لاہور میں سٹریٹ کریمنل بے لگام۔ ایک ماہ میں 346 وارداتیں۔
ایک طرف ملک میں دہشت گردوں کے ہاتھوں امن و امان کی صورتحال دگرگوں ہے تو دوسری طرف جرائم پیشہ افراد نے قیامت اٹھا رکھی ہے۔ لگتا ہے حکومت کی پورے ملک میں کہیں بھی رٹ قائم نہیں ہے۔ بڑے بڑے شہروں میں وارداتیں ہو رہی ہیں۔ کراچی کے بعد اب لاہور میں کریمنلز نے ات مچا رکھی ہے۔ 3 ماہ میں سٹریٹ کرائم کی 3ہزار وارداتیں ہوئی ہیں۔ صرف مارچ میں یعنی رواں ماہ میں اب تک 345 وارداتوں سے عوام میں عدم تحفظ کی فضا پیدا ہوئی ہے۔ سمجھ نہیں آ رہا جگہ جگہ ناکے، ہر موڑ پر تلاشیاں گلی کوچوں میں گشت کے باوجود یہ جرائم پیشہ افراد آخر پولیس کی نظر سے کیسے بچ جاتے ہیں۔ پولیس والے تو جیب میں پڑا رتی بھر چرس کا ٹکڑا یا چٹکی بھر ہیروئن تک دور سے پہچان لیتے ہیں۔ شکل دیکھ کر ہی مشکوک افراد کا شجرہ نسب تک بتا دیتے ہیں تو وہ ان مسلح افراد پر جو عام طور پر موٹر سائیکل سوار ہوتے ہیں اور بہت سے گاڑیوں میں بھی آتے ہیں، ہاتھ کیوں نہیں ڈالتے۔ یہ مسلح افراد کس طرح اتنے ناکوں، تلاشیوں کے باوجود دندناتے پھرتے ہیں۔ ایک ماہ میں 345 وارداتیں وہ بھی لاہور جیسے میٹروپولیٹن شہر میں جسے جگہ جگہ لگے سیفٹی کیمروں کی وجہ سے سیف سٹی بھی کہا جاتا ہے، بہت حیران کن بات ہے۔ یا تو پولیس ان جرائم پیشہ افراد سے ملی ہوئی ہے یا پھر ان لوگوں کے سرپرست بہت بااثر اور طاقتور ہیں جن کے آگے پولیس والے بھی بے بس ہیں۔ ان جرائم پیشہ افراد کے گروہ اب مافیاز کی شکل اختیار کر چکے ہیں ، منفی سرگرمیوں کی سرپرستی کرتے ہیں انہیں اسلحہ فراہم کرتے اور ان کی قانونی معاونت بھی کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ جیلوں میں بھی ان کی بھرپور مدد کرتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
بشریٰ بی بی کو بنی گالہ میں کھانے میں زہر دئیے جانے کا خدشہ۔
وہ بھی شہد میں ملا کردینے کا۔ بڑی حیرت کی بات ہے۔خدا جانے یہ افسانوی سازش کون کر رہا ہے۔ اس کا کوئی وجود بھی ہے یا نہیں۔ لگتا تو یہ ہے کہ سازش یعنی بشریٰ بیگم کو زہر دینے کا خیال فی الحال ایسا سوچنے والوں کے ہی دل و دماغ میں پل رہا ہے۔ ورنہ سب جانتے ہیں ایسا کرنا آسان نہیں ہو گا۔ پہلے ہی شور مچایا جا رہا کہ اڈیالہ جیل میں قید کپتان کو زہر دیا جا رہا ہے انہیں مارنے کی سازش ہو رہی ہے۔ اب اچانک نجانے کیوں زہر دینے کے ڈانڈے بشریٰ بی بی سے بھی ملائے جا رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق انہوں نے گزشتہ روز کہا تھا کہ اڈیالہ جیل میں اپنے شوہر سے ملاقات کے بعد جب وہ واپس اڈیالہ سے اپنے گھر بنی گالہ آئیں (جہاں وہ قید ہیں) تو انہیں شہد میں کچھ ملا کر دیا گیا ہے جو زہر ہو سکتا ہے۔ بس اس کے بعد پی ٹی آئی والوں نے سوشل میڈیا پر مہم شروع کر دی کہ بیگم کپتان کو کھانے میں زہر دے کر مارنے کی سازش ہو رہی ہے۔ ایسا کرنا آسان نہیں ہو گا۔ بنی گالہ کے محل میں ان کے اپنے ذاتی ملازمین موجود ہیں مگر کہا جاتا ہے کہ انہیں ایک کمرے تک محدود رکھا گیا ہے۔ دونوں طرف سے الزامات اور جوابات کی گرد نے حقائق چھپا دیئے ہیں۔ خدانخواستہ ایسا کرنا بھڑوں کے چھتے کو چھیڑنا ثابت ہو سکتا ہے جس طرح بھوسے کے ڈھیر کو ایک چنگاری جلا کر خاکستر کر دیتی ہے۔ ایسی کوئی بھی حرکت پورے سیاسی نظام کو تہہ و بالا کر سکتی ہے۔ اس لیے امید تو یہی ہے کہ یہ معاملہ افواہ سازی تک ہی محدود رہے گا اور زہر والا واقعہ صرف فسانہ ثابت ہو گا۔ تاہم فی الحال محتاط رہنا ضروری ہے۔ بلاوجہ بلڈ پریشر ہائی کرنے سے اپنی ہی صحت خراب ہو سکتی ہے۔ لیڈروں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا جن کے لیے لوگ اپنا خون جلاتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
