طارق محمود مرزا۔ آسٹریلیا
اقبالؒ کے فلسفہ خودی اور اس سے متعلقہ بحث کا ماحَصل یہ ہے کہ اقبالؒ عام آدمی کو مکمل انسان، انسان کو مردِ مومن اور مردِ مومن کو مردِ کامل دیکھنے کے متمنّی تھے۔ وہ انسان جو نیابتِ الٰہی کے قرآنی تصوّر کے عین مطابق ہو۔ اس کی ہمّت، طاقت اور ارادے کی قوّت ایمان سے مشروط ہو۔ اس ایمان سے جو ایک اللہ کے سوا کسی اور معبود کی طرف نہ دیکھتا ہو۔ جس میں اللہ تمام جہانوں کا مالک ہے۔ تمام طاقتوں کا سر چشمہ ہے۔ اس پر ایمان اور اس کی عبودیت سے انسان دنیا کے تمام جعلی خداﺅں کے آگے جھکنے، ان سے ڈرنے اور ان سے مانگنے سے بچ جاتا ہے۔قرآن جہاں اللہ کی اس طاقت اور خدائی کا اظہار کرتا ہے وہاں وہی اللہ انسان کو مسجودالملائک بنا کر اپنی خدائی میں سے ایک حصہ بخشتا ہے۔ اسے اپنا خلیفہ بنا کر زمین پر اُتارتا ہے اور اسے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازتا ہے۔ خدا کی خدائی میں اس محدود شرکت میں کوئی تضاد محسوس نہیں ہونا چاہیے۔ اس نے اپنی مرضی اور اپنی منشا سے اپنے بندوں کو اپنے نائب، اپنا خلیفہ، اپنا وزیر بنا کر بہت سے اختیارات سے بھی نواز رکھا ہے۔ بادشاہی بے شک اسی کی ہے اور رہے گی۔ مگر یہ خلیفہ بھی اتنا بے اختیار نہیں ہے۔ اسے بھی خدا نے اپنا راستہ چننے کا اختیار دیا ہے۔ یہ امتحان ہے مگر یہ اختیار بھی ہے۔ اقبالؒنے فرمایا تھا کہ اللہ کے دیے گئے اختیار کو اس طرح استعمال کرو کہ خدا بھی آپ کی مرضی دریافت کرے۔
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
یہ اللہ اور بندے کے درمیان مضبوط تعلق اور انسان کی عظمت دونوں کی دلالت کرتا ہے۔اقبالؒ نے ہمیں یہ بھی بتا دیا ہے کہ انسان کی یہ تمام طاقت اور اختیار اللہ کا خلیفہ اور بندہ بن کر رہنے میں ہے۔ جس دن اس نے اللہ کے علاوہ کسی اور کے آگے سر جھکا دیا اس دن اس کا مقام اورمرتبہ بھی دھڑام سے گر جاتا ہے۔اقبال ؒ نے کس قدر واشگاف انداز میں بتا دیا ہے۔
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
یہ گراں سمجھا جانے والا سجدہ دراصل رِفعت اور عظمت پر لے جانے والا سجدہ ہے۔ ذلت اور رسوائی سے نجات کا سجدہ ہے۔ گویا خودی کے حصول اور استحکام کے لیے خدا کا دامن تھامے رکھنا، صرف اسی سے لو لگا کر رکھنا، اسی کو تمام طاقت کا سر چشمہ سمجھنا اور صرف اس کے آگے سر جھکانا ہے۔ خودی کا سرِ نہاںہے لا الہ الا اللہ۔ یہ دنیا کا مال دولت، یہ دنیاوی جاہ و حشمت، یہ عارضی حکومت اور طاقت اور جعلی اور جھوٹے خدا، خودی کی راہ میں روڑے ہیں۔ عرفانِ ذات کی راہ میں رُکاوٹ ہیں۔ جبکہ اللہ سے براہِ راست تعلق اسے مضبوط و توانا بناتا ہے۔ حتیٰ کہ اللہ کے اتنے قریب کر دیتا ہے کہ انسان کو دُنیا کی کوئی طاقت زیر نہیں کر سکتی۔ اس کی خود آگہی، وجدان اور سوز و گداز اسے نورِ معرفت عطا کر دیتا ہے جس سے بڑی نعمت کوئی نہیں ہے۔اقبال نے جس خودی کا پیام دیا ہے وہ بیک وقت انفرادی بھی ہے اور اجتماعی بھی، دُنیاوی بھی ہے اور آخروی بھی۔ جہاں انھوں نے دنیا میں کامیاب اور بھرپور زندگی گزرنے کا درس دیا ہے وہاں آخرت کی تیاری اور اصل امتحان کی طرف بھی متوجہ کیا ہے۔
یہ مال و دولتِ دُنیا یہ رشتہ و پیوند
بُتانِ وہم و گمان لا الہ الا اللہ
