حکومتی ایوارڈز اور عوامی ردعمل

آخری مغل فرمانروا بہادرشاہ ظفرکی حکومت دہلی کے لال قلعے تک محدود تھی۔اپنے محدود وسائل کے باوجود وہ علم ودانش کی دنیا سے وابستہ لوگوںکے قدردان تھے۔شاہی دربار سے وابستہ لوگوں کو ان کی سرکار کی طرف سے مختلف خطابات دیے جاتے تھے۔شاعر،موسیقار،گلوکار اورسپاہی سب اس بارگاہ سے فیض یاب ہوتے تھے۔انھی دنوں شہر میں ایک حکیم صاحب وارد ہوئے۔لوگوں کے مطابق وہ غیرمتوازن شخصیت کے حامل ایک ہونق سے آدمی تھے۔ان کے سر پر بالوں کی ایک جھالر سی تھی۔مزاحیہ شعر توکہتے ہی تھے،ان کا ظاہری حلیہ بھی عجیب وغریب ساتھا۔کسی نہ کسی طرح ان کی رسائی بادشاہ سلامت تک ہوگئی۔ان کی ”ناقابل بیان“خدمات کو دیکھتے ہوئے مغلیہ حکومت کی طرف سے انھیں ہدہدالملک حکیم پھکڑ گنج کا خطاب دیا گیا۔اس خطاب کی اوقات کیا تھی اس پر بات کرنے کا محل نہیں۔اسی طرح اودھ کے ایک حاکم کی طرف سے اردو شاعر امام بخش ناسخ کو پیغام بھیجا گیا کہ آپ فلاں دن دربار میں حاضری دیں،ہم آپ کو ایک اہم خطاب دینا چاہتے ہیں،انھوں نے جواب میں کہلا بھیجا کہ میں یہ خطاب لے کر کیا کروں گا۔جب حکومتیں بے حیثیت ہوں تو خطابات کی اہمیت نہیں رہتی۔تاج برطانیہ کی حکومت بھی اپنی دریا دلی اور علم پروری کی دھاک بٹھانے کے لیے سر، شمس العلما،مولوی صاحب اور خان صاحب وغیرہ کے خطاب دیتی تھی۔ایوارڈز دینے کامقصد بھی زندگی کے مختلف شعبہ جات میں نمایاں مقام حاصل کرنے والے لوگوں کو تعظیم دینا ہے۔یہ ایک اچھا عمل ہے، ان کے حصول کے لیے لوگ خاصے پرجوش بھی ہوتے ہیں۔صدر پرویز مشرف کے خلاف وکلاءکی تحریک کے دوران ایک اہم شاعر نے جوش ِ خطابت میں آکر حکومتی ایوارڈ واپس کرنے کا اعلا ن کردیا۔ مختلف حلقوں میں اس عمل کوبہت سراہا گیا۔ سنا ہے کہ چند روزبعدحکومت کی طرف سے انھیں پیغام ملا کہ” جناب! آپ کا مسترد کردہ ایوارڈتو ہم تک پہنچ گیا ہے،البتہ اس کے ساتھ ایک اچھی خاصی رقم کا چیک بھی آپ کو پیش کیا گیا تھا،اس کا تاحال انتظار ہے،کب بھیج رہے ہیں۔“یہ پیغام سن کر انھیں تو جیسے سانپ ہی سونگھ گیا۔اللہ جانے اس خبر میں کہاں تک صداقت ہے۔ہمارے ہاں سرکاری ایوارڈز لینے کے لیے جس طرح سے کوششیں کی جاتی ہیں،ان کا کہاں تک بیان ہو،کہ اب تو ہمیں خود حجاب آتا ہے۔”کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں۔۔۔“ ،اس ماحول میں کچھ لوگوں کے لیے ان اعزازات کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ 1964ءمیں وجودی فلسفی ژاں پال سارتر کو نوبل انعام دینے کا اعلان کیا گیا لیکن انھوں نے ویت نام جنگ میں مغرب کی پالیسیوں سے اختلاف کی بنا پر یہ ایوارڈ اور اس کے ساتھ ملنے والی خطیر رقم لینے سے انکار کردیاتھا۔2017ءمیں محمدسلیم الرحمان نے تمغہ ¿ حسن کارکردگی کو رد کردیا تھا۔ ممکن ہے حکومتوں کے نزدیک لوگوں کو ہم نوا بنانے کے لیے اس طرح کی کاوشیں کی جاتی ہوں،کیوں کہ ہم نے ”پاکستان رائٹرز گلڈ“ اور”نیشنل پریس ٹرسٹ“ کے قیام کی ہوش ربا داستانیں پڑھ رکھی ہیں۔ یہ رطب ویابس ہانکنے کا مقصد یہ ہے کہ سرکاری ایوارڈز اچھے ہوتے ہیں برے نہیں ،البتہ ان کے حصول سے ضروری نہیں کہ کسی کی قدروقیمت بڑھ جائے۔