دنیا میں قیمتیں مستحکم، پاکستان میں مہنگائی کیوں؟ یہ سوال ہے تو بہت اچھا جو کہ ایک اہم انتہائی عالمی ادارے کی طرف سے ا±ٹھایا گیا ہے۔ اِس کا نام بعد میں بتائیں گے۔ واپس آتے ہیں کہ صرف پاکستان میں ”غذائی اشیاء“ مہنگی کیوں ہیں ؟؟ اگر ہم کاروباری افراد کے اذہان سے جواب ڈھونڈیں گے تو وجوہات لا تعداد۔ دن بدن بڑھتی ہوئی درآمدات کی لاگت میں اضافہ۔ بجلی۔ گیس کی نہ ر±کنے والی قیمتیں۔ لیبر کلاس کی نایابی۔ اگر دستیاب ہو جائے تو تنخواہیں بہت زیادہ۔ اب پچھلے سالوں سے مروجہ روایات کی روشنی میں جائزہ لیں تو اشیائ ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ کی دو بڑی وجوہات نظر آتی ہیں جو کہ فوری رد عمل کا نتیجہ بنتی تھیں۔ نمبر ایک ”پٹرول“ کی قیمت میں اضافہ چاہے چند پیسوں کا ہوتاتھا مگر حکومتی نفاذ سے پہلے ہی مارکیٹ پرائس بڑھا دی جاتی تھی۔ نوبت یہاں تک آچکی تھی کہ محض بڑھنے کی اطلاعات پر ہی تاجر۔ صنعت کار سالوں پہلے خریدی ہوئی ذخیرہ شدہ اشیاءپر اضافہ کا نفاذ کر دیتے تھے۔یہ تو ہوتا تھا اضافہ کی صورت میں۔ اب دیکھتے ہیں کہ ”پٹرولیم“ مصنوعات کی قیمتوں میں متعدد مرتبہ معتدبہ کمی ہوئی مگر ”مارکیٹ“ کا رجحان نہیں بدلا۔ کاروباری اشخاص نے (اطلاعات تو بہت د±ور کی بات) ”ایک پیسہ“ بھی کمی نہیں کی۔ وہ لوگ جو ”چند پیسوں“ کے اضافہ پر ”روپوں“ کے حساب سے قیمتیں بڑھا دیتے تھے۔ کمی پر کبھی آمادہ نہیں ہوئے۔ قارئین اب بتائیے۔ ہم دن رات حکومتوں کو ب±را بھلا کہتے ہوئے ذرا نہیں ہچکچاتے۔ (حکمرانوں کے فرائض اور رعایا بابت ادائیگی۔ سلوک کی پوچھ پڑتال۔کچھ کا اپنا نظام ہے دنیا کا نظام ہمیشہ گڑ بڑ کرتا ہے پر ”اصل مالک؟؟“)۔ ضروریات زندگی کے لازمی لوازمات میں بڑھوتری کی دوسری بڑی وجہ ”ڈالر“ کی قیمت میں اضافہ۔ ”ڈالر“ نے ہمیشہ ہماری معاشی مارکیٹ کو درہم برہم کرنے میں بنیادی سے زیادہ منفی کردار ادا کیا۔ چونکہ ہماری معیشت کی جان امپورٹڈ مصنوعات میں ہے۔ م±لکی ساختہ اشیاءکی قیمتیں امپورٹڈ کے مقابلہ میں ضرورت سے زیادہ ہیں وہی جواز کہ لازمی خدمات بہت مہنگی ہیں بلکہ اب تو برداشت سے باہر ہو چکی ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ”صبر پٹرولیم۔ صبر بجلی۔ صبر گیس “ کے نالوں کا جواب کب اور کیسے آتا ہے۔ ”ہم دیکھیں گے۔ لازم ہے کہ نافذ کرنے والے بھی دیکھیں گے“۔
