دنیا میں امریکہ واحد متحدہ ریاستوں کا مجموعہ ہے جہاں کے سیاستدان نہ صرف انتخابی مہم کے لیے عوام سے بھاری رقوم بطور چندہ لے سکتے ہیں بلکہ انہیں لابنگ فرم بنانے کی بھی اجازت ہے جس کے ذریعے دنیا بھر میں کسی بھی ملک کا کوئی فرد واحد، سیاسی جماعت ،حکومت یا کوئی ادارہ امریکہ میں ان لابنگ فرمز کو اپنے مفادات یا جماعت کے لیے وکیل کرسکتا ہے۔ امریکی قانون اراکین کانگریس کی لابنگ فرمز کی مرضی یا دونوں فریقین یعنی لابنگ کے لئے وکیل کی گئی فرم کے درمیان طے پانے والی امریکی ڈالروں میں رقوم وصول کرنے کی اجازت بھی دیتا ہے۔یہاں تک کہ امریکی اراکین کانگریس اپنی لابنگ فرم کے گاہکوں کے مفادات کو بروئے کار لانے کے لیے ان کی حمایت میں بل کانگریس میں پیش کرنے کے مجاز ہوتے ہیں۔ جہاں مذکورہ بل کو پاس یا مسترد کرنے کے لیے ووٹنگ کے عمل سے گزارا جاتا ہے۔بادی النظر میں یہ ایک طرح کی کھلے عام کرپشن ہے جس میں دنیا کا طاقتور ملک اپنے سیاستدانوں کو عالمی سطح پر ملکوں کی باہمی کشیدگیوں اور دیگر تنازعات کو حل کرانے کے بجائے ڈالر لے کر جلتی پر تیل ڈالنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ انہی لابنگ فرمز کے ذریعے امریکی ساختہ اسلحہ کی فروخت کیلئے سودے بازی عمل میں آتی ہے تاکہ دنیا میں جنگ کا ماحول بنا رہے اور امریکی اسلحہ ساز کار خانے ڈالر کماتے رہیں۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ ماضی میں بھارت متعدد بار امریکی لابنگ فرمز کے ذریعے بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام لگا کر بلوچستان کی علیحدگی کے حوالے سے بل امریکی کانگریس میں لے جانے کی کوششیں کرتا رہا ہے۔ یہ جانتے ہوئے کہ امریکی کانگریس اس طرح کے بلز پر رائے شماری نہیں کرائے گی لیکن امریکی نمائندگان اپنی لابنگ فرم کوملنے والی بھاری رقوم حلال کرنے کے لیے پہلے تو کانگریس میں رائے شماری کا بیانیہ خبروں کی زینت بناتے پھر بھارت کے حمایتی اراکین کانگریس پاکستان مخالف بیان بازی کرتے جسے بھارت سرکار اور بھارت کا میڈیا پاکستان کے خلاف بھر پور انداز سے بطور پروپیگنڈہ استعمال کرتا اور اس پروپیگنڈے کو بنیاد بنا کر پاکستان میں قوم پرست عناصر امریکی اراکین کانگریس کے پاکستان کے خلاف دیئے گئے بیانات کو بنیاد بنا کر پاکستانی عوام کی ملک کے خلاف ذہن سازی کرتے جس میں بلوچستان کے معصوم عوام ان کا اصل ہدف ہوتے۔ مغربی ممالک میں پاکستان مخالف سیمینار منعقد کرنے کا اہتمام کیا جاتا حالانکہ بھارت ہو یا اسکے مفادات کے لیے امریکہ میں کام کرنے والی امریکی ایوان نمائندگان کی لابنگ فرم، دونوں اس حقیقت سے بخوبی آگاہ تھے اور ہیں کہ وہ لاکھ کوششوں کے باوجود بلوچستان کی علیحدگی کیلئے امریکی حکومت یا کانگریس کو پاکستان کے خلاف متحرک نہیں کر سکتے۔تاہم اس طرح کے ہتھکنڈوں سے وہ پاکستانی عوام کے لیے پریشانی کا باعث بن کر پاکستان کی حکومتوں کو دباو¿ میں رکھنے کی اپنی مذموم کوششیں ضرور جاری رکھتے۔
امریکہ میں 2 پاکستانی نڑاد امریکی شہریوں کی طرف سے حال ہی میں لابنگ کا نتیجہ چند روز قبل امریکہ کی طرف سے وسطی ایشیاءکے لیے مقرر کردہ معاون وزیر خارجہ ڈونلنڈ لوکی امریکی کانگریس کے نمائندگان کی کمیٹی برائے امور خارجہ کے سامنے پیشی کی صورت سامنے آچکا ہے۔ امریکہ میں امریکی کانگریس کی سب کمیٹیوں میں امریکی فوج کے جرنیلوں سے لے کر اہم حکومتی عہدے داروں تک کی پیشی یا ان کی جواب طلبی معمول کی کارروائی سمجھی جاتی ہے۔ جس میں اپنا نام رجسٹر کرانے کے بعد کوئی بھی امریکی شہری اس طرح کی کارروائی کو دیکھنے کے لیے کمیٹی ہال میں جاسکتا ہے جہاں وہ احتجاج بھی کر سکتا ہے تاہم احتجاج کرنے پر اسے وہاں موجود سکیورٹی والے احترام کے ساتھ ہال سے باہر کی راہ دکھاتے ہیں۔ اس کارروائی کو کمیٹی روم سے انٹرنیٹ کے ذریعے یوٹیوب پر براہ راست دکھانے کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ عالمی سطح پر دیکھنے والے امریکہ میں جمہوری نظام اور وہاں دی جانے والی اظہار رائے کی آزادی پر امریکہ کے لیے واہ واہ کرسکیں۔ یہ سوچے بغیر کہ امریکی لابنگ فرم کا کاروبار اسی آزادی رائے کے بل بوتے پر چل رہا ہے۔
ایسا ہی ایک نظارہ 20 مارچ 2024 ءکی شب ڈونلڈ لوکی امریکی اراکین کی کمیٹی برائے خارجہ امور کے سامنے جواب دہی کا تھا۔جس کے لیے امریکی میڈیا کے مطابق امریکہ میں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ سجاد برقی اور اس کے ساتھی عاطف خان نے 2 امریکی اراکین کانگریس کو لاکھوں ڈالر بطور لابنگ ادا کیے تھے۔اس امریکی لابنگ فرم نے درجنوں دیگر اراکین کانگریس کے دستخطوں سے ڈونلڈ لوکی کمیٹی برائے امور خارجہ کے سامنے پیشی کو ممکن بنایا۔ پیشی کا دن مقرر ہوگیا تو ڈونلڈ لو اپنا موقف پیشی سے چند روز قبل ہی اراکین کمیٹی اور کمیٹی کے چیئرمین کو پہنچا چکا تھا۔ جس پر کمیٹی کے اراکین نے اپنے سوالات ترتیب دیئے۔ ساتھ ہی پاکستان میں سوشل میڈیا کے ذریعے بڑے پیمانے پر تشہیر کی گئی کہ بس ڈونلڈ لوکی پیشی ہوجائے پھر دیکھیں کہ پاکستان میں کیسا انقلاب برپا ہوتا ہے۔ تاثر پھیلایا گیا کہ جیسے پیشی کے روز امریکی ایوان نمائندگان ڈونلڈ لو کی ایسی چھترول کریں گے کہ اسے نانی یاد آجائے گی۔سوشل میڈیا کے ذریعے پاکستان میں پھیلایاجانے والا یہی تاثر تھا جس کی وجہ سے پاکستان کے تمام نجی ٹیلی ویژن چینلوں نے ڈونلڈ لو کی پیشی اور وہاں ہونے والے سوال جواب کو براہ راست دکھایا۔ پاکستان میں ناظرین منتظر رہے کہ امریکی اراکین کانگریس کی کمیٹی سوال جواب مکمل ہونے کے بعد ڈونلڈ لو کے خلاف ضرور کوئی فیصلہ صادر کرے گی۔ جب کچھ نہیں ہوا تو پاکستان میں تحریک انصاف کے حامیوں نے کمیٹی کے اراکین کے لتے لینا شروع کر دیئے کہ وہ امریکی وزارت خارجہ کے دباو¿ میں آگئے تھے۔ یہ سوچے بغیر کہ اس پیشی میں کیے گئے سوالات اور ان کے جوابات سے اور تو کچھ نہیں ہوا البتہ پاکستان کو مزید بدنام کرنے کے لیے بھارتی میڈیا کو مواد ضرور مل گیا ہے۔یہاں ہمارے سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان کب تک امریکی لابنگ فرمز کے ذریعے اقتدار میں اپنی جگہ بنانے کی کوششوں میں پاکستان کے عوام میں پہلے سے موجود تقسیم اور باہمی نفرتوں میں اضافہ کا سبب بنتے رہیں گے۔ امریکی میڈیا میں سجاد برقی اور عاطف خان کے حوالے سے اس طرح خبریں بھی زیر گردش ہیں کہ وہ امریکہ میں پاکستان تحریک انصاف کے لیے ماضی میں جمع کیے جانے والے فنڈز میں ہیرا پھیری کے مرتکب پائے گئے ہیں اور اب وہ بانی پاکستان تحریک انصاف کی جیل سے رہائی کی مد میں ڈالر اکٹھے کرنے میں مصروف ہیں۔ساتھ ہی ان کی کوشش ہے کہ کسی طرح انتخابی عمل میں بے ضابطگیوں کا الزام لگا کر وکیل کی گئی امریکی لابنگ فرم کی معاونت سے پاکستان پر پابندیاں عائد کرائی جائیں جو پہلے ہی شدید طرح کے معاشی بحران کا شکار ہے جبکہ یہ حقیقت بھی ڈھکی چھپی نہیں کہ خطے میں اپنے سیاسی و دفاعی مفادات کی تکمیل کیلئے امریکی حکام پہلے ہی پاکستان کے درپے ہیں اور ہر وقت پاکستان کو دباو¿ میں لانے کی کوششوں میں رہتے ہیں۔ یہ اب تحریک انصاف کے بانی اور دیگر لیڈران کا کام ہے کہ وہ سجاد برقی اور عاطف خان کی امریکہ میں جاری پاکستان مخالف کوششوں پر پاکستان کے عوام کو کیسے مطمئن کرتے ہیں۔