رفح میں امریکی فضائی امداد موت بانٹنے لگی، متعدد افراد سمندر میں ڈوب کر ہلاک۔
جب کڑا وقت آتا ہے تو وہ اپنے ساتھ اور بھی بہت سے مصائب و آلام لاتا ہے۔ اب غزہ میں اسرائیلی جارحیت کو ہی دیکھ لیں یہ اپنے جلو میں تباہی اور موت کے علاوہ بڑے پیمانے پر انسانی ہجرت اور بھوک و پیاس بھی لائی ہے۔ اسرائیلی درندے ہر عمارت کو تباہ، ہر فلسطینی کو شہید یا گرفتار کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ کھانے پینے اور ادویات کی ایک معمولی سی مقدار بھی اس تباہ حال شہر کے باسیوں کو نصیب نہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ انرو کی رپورٹ کے مطابق 13 ہزار سے زیادہ بچے جنگ میں مارے جا چکے ہیں جبکہ مجموعی اموات 34 ہزار سے زیادہ ہیں۔ اب غزہ کی مکمل ناکہ بندی کے بعد 2 ماہ ہونے کو آ رہے ہیں، غزہ میں غذائی بحران قحط کی صورتحال پیدا کر چکا ہے۔ بچے اور بوڑھے بھوک و پیاس سے اور بیمار ادویات نہ ملنے سے دم توڑ رہے ہیں۔ اسی ماہ کے شروع میں امریکہ نے فضائی امدادگرانے کا منصوبہ پیش کیا تھا۔ کیونکہ زمینی راستے اسرائیلی فوج نے بند کئے ہوئے ہیں اس وجہ سے اب امریکہ ہوائی جہازوں کے ذریعے غزہ میں امدای سامان اور کھانے پینے کی اشیا پھینک رہا ہے۔ اب یہ بھی ایک نئے المیہ کی وجہ بن رہا ہے۔ خدا جانے جان بوجھ کر یا انجانے میں کہ پہلے امدادی سامان گرنے سے متعدد افراد اس کی زد میں آ کر ہلاک ہوئے، اب کی بار تو حد ہو گئی۔ یہ سامان سمندر میں گرایا گیا جسے حاصل کرتے ہوئے 12 سے زیادہ افراد سمندر میں ڈوب کر جاں بحق ہو گئے ہیں۔ یوں بھوک سے مرنے والے اب خوراک کے حصول میں جان کی بازی ہار رہے ہیں۔ یہ قسمت کی ستم ظریفی ہے یا نہیں کہ بچاﺅ کی کوئی راہ نظر نہیں آ رہی۔ یہ تو وہی
جسے موت نے نہ پوچھا
اسے زندگی نے مارا
والی بات ہے۔
٭٭٭٭٭
یقین نہیں آتا داعش ماسکو پر حملہ کر سکے۔ روس نے برطانیہ امریکہ اور یوکرائن پر الزام دھر دیا۔
یقین تو کسی کو نہیں آ رہا کہ ماسکو میں داعش اتنی بڑی کارروائی کر سکے۔ خدشہ یہ ہے کہ کہیں منصوبہ سازوں نے نیویارک کے 9/11 کی طرز پر اتنی شدید کارروائی کا منصوبہ نہ بنایا ہو تاکہ اب روس کی طرف سے بھی اسلامی تنظیموں کو ٹھکانے لگانے کی کارروائی شروع کی جا سکے۔ جس طرح نیویارک ٹوئین ٹاور سانحہ کے بعد دنیا بھر میں چن چن کر مسلح یا غیر مسلح دہشت گرد یا پرامن کی تخصیص کے بغیر ہی مسلم تنظیموں اور مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ مگر لگتا ہے روس میں ابھی کچھ لوگ موجود ہیں جو حالات کی نزاکت دیکھ رہے ہیں وہ جانتے ہیں کہ یوکرائن تنازعہ میں امریکہ برطانیہ اور پوری یورپی دنیا جس طرح روس کے خلاف صف آرا ہے یوکرائن کو اسلحہ اور طرح طرح کی امداد دے رہے ہیں۔ یہ سارا کیا دھرا انہی ممالک کا ہے جنہوں نے یوکرائن کی مدد سے یہ کارروائی کرائی اور نام داعش کا لیا جا رہا ہے۔ اب یہ سب جانتے ہیں کہ دہشت گردی ایک ایسا ناسور ہے جس سے پوری دنیا متاثر ہو رہی ہے۔ داعش، القاعدہ یا کوئی اور بھی اسلامی یا غیر اسلامی تنظیم اس ناسور کو پھیلانے میں معاون ثابت ہو رہی ہے تو ان کا قلع قمع بہت ضروری ہے۔ اچھے یا برے سے ہٹ کر ہر دہشت گرد کو، دہشت گرد تنظیم کو صفحہ ہستی سے نابود کئے بغیر دنیا میں امن اور خوشحالی کی راہ ہموار نہیں ہو سکتی۔ پاکستان کو بھی اس وقت دہشت گردی کی جنگ میں چوکس رہنا پڑ رہا ہے جہاں افغانستان سے بی ایل اےاور تحریک طالبان پاکستان کے انسانیت دشمن دہشت گرد آ کر آئے روز کوئی نہ کوئی کارروائی کر رہے ہیں ان لوگوں سے کوئی ر عایت برتنا اپنے شہدا کے خون سے غداری ہو گی۔
٭٭٭٭٭