”ڈالر “ جو ”360“ تک جا پہنچا تھا معلوم ہوتا تھا کہ بس ”500“ پر پہنچا کہ پہنچا مگر سخت کریک ڈاو¿ن پر بہت نیچے آگیا یہ الگ بات کہ ایک عرصہ تک بلیک میں قیمت زیاد ہ رہی پر اب سال سے زائد عرصہ سے ر±کا ہوا ہے۔ افسوس کہ ”کنٹرولڈ قیمت“ کا فائدہ عوام الناس کو معاشی میدان میں نہیں ہورہا۔ مارکیٹ میں اشیاءکی نایابی کے علاوہ سرکاری محکموں بشمول پاسپورٹ۔ ایکسائز (صرف دو حوالے باقی حالات سے سبھی آگاہی ہیں) میں چھپائی نہیں ہوری۔ گاڑیوں کی نمبر پلیٹس کے سال بھر سے زائد وصول کردہ پیسوں کے باوجود خریداروں کو نمبر پلیٹس جاری نہیں کی جارہیں۔ درآمدات پر غیر اعلانیہ پابندیوں کو ختم ہونا چاہیے۔ جن لوگوں نے باہر جانا ہے وہ کچھ تگ و دو کے بعد غیر ملکی کرنسی حاصل کر لیتے ہیں مگر آزادی ہونی چاہیے کہ کچھ خریدنا ہے۔ باہر بجھوانا ہے تو دستیابی آسان۔ فوری اور مستحکم قیمت پر ہو۔ ایک بروقت۔ قابل تحسین قیمت روکنے کے عمل کو کمزور کرنے کی کوششوں کو روکنا چاہیے۔ اب آتے ہیں روز مرہ بنیادی اشیائ کی طرف۔ ”ڈالر“ ایک عرصہ سے ایک خاص حد تک کھڑا ہے جب ”360“ تک پہنچا تو ”طمع مافیاز“ نے دوڑیں لگا دیں اب جس قیمت پر دستیاب ہے ”میراتھن“ کی صورت میں اشیائی قیمتوں کو واپس آنا چاہیے تھا۔ پر ایسا نہیں ہوا اور نہ ہوگا کیونکہ ہماری ”نیت“ کی فنی خرابی ہے۔
ہم صرف ”طاقت“ کی زبان سمجھتے ہیں تو حکومت کو چاہیے کہ ”ہوس مافیاز“ کی مسلط کردہ اجارہ داری۔ ذخیرہ اندوزی۔ لالچ کا طاقت کے بل پر قلع قمع کرے۔ وہاں تاجر برادری کی انسانی حقوق بابت فرائض۔ احکامات کی کامل پابندی زیادہ ضروری ہے۔ کیا زندگی کا مقصد صرف دنیا کمانا ہی ہے۔ کِسی بھی الہامی کتاب کو پڑھ لیں۔ انسانی دماغوں کی لکھی ہوئی کتابوں کو کھنگال لیں۔ کہیں بھی ایساپڑھنے کو نہیں ملے گا۔ ہر جگہ قدر مشترکہ واحد بات نظر آئے گی کہ بس چند دن کا مزہ ہے پھر ختم۔ اصل زندگی تو بس آخرت کی زندگی ہے۔ وہاں نہ راشن۔ نہ ڈالر۔ نہ تشہیری خیرات اور نہ چمک مارتی تصویروں کے جلو میں تقسیم کرنے والی زکوٰة بچا سکے گی۔ صرف ”نیت“ پر انسانوں کو تولا جائے گا۔ واحد بارگاہ الہیٰ کہ جہاں یکساں۔ بلا تفریق حساب۔ قانون کا نفاذ ”ہم سب اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے۔ لازم ہے کہ حکمران بھی دیکھیں گے “۔ تو ضروری ہے کہ اپنی قوم کو ہم خود بھی ریلیف دیں۔ اپنی ذات سے آسانیوں کا آغاز کریں۔ اصل ریلیف وہی ہے جو عوام کا حق بنتا ہے مکمل جائز عزت نفس کے تقاضوں کو پورا کرتا ہوا حق کہ ”عوام کی عزت کو زک نہ پہنچائیں۔ لائنوں میں نہ لگائیں “۔ اپنی تصویروں کے ساتھ سرکاری خزانے سے چلائی جانے والی فلاحی سیکیمیں (ہر دور میں) مت چلائیں۔ قوم کو بھکاری بنانے والی تمام مشقیں اب اتنی کامیاب ہوچکی ہیں کہ ہر شخص معمولی سی بات س±ننے کا یارا نہیں رکھتا۔
