسوس کی بات ہے کہ ہمارے نوجوان کھلاڑی کیوں حواس باختہ رہے۔ ان سے نہ بیٹنگ ہوئی نہ با¶لنگ اور نہ ہی وہ فیلڈنگ میں رنگ جما سکے۔ یہ تو خدا کا شکر ہے کہ آخری میچ انہوں نے جیت لیا۔ اس میں بلے بازوں نے اگر رنز نہ بنائے ہوتے اور پہلے کی طرح 80 یا 100 پر واپس پویلین لوٹ گئے ہوتے تو یہ میچ بھی ہار جاتے۔ اب چلو یہ تو کہہ سکیں گے کہ ایک میچ ہم نے بھی جیتا اور افغانستان کو سیریز میں کلین سویپ کرنے نہیں دیا۔ اس پر ایک لطیفہ یاد آتا ہے ایک موٹر سائیکل حادثے میں جاں بحق ہوا لوگ اسے اٹھانے آئے تو اسکے سر سے ہیلمٹ اتارتے ہوئے ایک شخص بولا شکر ہے ہیلمٹ کی وجہ سے اس کا سر تو بچ گیا۔ سو یہی اب ایک میچ جیتنے پر ہمارے کھلاڑی اور پی سی بی کی انتظامیہ کہے گی کہ شکر ہے ایک میچ توجیتا۔ بے شک ہماری ٹیم میں اکثر نئے کھلاڑی تھے مگر وہ ایسا کھیل رہے تھے گویا گلی محلے کے بچے کھیل رہے ہیں۔ جو کھلاڑی قومی ٹیم میں جگہ بناتا ہے اسکا یوں کنفیوژ ہونا حیرانگی کی بات ہے۔ محنت اور جیت کا جنون کھلاڑی کا اثاثہ ہوتے ہیں
گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں
وہ طفل کیا گرے جو گھٹنوں کے بل چلے
ذرا ہمت اور حوصلہ پیدا کر کے امید ہے ہمارے یہ نئے کھلاڑی بھی جلد ہی افغانستان سے اپنا حساب چکتا کریں گے۔
٭....٭....٭
چیف جسٹس کے والد اور بھائی کے بھی مجھ پر احسانات ہیں‘ شیخ رشید
شیخ جی بھی کیا قسمت کے دھنی ہیں انہیں جی ایچ کیو کا گیٹ اور عدالت کا دروازہ لگتا ہے‘ جوانی ہی سے راس آ گیا تھا۔ جبھی تو وہ کھلم کھلا خود کو جی ایچ کیو کا بندہ کہتے رہے ہیں۔ اب یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ عدلیہ کے دروازے سے بھی ان کو خالی ہاتھ کبھی نہیں لوٹایا گیا۔ بقول شاعر
تو اپنے در سے مجھے خالی ہاتھ مت لوٹا
میرے نصیب میں جی بھر کے رسوائیاں لکھ
اب گزشتہ روز شیخ رشید کے بیان سے یہ شعر سچ ہوتا نظر آتا ہے۔ موصوف بڑے فخر سے فرماتے ہیں کہ چیف جسٹس کے والد اور بھائی کے مجھ پر بڑے احسانات ہیں۔ میں جہاں کوئی خالی پلاٹ دیکھتا ان کے والد صاحب مجھے الاٹ کرا دیتے۔ اب ظاہر بات ہے شیخ جی جن خالی پلاٹوں پر نظر کرم فرماتے ہوں گےٍ وہ کوئی ردی والے تو نہیں ہوں گے۔ کائیاں تو وہ پہلے سے ہیںٍ اوپر سے شیخ بھی قیمتی پلاٹوں پر ہی ان کی نظر رہتی ہو گی جو انہیں الاٹ بھی ہوئے۔ یہ ہم نہیں کہتے خود شیخ جی فرما رہے ہیں۔ اب نیب والوں کو چاہئے کہ وہ انکے اقرار کے بعد ذرا تفصیل سے ان پلاٹوں کی فہرست بنائے جو ان کو ازراہ عنایت الاٹ ہوئے۔ لال حویلی بھی شاید اسی طرح انہوں نے الاٹ کرائی ہو گی۔ اب شیخ جی سے پوچھا جائے کہ یہ پلاٹ کہاں گئے۔ کیا ان سب پر ”شیخ فارمز“ بنائے گئے ہیں یا انہیں مہنگے داموں بیچا گیا ہے۔ اگر ایسا ہے تو وہ رقم کہاں گئی جو اس لوٹ مار سے حاصل کی گئی ہے۔ کمال کی بات ہے کچھ لوگ کرپشن کی گنگا میں نہا کر بھی سادھو بنے رہتے ہیں۔ شیخ رشید نے بھی یونہی جی ایچ کیو کے گیٹوں کا حوالہ دے کر عدالتوں سے رشتہ بتا کر نجانے کتنی تجوریوں کے پیٹ بھرے ہوں گے۔ باتیں تو ویسے ہی وہ خوب بنا لیتے ہیں‘ یہ ان کی چربہ زبانی کا ہی تو کمال ہے کہ نواز شریف سے لے کر عمران خان تک بڑے سے بڑا سیاسی بازیگر بھی ان کے دام میں پھنسنے سے نہیں بچ سکا۔
٭....٭....٭
لیہ میں کالج پروفیسر اور اہلیہ جعلی کوپن سے مفت آٹا حاصل کرنے میں ملوث