میں ذاتی طور پر کسی بھی حکومت کی طرف سے دیے گئے ایوارڈز کی پالیسی کو تحسین کی نظرسے دیکھتا ہوں۔اگر پچاس فی صد لوگوں کو بھی جائز ایوارڈ مل جائے تو بڑی حد تک ان کی محرومیوں کا ازالہ ہوجاتا ہے۔ حکومت پاکستان ہرسال یوم آزادی کے موقع پر زندگی کے مختلف شعبوں میں اعلیٰ خدمات انجام دینے والی شخصیات کو ایوارڈ دینے کا اعلان کرتی ہے۔یوم پاکستان کے موقع پر ایوان صدر اور چاروں صوبوں کے گورنرہاﺅ سز میں ان ایوارڈز کی تقسیم کی تقریبات منعقد ہوتی ہیں۔حکومتی سطح پردئیے جانے والے ان ایوارڈ ز کو درجہ بدرجہ نشان ِپاکستان،تمغہ¿ حسن کارکردگی، ستارہ ¿امتیازاور تمغہ ¿ امتیازکا نام دیاجاتا ہے۔یہ عمل ایک عمدہ روایت کا تسلسل ہے۔ اربابِ علم و فن کو نوازنے کی یہ پالیسی ستائش کے لائق ہے،البتہ اس کوبڑی حدتک شفاف بنانے کی ضرورت ہے۔قرآن مجیدمیں ارشاد خداوندی ہے کہ ”اے ایمان والو! جب کوئی فاسق تمھارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کرلیا کرو کہ کسی قوم کوانجانے میں تکلیف نہ دے بیٹھو۔پھراپنے کیے پر شرمندہ نہ ہونا پڑے“۔افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ہاں ایسی افواہ ساز فیکٹریوں کی کمی نہیں جوآن واحد میں کسی بھی عمل کا میڈیا ٹرائل شروع کردیتی ہیں۔ چندروزپہلے 23مارچ کو یوم پاکستان کے موقع پر دیے گئے ایوارڈز کو مختلف حلقوں کی طرف سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ سوشل میڈیا پر سب سے پہلے افواہ اڑائی گئی کہ اس سال ایوارڈز کے حق دار دیے جانے والے لوگوں کی فہرست میں کوئی ڈاکٹر،کوئی انجینئر،کوئی سائنس دان یا تاریخ دان شامل نہیں۔ہمارے لوگ بھی باکمال ہیں کہ انھوں نے بلا تصدیق اس افواہ کو آگے بڑھانا شروع کردیا۔جب مکمل فہرست جاری ہوئی تو معلوم ہو اکہ یہ بات درست نہیں۔اصل میں شوبز ،کھیلوں،مصوری اور ادب وصحافت کے شعبوںسے تعلق رکھنے والے لوگوں کی خبریں معروف ہوجاتی ہیں ،سائنس ،تاریخ اور طب وغیرہ سے تعلق رکھنے والے لوگ زیادہ مشہور نہیں ہوتے اس لیے عام طورپر ان کے نام زیادہ نمایاں نہیں ہوپاتے ۔اس سال بہت سے اہل لوگوں کو ایوارڈ سے نوازا گیالیکن ابھی اس شعبے میں مزید شفافیت کی ضرورت ہے۔دوسری صورت میں لوگ پوچھنے کے مجاز ہیں کہ مجیدامجد اور ن۔م ۔راشد جیسے عہدساز شاعرتو مرنے کے چالیس پچاس سال بعد ایوارڈ کے حق دار ٹھہریں اور نوآموزوں کو جن کی عمریں بھی چالیس پچاس سال سے کم ہیں ،ذاتی پسند ناپسند پریہ تکریم دی جائے۔اس سے حکومتوں اور ان کے ایوارڈز کا وقار خراب ہوتا ہے۔ہمارا وطن پاکستان کوئی بازیچہ ¿ اطفال نہیں،لاکھوں شہدا کی قربانیوں سے حاصل کی گئی اس جنت ارضی کی ایک اہمیت ہے،اس کے منسلک تمام روایتوں کی ایک قدروقیمت ہے،اس کے وقار کو قائم رکھنا حکومتی اداروں کا فرض ہے۔ تاریخ کا سچ بڑا بھیانک ہوتا ہے۔وقت کے رتھ کے بے رحم پہیوں کے نیچے آکر کچلے جانے سے بہتر ہے کہ خوداحتسابی کے عمل سے گزرا جائے۔کسی قوم کی بھی ایک طبعی عمر ہوتی ہے،اللہ ہماری عمر دراز کرے۔ 

ڈاکٹر افتخار شفیع- سرمایہ¿ افتخار

ای پیپر دی نیشن