معزز قارئین ! کفّار کے ساتھ جس جنگ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم خود شریک ہوتے تھے ا±سے غزوہ کہتے ہیں۔ 17 رمضان 2 ہجری بمطابق 3 مارچ 624ءکو بدر۔ حجاز (عرب کا) ایک میدان جو مدینہ منورہ سے کوئی 80 میل مکہ معظمہ کی جانب واقع ہے۔ اسکی لمبائی 5 میل اور چوڑائی 4 میل ہے۔ پیغمبرِ انقلاب صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم کی قیادت میں مسلمانوں اور ابوجہل کی قیادت میں کفارِ مکہ، قبیلہ قریش اور دیگر عربوں کے درمیان مدینہ کے جنوب مغرب میں بدرَ نامی مقام پر ہ±وا۔ ا±سے ”غزوہ بدر کبریٰ“ بھی کہتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وَسلم کی کمانڈ میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ، حضرت ع±مر بن خطابؓ، حضرت حمزہ بن عبدا±لمطلبؓ اور سیّدنا علیؓ بن ابی طالب تھے اور ابوجہل کی راہنمائی میں عتبہ بن ربیعہ، ا±میہ بن خلف، بند بنت ِ عتبہ۔
”سیاہ رنگ کے دو پرچم!“
احادیث کے مطابق غزوہ بدر میں حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وَسلم اپنے تین سو تیرہ (313) جاں نثاروں کےساتھ مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے۔ آگے دو سیاہ رنگ کے اسلامی پرچم تھے، ان میں ایک حضرت سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ کے ہا تھ میں تھا۔ جب رزم گاہ ِبدر کے قریب پہنچے تو امام المجاہدین حضور سرور دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم نے حضرت علیؓ کو منتخب جان بازوں کے ساتھ ”غنیم“ کی نقل و حرکت کا پتا چلانے کے لیے بھیجا، انہوں نے نہایت خوبی کے ساتھ یہ خدمت انجام دی۔
”دو دھاری تلوار ذ±والفقار ! “
وہ دو دھاری تلوار ”ذ±والفقار“ جو پیغمبرِ انقلاب صلی اللہ علیہ وآلہ وَسلم کو مالِ غنیمت میں ملی تھی اور دندانے اور ک±ھدی ہ±وئی لکیریں بھی تھیں۔ ا±سے آپ نے حضرت علی مرتضیٰ ؓ کو عطا کردِیا تھا جو ” ذوالفقار علی“ کہلائی۔ امام علی رضا سے منسوب حدیث میں آیا ہے کہ ”حضرت جبرائیل علیہ السلام ا±سے آسمان سے اپنے ساتھ لائے تھے۔ یہ بھی روایت ہے کہ”وہ تلوار ابتداءمیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وَسلم کے پاس تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وَسلم نے جو لشکر مرتب کِیا اِس کی تعداد کفّار کے لشکر سے ایک تہائی تھی۔ دونوں لشکر میدان بدر میں داخل ہ±وئے۔ ڈٹ کر مقابلہ ہ±وا اور گھمسان کی جنگ ہ±وئی۔ عتبہ، شیبہ اور ابوجہل وغیرہ پہلے سے ہی حملے میں مارے گئے اور مشرکین اپنے سترہ مردے چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہ±وئے۔ اِس طرح مسلم اقلیت یقین محکم اور جذبہ عشق رسول ﷺنے اپنے سے سہ چند کفّار کو مار بھگایا۔ ذوالفقار کو اپنے دستِ مبارک میں تھام کر حضرت علی مرتضیٰؓ تمام غزوات میں آنحضرت کے ہم رکاب رہے۔ حضرت علی مرتضیؓ سے کسی نے پوچھا کہ ”آپ بے خطر جنگ میں کود پڑتے ہیں، کیا آپ کو ڈر نہیں لگتا؟“ تو آپ نے فرمایا کہ ” موت علیؓ پر گر پڑے یا علیؓ موت پر لیکن فرزند ِ ابوطالب موت سے ہرگز بھاگنے والا نہیں۔
”شانِ پیغمبرِ انقلاب!“
معزز قارئین! بہت سے صحابہ کرامؓ ، اولیائے کرام، عاشقانِ رسول اور جملہ سادات کے دست بستہ غلام شاعروں نے اپنے اپنے انداز میں پیغمبر ِانقلاب، سرورِ کائنات، خاتم ا±لنبین، حضور پ±ر ن±ور صلی اللہ علیہ وآلہ وَسلم کی شان بیان کی ہے۔ فی الحال آپ۔ غوثِ اعظم شیخ عبدا±لقادر جیلانی، خواجہ غریب نواز، نائب رسول فی الہند، حضرت معین ا±لدّین چشتی اجمیری، نامور صوفی حضرت شرف ا±لدّین مصلح سعدی شیرازی اور عاشقِ رسول علامہ محمد اقبال کا ہدیہ نعت قبول کریں۔
”حضرت غوثِ اعظم!“
”غلام حلقہ بگوش رسول و ساداتم!
