بے نقاب اورنگ زیب اعوان
laghari768@gmail.com
پروپیگنڈہ کو سیاست کا ایک اہم ہتھیار تصور کیا جاتا ہے. کیونکہ سیاست دان سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت اپنے مخصوص مقاصد کی تکمیل کے لیے پروپیگنڈہ کا سہارا لیتے ہیں. سادہ لفظوں میں پروپیگنڈہ سے مراد جھوٹ، فریب سے کام لینا ہے. ہٹلر کا مشہور قول ہے . کہ اتنا زیادہ جھوٹ بولو. کہ لوگوں کو سچ کا گمان ہونے لگے. مطلب کے کسی بات کو اس شدت سے دوہرایا جائے. کہ لوگ اس پر آنکھیں بند کرکے اعتبار کرنے پر مجبور ہو جائے. پاکستانی سیاست پروپیگنڈہ کی تعریف پر پورا اترتی ہے. ہمارے ہاں عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے قدم قدم پر جھوٹ کا سہارا لیا جاتا ہے. اس کو سر سبز باغ دیکھائے جاتے ہیں. مگر حقیقت اس کے بالکل برعکس ہوتی ہے. اس صورتحال کو ہم سیاست کا منفی پہلو بھی کہہ سکتے ہیں. کیونکہ زمانہ قدیم ہی سے سیاسی مفکرین کے درمیان سیاست کے منفی اور مثبت پہلو بارے اختلاف رائے چلی آ رہی ہے. مثبت سوچ کے حامل مفکرین کے نزدیک سیاست عوامی خدمت کا نام ہے. جبکہ منفی سوچ رکھنے والے مفکرین سیاست کو اپنے مخصوص مقاصد کی تکمیل کا بہترین ذریعہ تصور کرتے ہیں. یہی طبقہ فکر پروپیگنڈہ کو سیاست کا بہترین ہھتیار تصور کرتا ہے. کیونکہ اس نے اپنے منفی مقاصد کو پایہ تکمیل تک پہچانے کے لیے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنا ہوتی ہے. پاکستانی سیاست میں دونوں سوچ رکھنے والے سیاست دان پائے جاتے ہیں. بدقسمتی سے ملک پاکستان میں مثبت سوچ کی سیاست کو پروان نہیں چڑھنے دیا گیا. ہم نے تقریباً سو سال تک انگریز سرکار کی غلامی کی ہے. اس لیے ہماری ذہنیت غلامانہ سوچ کی عکاسی کرتی ہے. ہم سیاست میں جھوٹ، فریب اور مکار لوگوں کی پونجا کرتے ہیں. انہیں اس مقام پر بیٹھا دیتے ہیں. کہ ان کے خلاف ایک لفظ سننا بھی ہم گوارہ نہیں کرتے. سیاست میں اچھے برے لوگ ہوتے ہیں. اس لیے ان کو ان کے کردار کے مطابق عزت دینی چاہیے. ذوالفقار علی بھٹو ایک عوامی لیڈر تھے. انہوں نے عوامی خدمت کی سیاست کی بنیاد رکھی. روٹی، کپڑا اور مکان ان کی سیاست کا بنیادی مقاصد تھا. وہ پاکستان کی غریب عوام کو ہر وہ سہولت اور آسائش دینا چاہتے تھے. جو ان کا بنیادی حق تھا. مگر وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے. کیونکہ ان کی جارحانہ سیاست ملکی اسٹیبلشمنٹ سے متصادم تھی. اس لیے ان کے درمیان گشیدگی شروع ہو گئی. جس کا انجام سابق وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کی صورت میں ہوا. ان کے بعد میاں محمد نواز شریف نے عوامی خدمت کی سیاست کو اپنی سیاست کا منشور بنایا. اور پاکستانی عوام کی حقیقی خدمت کے لیے لازوال ترقیاتی منصوبوں پر کام شروع کیا. ان کی بھی ملکی اسٹیبلشمنٹ سے جنگ رہی. یہ تین بار ملک پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہونے. مگر تینوں بار ان کو اقتدار سے غیر قانونی طریقہ سے الگ کر دیا گیا. عوامی خدمت ہر بار ان کا جرم قرار پایا. ان کے متبادل کے دور پر پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان کو سامنے لایا گیا. انہوں نے عوامی خدمت کی بجائے. پروپیگنڈہ کو اپنی سیاست کا موثر ہتھیار بناتے