یہ اس فقر کی طرف اشارہ ہے جو خودی کی تربیت کا حصہ ہے۔ یہ فقر انسان کو ایسی شانِ بے نیازی اور استغنیٰ عطا کر دیتا ہے کہ شاہی بھی اس کی نظر میں ہیچ ہے۔اقبال کا رسول اللہﷺ سے جو عشق اور عقیدت کا رشتہ ہے وہ بھی ان کی تعلیم اور پیام کی بنیاد میں شامل ہے۔ اللہ کے نبیﷺ کی تعلیم اور ان کا اُسوہ حسنہ دراصل تکمیل انسانیت کا سبق ہے اور اقبال جذباتی اور عقلی دونوں طرح اس سے جڑے ہوئے ہیں۔ اگر خودی کے دونوں مقاصد دُنیوی اور اُخروی کا جائزہ لیا جائے تو دونوں مقاصد بالآخر ایک ہو جاتے ہیں۔ دنیا میں طاقت اور اختیار کا منبع اِقتدار سمجھا جاتا ہے۔ طاقت کے باقی مظاہر اس سے مربوط ہیں۔ اس کے مقابل اُخروی طاقت کے طلبگار دُنیاوی اقتدار سے بے نیاز ہو کر اپنے باطن کو روشنی، حرارت اور توانائی سے مزین کرتے ہیں۔ وہ دُنیا کے جاہ و جلال کی پرواہ نہیں کرتے۔ کیونکہ ان کے دل عشق و فقر سے سرشار ہوتے ہیں۔نبی پاکﷺ کو طاقت کی یہ دونوں جہتیں حاصل تھیں۔ ایک جانب وہریاستِ مدینہ کے سر براہ تھے اور دوسری جانب شب بھر خالق سے راز و نیاز کرتے تھے۔ دنیا کے تقاضے بھی بحسن و خوبی نبھائے اور دین کے قیام اور سر بلندی کے لیے بھی زندگی وقف کیے رکھی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ خودی صرف ذات کی نگہداشت اور نشوونما تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ اسے خاندان، معاشرے اور ملک و ملت تک پھیلانے کی ضرورت ہے۔اقبال ؒکے نزدیک سچا فقر یہی ہے کہ شاہی میں فقیری اور فقیری میںشاہی حاصل ہو۔
میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
اقبالؒ کے نزدیک مقصد سب سے اہم ہے۔ اگر طاقت و اقتدار ہی مقصد ہے تو فرعون سے لے کر سکندر اور ہلاکو جیسی شخصیت بننے کے امکان ہیں۔ اگر صرف فقر و فاقہ ہی مقصد ہے تو خانقاہوں، درباروں اور عبادت گاہوں میں بے شمار لوگ پڑے ہوئے ہیں۔ مگر اقبال بامقصد راہ پر چلنے والوں کو اصل بندہِ مومن سمجھتے ہیں جو رزمِ حق و باطل ہو تو فولادِ نظر آئے اور حلقہِ یاراں میں ہو تو ریشم کی طرح گداز ہو جائے۔ اس کے جاہ و جلال سے دشمن لرزہ براندام ہوں مگر اس کی خدا خوفی بے مثل ہو۔ایسی مثالیں صحابہ کرامﷺ میں بکثرت ملتی ہیں۔ حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں حضرت ابو عبیدہؓ کی قیادت میں اسلامی لشکر بیت المقدس فتح کرنے گیا تو عیسائیوںنے جنگ بندی اور بیت المقدس کی حوالگی کے لیے خلیفہِ وقت حضرت عمر فاروقؓ کی موجودگی کی شرط رکھی۔ حضرت ابو عبیدہؓ نے مناسب سمجھا کہ کشت و خون سے بچا جائے اور حضرت عمرؓ کو مکتوب لکھا۔ حضرت عمرؓ نے صحابہؓ سے مشورہ کیا اور بیت المقدس جانے کے لیے تیار ہو گئے۔ خلیفہ وقت کا سفر اس انداز میں تھا کہ ان کے پاس ستوﺅں کا ایک تھیلا، ایک اُونٹ، ایک غلام اور ایک لکڑی کا پیالہ تھا۔ سفر کی سادگی اور جفاکشی بے مثل و بے نظیر تھی۔ کبھی غلام اُونٹ کی مہار پکڑ کر چلتا اور فاروقِ اعظمؓ اُونٹ پر سوار ہوتے اور کبھی حضرت عمرؓ اُونٹ کی مہار پکڑ کر چلتے اور غلام اُونٹ پر سوار ہوتا۔ یہ جفا کشی، یہ عدل اور یہ فقر وقت کے عظیم ترین حاکم کا تھا جس کی فوجیں قیصر و کسریٰ کے محلات روند چکی تھیں۔ یہ فقر، خودی اور خدا سے تعلق کی بہترین مثال ہے۔ یہی خودی ہے اور یہی وہی عظمت ِانسانی ہے جو مدّعائے اقبالؒ ہے۔
Email: tariqmmirza@hotmail.com