ہمارا نظام ان نام نہاد دانشوروں اور فقیہہ الذہن رفقا کے ہاتھوں کٹھ پتلی بن کے رہ گیا ہے۔ ہماری پرشکوہ تہذیب و تمدن اور آدابِ معاشرت تنزلی کے کنارے پر کھڑی نظر آ رہی ہے، دربار علم و فضل راسخ العقیدگی کے مدافع اور اساس کے عروج کے مظہر حامی معاشرے کی شکست و ریخت کے عمل میں ریت کی طرح بکھر رہے ہیں، شکست فاش ان کا مقدر نظر آ رہی ہے، کیونکہ ان کے قلم قبیلے میں پھوٹ ڈل چکی ہے۔ اِن کی اپنی اولادیں ان کے اختیار سے نکل رہی اور ان کے ہاتھ سے پھسل رہی ہیں۔ اب تو تاریخ کو قصہ پارینہ قرار دے کر آج کی نسل اس کے مخالف اور مقابل کھڑی ہو چکی ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ صدیوں بعد جب آج کی تہذیب و تمدن اور نظریات کے متعلق مورخین لکھیں گے تو اس دور کو کیا نام دیں گے، آزاد منش، بے راہ رو، بدتہذیبی کا دور یا پھر نئی تہذہب و تمدن کا پرچار کرنے والی بے ادبی، تعیش پرستی کی دیمک زدہ بنیادوں پر عمارت کھڑی کرنے والے غلامانہ ذہنیت کے مالک معماروں کے نام سے یہ دور جانا پہچانا جائے گا۔ دینی اور عرفانی سرگرمیاں تو خال خال نظر آتی ہیں اور بزرگی کا احترام ایک مذاق بن کے رہ گیا ہے۔ دیکھنے میں تو آج کی نسل کو دنیاوی سطح پر روشنی ہی روشنی نظر آتی ہے مگر روحانی سطح پر تاہنوز تاریکی کا غلبہ بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ معاملہ کوئی معمولی نوعیت کا نہیں بلکہ نسلوں کی راستی کا ہے۔ امریکی نسل کی تیاری صہیونی درسگاہوں کی تعلیم، اسلامیات اور اردو سے بیزاری، سکولوں کالجوں میں مخلوط تعلیم، شرفا کی عزتوں کا جنازہ اور ہمارے معلم کے کردار و گفتار پر اعتراضات کا پلندہ۔۔۔!
آخر یہ کونسا مربوط نظام ہے۔ اس میں تو کہیں بھی اپنی تہذیب، اپنا مذہب، اپنی پہچان نظر نہیں آتی۔ سکولوں میں معلم خواتین کے انتہائی قابلِ اعتراض لباس کو اس سکول کی شہرت گردانا جاتا ہے۔ مخلوط تعلیم کے نظام نے اس نئی نسل کو جتنا متاثر کیا ہے اتنا تو ایک مئے خانہ بھی کسی ساقی اور رِند کو نہیں کرتا۔ سر سید احمد خان نے جب علیگڑھ یونیورسٹی بنائی تو انہوں نے یہ نہیں کہا کہ عورت تعلیم حاصل نہ کرے بلکہ وہ تو تعلیم یافتہ عورت کو سراہتے تھے کیونکہ ایک پڑھی لکھی ماں ایک نسل کو سنوارتی ہے لیکن اس تعلیم میں تعلیمی درسگاہ اور اس عورت سے اگر آج کی عورت تعلیم اور تعلیمی درسگاہ کا مقابلہ کریں تو شاید سر سید احمد خان یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں کہ (اس ماحول او ر تہذیب کے حامل سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں سے اپنی عورت کو محفوظ رکھیں ورنہ آپ کی نسلیں تباہ ہو جائیں گی)۔
ہمارے نصاب کا یہ عالم ہے کہ بہت سے موضوع قابل اعتراض ہیں۔ اسلامیات کے پیریڈ سب سے کم رکھے جاتے ہیں۔ قرآنی تعلیمات کا سوائے نصاب کے سکھانے پڑھانے کا رواج ختم ہو گیا ہے اور تو اور ذی شعور پڑھے لکھے طبقے جن کی تربیت میں پند و نصائح کا خمیر ہے وہ بھی اب اس نئی تہذیب اس نئے معاشرتی اخلاق اور درس کے پیشوا نظر آتے ہیں۔ اس تمام صورتحال میں ہمیں ایسے حادثات اور تغیرات سے بھرپور ایک عالم دکھائی دے رہا ہے جس میں سوائے ہمارے نظریے کی اساس کی موت کے کچھ نہیں۔ ہماری تہذیب وتمدن اور نظریاتی اساس کی سلامتی واضح طور پہ ختم ہوتی اس لئے بھی نظر آ رہی ہے کہ میڈیا پر آس چینل پر جو پی ٹی وی کے نام سے پاکستان کی پہچان ہوا کرتا تھا وہاں پر ہماری تہذیب کی امین عورت بِنا دوپٹے کے یوں نظر آتی ہیں کہ جیسے اس کا آنچل اور اس کی عزت سے کوئی رشتہ ہی نہیں۔ یہ چینل تو مثال ہوا کرتا تھا اور جب ستر کی دھائی میں آزادانہ روش عام ہونے لگی تو پھر بھی ہماری اناﺅسرز اور نیوز کاسٹرز نے اپنے سر سے آنچل ڈھلکنے نہیں دیا۔ یہ تو بات ہے ٹی وی کی، ہماری اپنی تہذیب سے ہمارے حکومتی عہدیدار ہی کب فارغ الذمہ نظر آتے ہیں۔ ترکی، ایران، شام، سعودی عرب گو کہ جب بھی کوئی ان ممالک کا عہدیدار سرکاری دورے پر نکلتا ہے تو اپنے قومی لباس اور قومی زبان جو ان کی تہذیب و تمدن اور نظریاتی اساس کا آئینہ ہے کی پاسداری کرتے نظر آتے ہیں مگر ہمارے حکومتی عہدیدار تو نہ صرف اپنا لباس اور ثقافت بھول بیٹھے بلکہ زبان سے بھی نابلد ہو جاتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر اور ظلم کیا ہو گا کہ اکثر موقعوںپر ہمارے بڑ ے بڑے لیڈر قرآن پاک کی ایک چھوٹی سی سورت کو تلاوت کرتے ہوئے اسے بھول جاتے ہیں۔ بھلا یہ کیسا انصاف ہے کہ اپنی ہی نفی کر کے اپنی پہچان بنانے نکلتے ہیں کیا ہم اس طرح کامیاب ہو جائیں گے۔ ہماری پہچان کیا صرف انگریزی تعلیم، فحش کلچر، مذہب سے دوری، تہذیب سے روگردانی، سیاسی منافقت اس طرح ہم کب تک سانس لے سکیں گے۔ یہ یاد رہے کہ جب ہماری پہچان تہذیب و تمدن نظریہ اس کی اساس ہمارے ہی ہاتھوں زندان میں پابندِ سلاسل کر کے پھینک دی جائے گی تو ہمیں کہیں بھی پناہ نہیں ملے گی۔