ہوئے. اپنے سیاسی مخالفین کی کردار کشی اور عوام کو سبز باغ دیکھانے کے لیے اس کا بھرپور استعمال کیا. بلاشبہ عمران خان پر قسمت کی دیوی مہربان ہے. انہوں نے عوام کے لیے کچھ نہیں کیا. پھر بھی عوام ان کی ہر بات پر اعتبار کرتی ہے. کیونکہ وہ ہٹلر کے قول پر اپنی سیاست کرتے ہیں. کبھی 35 پنکچر کا پروپیگنڈہ، تو کبھی پاکستان مسلم لیگ کی اعلیٰ ترین قیادت بارے توہین رسالت کا پروپیگنڈہ، کبھی امریکی سازش، سائفر تو کبھی اندرونی مداخلت کا پروپیگنڈہ ان کی تمام سیاست پروپگینڈہ پر استوار ہے. جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے. عمران خان توہم پرستی کے مرض کا شکار ہو چکے ہیں . یہ لوگوں کی فال نکلوا کر انہیں عہدوں پر تعنیات کرتے تھے. ان میں اچھے اور برے انسان کی پرکھ کی تمیز نہیں. یہ دعویٰ کرتے ہیں. کہ سابق جنرل قمر جاوید باجوہ نے ان کی حکومت کا خاتمہ کیا. تو انہیں وزارت عظمی کے منصب ہر بٹھانے والے بھی یہی جنرل قمر جاوید باجوہ تھے. جنرل قمر جاوید باجوہ چاہتے تھے . کہ پنجاب کے وزیراعلیٰ کے منصب پر چوہدری پرویز الٰہی کو بٹھایا جائے. جس پر عمران خان کے تحفظات تھے. وہ چوہدری برادران کے بارے میں اچھی سوچ نہیں رکھتے تھے. مگر آج جب ان پر برا وقت آیا ہے. تو چوہدری پرویز الٰہی ہی ان کے ساتھ کھڑے ہیں. باقی سب بھاگ گئے ہیں. عثمان بزدار جو ان کی آنکھ کا تارا اور ان کا وسیم اکرم پلس تھا. جس نے صوبہ پنجاب کی عوام کو ذلیل و رسوا کیا. اس کا آتا پتہ نہیں وہ کہاں گم ہے. مگر چوہدری پرویز الٰہی آج قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کر رہا ہے . جو شخص انسان کو نہیں پرکھ سکتا. وہ عظیم لیڈر نہیں بن سکتا. مفاہمت پرستی کی سیاست کے بے تاج بادشاہ بھی ہیں. جو اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تارا ہیں. ان میں سرفہرست متحرم آصف علی زرداری ہے. جو ہر جگہ فٹ ہو جاتے ہیں. اس لیے انہیں مفاہمت کا بادشاہ کہا جاتا ہے. میاں محمد شہباز شریف بھی اسی فہرست میں آتے ہیں. الیکشن 2024 کے نتائج کے مطابق وفاق اور صوبوں میں مختلف سیاسی جماعتوں کی حکومتیں معرض وجود میں آئی ہیں. مرکز میں اسٹیبلشمنٹ کی حکومت، پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ ن، سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی، خیبر پختون خواہ میں پاکستان تحریک انصاف اور بلوچستان میں بھی اسٹیبلشمنٹ کی حکومت بنی ہے. صوبوں میں مختلف سیاسی جماعتوں کی حکومتیں ہونے کی وجہ سے اب ان کی کارگردگی کا پول کھل کر سامنے آئے گا. پاکستان کی عوام کو بھی یہ جانچنے کا موقع ملے گا. کہ کون پروپیگنڈہ کی سیاست کر رہا ہے. اور کون عوامی خدمت کی. پنجاب میں وزیراعلیٰ محترمہ مریم نواز شریف کی قیادت میں پاکستان مسلم لیگ ن نے عوامی خدمت کی سیاست کا آغاز زور شور سے شروع کر دیا ہے. وزیراعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز شریف روز کسی نہ کسی عوامی منصوبے کا سنگ بنیاد رکھ رہی ہے. کیونکہ انہیں اس بات کا ادراک ہے کہ شریف فیملی بالخصوص میاں محمد نواز شریف کی سیاست کی بقاءعوامی خدمت میں ہی پوشیدہ ہے. اس لیے وہ دن رات عوامی خدمت کو اپنی سیاست کا منشور بنا کر اس پر عمل پیرا ہے. ان کے سیاسی مخالفین بھی ان کی تعریف کیے بنا نہیں رہ پا رہے. سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی بھی عوام کی فلاح بہبود کے لیے جدوجہد کر رہی ہے. خیبر پختون خواہ میں علی امین گنڈا پور نے وزارت اعلیٰ کا قلمدان سنبھالا ہے. بلاشبہ وہ ایک سیاسی ورکر ہے.