بشام شانگلہ میں چینی قافلے پر خودکش حملہ کے بعد پاکستان کی سول و عسکری قیادتوں نے یک زبان ہو کر دہشت گردی کے مکمل خاتمہ اور دشمنوں کی پاکستان چین تعلقات میں دراڑیں ڈالنے کی سازشیں ناکام بنانے کا عہد کیا۔ اس سلسلہ میں گزشتہ روز وزیراعظم میاں شہبازشریف کی زیرصدارت منعقد ہونیوالے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں‘ جس میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر بھی شریک تھے‘ تمام ریاستی وسائل بروئے کار لا کر دہشت گردی کا بھرپور انداز میں مقابلہ کرنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا اور کہا گیا کہ ملک کے مہمانوں کے دشمنوں سے آخری حد تک لڑا جائیگا۔ وزیراعظم نے اس سلسلہ میں ہدایت کی کہ دہشت گردی کے متذکرہ واقعہ کی مشترکہ تحقیقات کی جائے‘ اجلاس میں داسو ہائیڈل پاور پراجیکٹ پر کام کرنیوالے چینی شہریوں پر دہشت گرد حملے کے پس پردہ محرکات کا جائزہ لیا گیا اور اس خودکش حملے میں جاں بحق ہونیوالے چینی شہریوں کے اہل خانہ سے دلی تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے انہیں یقین دلایا گیا کہ اس وحشیانہ فعل کے مجرموں کو جلد انصاف کے کٹہرے میں لایا جائیگا۔ وزیراعظم شہبازشریف نے پاکستان اور چین کے عوام کے مابین بھائی چارے کے پائیدار رشتے کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ چینی باشندوں کی جانوں کے ضیاع پر پوری قوم غمزدہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی ایک بین الاقوامی خطرہ ہے جسے پاکستان کے دشمنوں نے پاکستان کی ترقی و خوشحالی میں رکاوٹ ڈالنے کیلئے استعمال کیا ہے۔ اجلاس کے شرکاءنے سرحد پار دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کیلئے علاقائی صورتحال کو پیش نظر رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔ چیف آف آرمی سٹاف نے ملک کو درپیش دہشت گردی کی لعنت کے خاتمہ کیلئے مسلح افواج کے عزم کا اعادہ کیا اور کہا کہ قوم گزشتہ دو دہائیوں سے دہشت گردی کیخلاف جنگ لڑ رہی ہے اور پاکستان کے دشمنوں کے مذموم عزائم کو ناکام بنایا ہے۔ اب پاکستان کے دشمنوں نے ایک بار پھر ریاست اور پاکستان کے عوام کے حوصلے اور عزم کا غلط اندازہ لگایا ہے۔ ہم دہشت گردی کیخلاف اس وقت تک جنگ لڑیں گے جب تک پاکستان‘ اسکے عوام اور یہاں کام کرنیوالے غیرملکی مہمانوں پر بری نظر رکھنے والے ہر دہشت گرد کا خاتمہ نہیں ہو جاتا۔ دریں اثنائ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے گزشتہ روز وزیراعظم ہاﺅس میں وزیراعظم شہبازشریف سے ملاقات بھی کی جس میں ملک کی سیاسی اور سکیورٹی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں وفاقی وزراءاور سکیورٹی ایجنسیز کے سربراہان کے علاوہ آئی جیز اور دوسرے اعلیٰ حکام نے بھی شرکت کی۔
اس بارے میں تو اب کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان اور اس خطے کے امن و سلامتی کے بدخواہوں کو پاکستان اور چین کی بڑھتی دوستی ہرگز سوٹ نہیں کرتی کیونکہ اس سے انہیں بالخصوص پاکستان کی سلامتی تاراج کرنے سے متعلق اپنے مذموم عزائم پر زد پڑتی نظر آتی ہے۔ ان بدخواہوں میں بھارت صف اول میں ہے جس نے امریکہ کی شروع کردہ افغان جنگ کے دوران کابل کے امریکی کٹھ پتلی حکمرانوں کے ساتھ سازباز کرکے انہیں بھی پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کے عزائم میں شامل کیا جنہوں نے نہ صرف بھارت کو افغان سرزمین پر دہشت گردوں کی تربیت کرکے انہیں افغانستان کے راستے پاکستان میں داخل کرنے کا موقع فراہم کیا بلکہ وہ امریکی نیٹو فورسز کو پاکستان پر حملہ کرنے کیلئے بھی اکساتے رہے۔ افغانستان سے امریکی نیٹو فوجوں کے انخلا کے بعد توقع تھی کہ طالبان کی کابل حکومت خطے میں دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے پاکستان کے ساتھ تعاون کریگی مگر طالبان حکمرانوں نے بھی پاکستان کے ساتھ خواہ مخواہ دشمنی والا طرز عمل اختیار کرلیا جو سابقہ افغان حکمرانوں ہی کی طرح بھارت کے ہاتھوں کھیل کو دہشت گردوں کی سرپرستی کرنے اور پاکستان کی سلامتی کو کھلم کھلا چیلنج کرنے لگے۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے جن کے محفوظ ٹھکانے افغان سرزمین پر ہیں‘ پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں بالخصوص اسکی سکیورٹی فورسز کو ہدف بنانا شروع کیا چنانچہ گزشتہ دو سال کے عرصہ میں پاکستان میں ہونیوالی دہشت گردی کی تقریباً تمام وارداتوں میں ٹی ٹی پی کے لوگ ملوث نکلے جنہوں نے بالخصوص خیبر پی کے اور بلوچستان میں فوجی کیمپوں اور قافلوں پر حملے کئے۔ ڈیڑھ ہفتے قبل کے پی کے اور گوادر پورٹ بلوچستان میں ہونیوالی دہشت گردی کی دو گھناﺅنی وارداتوں میں ایک درجن کے لگ بھگ فوجی جوان اور افسران شہید ہوئے جس پر پاک فوج نے افغانستان میں ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں پر بھرپور جوابی کارروائی کرکے دہشت گردوں کو جنم واصل کیا جبکہ کابل کی طالبان حکومت نے پاکستان کے اس ایکشن کی ستائش کے بجائے اسکے ساتھ مزید جارحانہ رویہ اختیار کرلیا اور جوبی کارروائی کی دھمکیاں دینا شروع کردیں۔ اس صورتحال میں بشام میں داسو ہائیڈل پراجیکٹ پر کام کرنیوالے چینی باشندوں کی گاڑی کے ساتھ بارود بھری گاڑی ٹکرانے کے واقعہ سے جس میں پانچ چینی باشندوں سمیت چھ افراد جاں بحق ہوئے‘ طالبان کی کابل انتظامیہ کے عزائم بھی کھل کر سامنے آگئے کہ اس خودکش حملے میں ٹی ٹی پی کے دہشت گرد ہی شریک تھے جس کے ٹھوس ثبوت پاکستان کے پاس موجود ہیں۔
اس دہشت گردی کے دو مقاصد تو بالکل واضح ہیں۔ ایک یہ کہ کابل انتظامیہ کی جانب سے پاکستان کو دی جانیوالی دھمکیوں کا اس واردات کی صورت میں عملی مظاہرہ کیا گیا اور دوسرے یہ کہ پاکستان اور چین کے مابین غلط فہمیاں پیدا کرکے پاک چین دوستی میں دراڑیں ڈالنے کی جاری بھارتی سازشوں کو بھی اس خودکش حملے کے ذریعے عملی جامہ پہنایا گیا۔ مگر پاکستان کی اعلیٰ سطح کی سول اور عسکری قیادتوں نے اس واقعہ پر چین کے ساتھ ٹھوس بنیادوں پر ہمدردی کا اظہار کرکے اور چینی باشندوں کی حفاظت کا یقین دلا کر یہ بھارتی عزائم خاک میں ملا دیئے۔ اس واردات کے فوری بعد وزیراعظم شہبازشریف اور اس سے اگلے روز صدر مملکت آصف علی زداری نے چینی سفارت خانہ جا کر چینی سفیر کو چینی باشندوں کی حفاظت کیلئے ٹھوس اقدامات کا یقین دلایا اور پھر چینی سفیر نے داسو ہائیڈل پاور پراجیکٹ کا دورہ کرے حفاظتی انتظامات کا جائزہ بھی لیا اور اس پر اطمینان کا اظہار کیا۔ اسی طرح چین کے وزیر خارجہ نے گزشتہ روز دہشت گردی کے خاتمہ اور چینی باشندوں کی حفاظت کیلئے پاکستان کی کوششوں اور اقدامات پر اطمینان کا اظہار کیا۔ اس سلسلہ میں چینی وزارت خارجہ کے جاری کردہ بیان میں بشام دہشت گردی میں چینی باشندوں کی گاڑی کو نشانہ بنانے کی مذمت کی گئی، پاکستان سے اس واقعہ کی جامع تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا اور ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا کہا گیا۔ گزشتہ روز وزیراعظم کی زیرصدارت سول اور عسکری قیادتوں کے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں اسی تناظر میں بشام دہشتگردی کے پس پردہ محرکات تک پہنچنے کیلئے جے آئی ٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور برادر چین کو پاکستان میں کام کرنیوالے چینی باشندوں کی حفاظت کے ٹھوس اقدامات بروئے کار لانے کا یقین دلایا گیا ہے جس پر چین نے اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ ملک کے سکیورٹی اداروں میں موجود ہر قسم کے لیپس کے ٹھوس بنیادوں پر تدارک کی بھی ضرورت ہے تاکہ دشمن کو ہمارے سکیورٹی سسٹم میں موجود کسی بھی کمزوری سے فائدہ اٹھانے کا موقع نہ ملے۔ اسکے ساتھ ساتھ اب افغانستان کے معاملہ میں ویسی ہی پالیسی طے کرنے کی ضرورت ہے جو کسی دشمن ملک کیلئے طے کی جاتی ہے۔
سول اور عسکری قیادتوں کا چینی باشندوں کی حفاظت یقینی بنانے کا عزم
Mar 29, 2024