زہے نجات نمودن حبیب آیاتم!“
ترجمہ:۔ ”مَیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وَسلم اور جملہ سادات کا دست بستہ غلام ہ±وں۔ ہماری نجات کے لئے یہ کتنی محبوب نشانیاں موجود ہیں!“
دِلم زحب محمد پراست و آلِ مجید!
گواہ حال منست اِیں ہمہ حکایاتم!“
ترجمہ:۔ ”میرا دِل ح±بِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وَسلم اور آپ کی برگزیدہ آل کی محبت سے معمور ہے۔ میرا حال اور کیفیت میرے اِس فلسفے اور عقیدت پر گواہ ہے!“۔
”خواجہ غریب نواز!“
”طفیلِ ذات ِ تو ہڑدہ ہزار عالم ازاں ش±د!
کہ پیشِ بحر ندارد ، وجود قطرہ شبنم!“
ترجمہ:۔ آپ (ﷺ) کے طفیل اٹھارہ ہزار عالم پیدا ہ±وئے۔ چنانچہ جس طرح سمندر کے سامنے (بے چارہ) قطرہ شبنم اپنے وجود کا کیا اظہار کرے؟“۔
”بعذر خواہی مابر ک±شائی لب بشفاعت!
کہ دِل پَرست زدر±ود لبِ تو حقہ مریم!“
ترجمہ:۔ اے شافعی محشر، ہمارے گناہوں کی شفاعت فرمانا کہ میرا دِل آپ کے حقہ مریم جیسے لبوں کی محبت سے پ±ر ہے!“۔
”شیخ سعدی شیرازی!“
”بَلَغَ الع±لیٰ بِکَمالِہ کَشَفَ الدّجیٰ بِجَمَالِہ
حَس±نَت جَمِیع± خِصَالِہ صَلو± عَلَیہِ وَآ لِہ “
ترجمہ:۔ آپ اپنے کمال کی وجہ سے بلندی پر پہنچے۔ اپنے جمال سے تاریکیوں کو روشن کِیا۔”آپ کی سب ہی عادتیں بھلی ہیں۔ آپ پر اور آپ کی اولاد پر در±ود پڑھو“۔
”عاشق ِ رسول علامہ محمد اقبال!“
معزز قارئین ! عاشقِ رسول علامہ اقبال نے سرورِ کائنات کی مختلف انداز میں شان بیان کی ہے، فرماتے ہیں
”لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب!
گنبدِ آبگینہ رنگ، تیرے محیط میں حباب!“
”عالمِ آب و خاک میں ، تیرے حضور کا فروغ!
ذرہ ریگ کو دیا، تو نے طلوعِ آفتاب! “
سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وَسلم سے مخاطلب ہو کر علاّمہ اقبال کہتے ہیں کہ ”اے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وَسلم! آپ ہی لوح ہیں آپ ہی قلم ہیں۔ علم الٰہی صرف آپ کے ذریعے سے سب پر آشکار ہ±وا۔ آپ ہی کا وجود مبارک ق±رآن مجید ہے، اس لئے کہ آپ ہی خدا کے احکامات کو اِنسانوں تک پہنچانے کا ذریعہ بنے، یہ شیشے جیسا گنبد ہے جسے، ہم لوگ آسمان کہتے ہیں کہ آپ کے سمندر میں ایک بلبلے کی حیثیت رکھتا ہے!“۔ علاّمہ صاحب نے ہر سچے مسلمان کو، مالکِ ارض و سماءکا یہ پیغام دِیا ہے کہ ....
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں!
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں!
(جاری ہے )
غزوہ بدر ، پیغمبر ِ انقلاب اور ذ±والفقارِ مولا علی ؓ (1)
Mar 29, 2024