گھریلو ملازمین۔ غریب طبقہ اِس حد تک کاہل۔ سست الوجود ہو چکا ہے کہ محض اتنا پوچھنے پر کہ ”ابھی تک فلاں کام نہیں ہوا “ نوکری چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ دوسری بڑی تبدیلی جو برسوں سے دیکھ رہے ہیں یہ ہے کہ ”ڈرائیور ہے یا خانساماں“ زیادہ سے زیادہ ایک آدھ ماہ کِسی جگہ کام کرتے ہیں تنخواہ لیتے ہیں۔ پھر گھر بدل لیتے ہیں۔ انتہائی نا مناسب حد تک چسکا پڑ گیا ہے۔غریب طبقہ کو جائے ملازمت تبدیل کرنے کا۔ یہ قوم کے لیے کِسی طور تعمیری سوچ نہیں۔ مثبت حالات نہیں۔ ہم فرض کر لیں اپنے اوپر کہ زکوٰة ہے یا صدقہ خیرات یا پھر اپنے مال سے دینے کا جذبہ۔ پہل ”سنت محمد “ کے مطابق لازم کر لیں۔ سب سے پہلے رشتہ دار پھر گھریلو ملازمین پھر باہر کے مستحق لوگ۔ بھٹوں۔ تعمیراتی جگہوں پر گرمی۔ سردی۔ طوفانوں میں کام کرنے والے مزدور زیادہ مستحق ہیں ہماری امداد، توجہ کے۔ بہ نسبت بڑے خیراتی اداروں کے کہ ہر جگہ ”ذاتی ملکیت“ کا راج ہے خیرات پر سفر۔ٹکٹ۔رہائش۔ ٹشن۔ دنوں میں لوگوں کے ح±لیہ کو بدلتے دیکھا۔ سوچئیے ہزاروں ”این جی اوز“۔ کارنامے اتنے کہ سن کر دل چاہتا ہے کہ ابھی سارے کا سارا مال ان کو دان کر دیں۔ پر نتائج؟۔ غریب پہلے سے زیادہ۔ تعلیم پہلے سے کمزور۔ کروڑوں بچے تعلیم سے محروم۔ لاکھوں لوگ ایک وقت کی روٹی پر گزارہ کرتے ہوئے۔ صاف پانی نہ پہلے میسر تھا نہ ”اربوں روپے“ کے عطیات کے بعد دستیاب ہے۔ کروڑوں کے اشتہارات پر خود ساختہ خیراتی مالکان کی چمکتی بڑی بڑی تصویریں اور ہم نیک اتنے کہ ”چند ہزار کا عطیہ“ دیتے وقت محسوس کر رہے ہوتے ہیں کہ سامنے جنت الفردوس کا پکا رہائشی۔ عصر وقت کا ولی اللہ کھڑا ہے بس اب ”اصل مالک“ معاف فرما دے ورنہ اعمال تو ایسے نہیں کہ کچھ سوچ کر گارنٹی مان لیں۔ اصل چیز۔ جمع پونچی عزت ہے۔ نہ اپنی اور نہ دوسروں کی عزت کو اعلانیہ۔ پوشیدہ طریقوں سے مت روندیں۔ سوال کِسی بھی طرف سے ہو سب دلچسپی سے س±نتے ہیں اور صحیح جواب بھی سننے کے شائق ہوتے ہیں۔ پھر سوال ہو ایسے ”ادارہ“ کی طرف سے جو ہمارا ”مالیاتی ان داتا“ ہے تو پھر دلچسپی دو چند ہو جاتی ہے۔ جواب ہے ”نیت کی فنی خرابی “ نہ ہمارے پاس وسائل کی کمی ہے نہ اہلیت۔ طاقت۔ ہنر۔ علم کی۔ صرف اتنا کر لیں کہ اب میرٹ اور سچ۔ حق کو منشور بنالیں۔ اپنے وطن کی سلامتی۔ اپنے عوام کی عزت کی بحالی کا آغاز کر دیں اب مزید تناو¿۔ تصادم۔ جھگڑوں کا وقت نہیں۔ بحالی کا مرحلہ ہے۔ پاکستان ہے تو ہم ہیں ہم ہیں تو عہدے ہیں۔ بارہا اِسی عنوان پر کالمز چھپ چکے ہیں بس اب عمل ہونا باقی ہے۔
”آئی۔ایم۔ایف کا سوال“
Mar 29, 2024