وہ اپنے صوبہ کی عوام کے لیے بہت کچھ کر سکتے ہیں. مگر وہ عوامی خدمت کی بجائے کسی کی ذاتی منشا کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے مشن پر کاربند ہے. وہ صوبائی اسمبلی کا اجلاس نہیں بلا رہے. ان کے مقاصد سیاسی نہیں ذاتی ہیں. وہ خواتین کی مخصوص نشستوں کے لیے سپریم کورٹ میں گئے ہیں. وہ تب تک اجلاس نہیں بلانا چاہتے. جب تک وہاں سے کوئی فیصلہ نہ آ جائے. ان کی اس بچگانہ سوچ سے خیبر پختون خواہ کی عوام ذلیل و رسوا ہو رہی ہے. متحرم وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور خود کہتے ہیں. کہ صوبہ خیبر پختون خواہ اربوں روپیہ کا مقروض ہیں. ہمارے ہاں روزگار نہیں. انہی کی جماعت کے متحرم شیر افضل خان مروت کہتے ہیں. کہ ماضی میں خیبر پختون خواہ کی حکومت کے وزراءنے خیبر پختون خواہ کے وسائل کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا ہے. انہیں کے بقول پاکستان تحریک انصاف کا سنی اتحاد کونسل سے اتحاد سب سے بڑی غلطی ہے. کیونکہ سنی اتحاد کونسل نے الیکشن کمیشن آف پاکستان میں تحریری طور پر لکھ کر دیا ہے. کہ انہیں مخصوص سیٹیں نہیں چاہیے. پروپیگنڈہ کی سیاست اب نہیں چلنے والی. ماضی میں پنجاب میں بھی یہ گھناو¿نہ کھیل کھیلا جاتا ریا ہے. پاکستان تحریک انصاف کا سپیکر صوبائی اسمبلی پنجاب کبھی اجلاس نہیں بلاتا تھا. تو کبھی وزیراعلیٰ کے الیکشن کے موقع پر گنتی نہیں کرواتا تھا. میاں حمزہ شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہوئے. تو سپیکر نے رولنگ دے کر کچھ ارکان کے ووٹ مسترد کر دیئے. یہ پروپیگنڈہ کی سیاست تھی. جس کا انجام اچھا نہیں رہا. اب بھی پاکستان تحریک انصاف اسی روش پر چل رہی ہے. وہ الیکشن میں دھاندلی کا شور کر رہی ہے. جبکہ اپنی دھاندلی پر آنکھین بند کر رہی ہے. ان کے اپنے موجودہ وزیراعلیٰ خیبر پختون خواہ کا اعتراف ہے. کہ صوبہ مقروض اورعوام بے روزگار ہے. پھر ان کو اس عوام نے دوبارہ منتخب کیسے کروا دیا. یہ تو لوگوں کے ووٹ چوری کر کے اقتدار میں آئے ہیں. پاکستان تحریک انصاف کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے. کہ مخصوص طبقہ فکر تو کسی ایک سیاسی شخصیت کو پسند کرتا ہے. مگر عام عوام نہیں. عام عوام کا سیاسی لیڈر وہی ہوتا ہے. جو انہیں روزگار، روٹی، کپڑا، مکان اور دیگر آسائشیں زندگی فراہم کرے. محض پروپیگنڈہ عوام کا پیٹ نہیں بھر سکتا. پروپیگنڈہ سیاست کا ایک مہک ہتھیار ضرور ہے. مگر عوامی خدمت سے زیادہ طاقت ور نہیں. جس نے بھی عوامی خدمت کی سیاست کو اپنا لیا. وہی عوام کے دلوں پر راج کرے گا. محض پروپیگنڈہ کی سیاست کرنے والے اب زیادہ دیر اپنی سیاست کو زندہ نہیں رکھ پائے گے. ابھی بھی وقت ہے. سب ہوش کے ناخن لیں . اور ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے کی بجائے. عوامی خدمت کی سیاست کو اپنا منشور بنا کر عوام کی خدمت کرے. اسی میں ان کی اپنی اور ملک پاکستان کی سلامتی و بقاءہے.