ہم تو سمجھتے تھے کہ حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ اب تنخواہ دار سفید پوش طبقہ بھی مفت آٹے کے حصول کےلئے لائنوں میں لگنے پر مجبور ہو گیا ہے۔ حقیقت میں بھی ایسا ہی ہے۔ ہزاروں سفید پوش مرد و خواتین بزرگ اور بچے مفت آٹے کے حصول کیلئے خوار ہو رہے ہیں۔ انکی اسی مجبوری کا فائدہ چالاک لوگ اٹھا رہے ہیںجو ان غریبوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے کے نت نئے طریقے تلاش کر رہے ہیں۔ لیہ میں ایک سرکاری کالج کے پروفیسر اور ان کی بیگم جعلی کوپنوں سے مفت سرکاری آٹا ہتھیانے میں ملوث نکلے۔ انکے تیار کردہ سو سے زیادہ جعلی کوپن آٹا تقسیم مراکز میں پکڑے گئے۔ جسکے بعد دونوں غائب ہیں۔ مگر کب تک بکرے کی ماں خیر منائے گی۔ بالآخر کسی نہ کسی نکتے کا سہارا لے کر ضمانتیں کروا کے سامنے آئینگے۔ ایک طرف وزیراعظم یہ کہہ رہے ہیں کہ آٹا مراکز سے خالی ہاتھ لوٹنے والوں کو یکمشت 3 تھیلے فراہم کئے جائیں۔ اس سے رش اور بھگدڑ کی وجہ سے آٹا حاصل کرنیوالے وہ لوگ جو ناکام رہ جاتے ہیں انہیں خوشی اور تسلی ہو گی۔ مگر کیا حکومت اس طرح غریبوں کی تذلیل بند نہیں کر سکتی۔ آٹے کی مفت تقسیم کے عمل کو کسی نظم و ضبط میں لا کر اسکی ترسیل گھر کی دہلیز تک ممکن بنائی جائے تاکہ شہری گھنٹوں لائنوں میں لگ کر خوار نہ ہوں اور روزانہ مایوس خالی ہاتھ لوٹنے سے بچ جائیں۔ یا پھر ہر علاقے میں بڑی بڑی دکانوں اور سٹورز پر مفت آٹے کی فراہمی کا بندوبست کیا جائے۔
٭....٭....٭
زمان پارک میں لگے عارضی کیمپوں میں چوری کی بجلی استعمال ہو رہی ہے‘ لیسکو
بجلی چوری ایک جرم ہےٍ خواہ گھر میں کی جا رہی ہو یا دفتر میں یا کارخانے میں۔ ہمارے ہاں بڑے بڑے لوگ اس چوری کو جائز سمجھتے ہیں۔ ان پر کوئی ہاتھ بھی نہیں ڈالتا محکمہ بجلی والے ماہانہ رشوت لے کر ان بجلی چوروں کی طرف سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ اس محکمے کا سارا زور صرف غریب عوام پر چلتا ہے۔ جن پر بجلی چوروں کا سارا لوڈ ڈال کر وہ عام گھریلو صارف سے بھی ماہانہ ہزاروں روپے بٹورتے ہیں۔ یہ جو ایک عام دو کمرے اور ایک کچن و الے گھر کا بجلی بل 5 یا 6 ہزار آتا ہے تو اسی رشوت کا کارنامہ ہوتا ہے جبکہ بڑے بڑے ہوٹلوں ‘ دفاتر‘ کارخانوں اور دکانوں میں جہاں روزانہ کئی کئی سو یونٹ بجلی استعمال ہوتی ہے‘ اس کا بل صرف چند ہزار ہوتاہے جو لاکھوں ہونا چاہئے۔ بہرحال اب یہی دیکھ لیں وزیر بجلی کو بھی زمان پارک میں عمران خان کے گھر کے ارد گرد اور باہر لگے کارکنوں کے کیمپوں میں چوری کی بجلی استعمال کرنے کا خیال آ ہی گیا اور اب وہ ان کیمپوں میں استعمال ہونےوالی بجلی کے بل عمران خان کو بھجوانے کی تیار کر رہے ہیں۔ امید ہے خان صاحب کم از کم اسے سیاسی مسئلہ نہیں بنائیں گے اور اچھے شہری ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے ان کیمپوں میں خرچ ہونےوالی بجلی کے بل ادا کرینگے مگر ڈر لگتا ہے کہیں وہ یہ سارے بل جمع کر کے ویسے ہی نہ جلا دیں جس طرح ایک جلسے میں نجانے کس کا بجلی بل جلا دیا تھا اور اپنا بل جمع کرا دیا تھا۔ جو بھی بجلی استعمال کرتا ہے‘ وہ اس کا بل بھی ایمانداری سے بھرے ورنہ لیسکو والوں کو چاہئے کہ غیرقانونی بجلی کے کنکشن کاٹ ڈالے‘ ہر جگہ ایسا ہی ہوتا ہے مگر کیا لیسکو کا عملہ زمان پارک میں ایسا کر پائے گا۔ جہاں ڈنڈوں اور پتھروں سے ان کا استقبال کرنے والے سینکڑوں افراد پہلے سے تیار بیٹھے ہیں۔ اب تو پٹرول بم بھی انکی دسترس میں ہے۔ لیسکو والوں کو اپنی گاڑیاں اور عملے کی حفاظت کا بندوبست پہلے ہی کرنا پڑے گا ....